مشورے اور حماقتیں
کتنے ریفارمر پیدا ہوئے، انقلابات آئے، دانا دانشوروں نے کیا کیا نظرئیے پیش کیے لیکن یہ دنیا اونٹ کی اونٹ رہی اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ پتہ چلا کہ یہ کب کہاں اور کس کروٹ بیٹھے گی۔
دراصل یہ جو انسان نام کی چیز ہے اس نے خود ہی کو بہت بڑی توپ سمجھ اور بنا رکھا ہے ورنہ یہ کچھ بھی نہیں جانتا۔بلکہ جتنا جانتا جاتا ہے اتنا انجان ہوتا جاتا ہے۔اور اس کا اعتراف صرف ایک شخص سقراط نے کیا تھا کہ میں نے ساری عمر میں یہ جان لیا کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا،صرف کہا ہی نہیں بلکہ ندامت کے مارے زہر کا پیالہ گھٹک کر اس دنیا سے فرار بھی ہو گیا۔ ایک دو اور لوگ بھی کچھ کچھ جاننے والے گزرے ان میں ایک تو میر صاحب تھے جنھوں نے اپنی سادگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یعنی خوب جان کر بھی انجان بنتے رہے جیسے ہم بھی ان ہی عطاروں اور ان کے لونڈوں سے ’’دوا‘‘ لیتے ہیں جن کے طفیل تقریباً بستر پکڑچکے ہیں، دوسرے سادہ احمد فراز نام کے تھے کہ ؎
ہم بھی کیا سادہ ہیں ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دنیا سے الگ ہے غم جاناں،جاناں
دوسرے کالم نگاروں کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہم تو سدا سدا کے پکے وٹے سادہ ہیں کہ اپنے خیال میں ہم اکثر حکومت کو’’مشورے‘‘ دیتے رہتے ہیں اور اپنے خیال میں بہت دور دور کی کوڑیاں بھی لاتے ہیں مثلاً ایک مرتبہ ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ جب گیس اور پٹرولیم کا یہ حال ہے تو گاڑیوں کے لیے ’’ماڈل‘‘ کی شرط لگائیں کہ اس وقت سڑکوں پر ایسی گاڑیاں دوڑ رہی ہیں اور گیس و پٹرولیم پھونکتی ہیں جن کا کوئی ماڈل ہے ہی نہیں اور جن میں مغلیہ دور،سکھاشاہی دور،انگریزی اور پاکستانی دور سب کے پرزے جمع کیے گئے ہیں۔ پھر ہم نے ایک اور احمقانہ مشورہ یہ بھی دیا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ سے مفت خوروں، نشئیوں اور بدمعاشوں کو پالنے کے بجائے یہ رقم سولرٹیکنالوجی میں خرچ کریں تو چند سال میں سارا ملک روشن ہوجائے گا یا کسی ڈیم پر لگائیں۔
تیسرا جاہلانہ مشورہ ہم نے یہ دیا تھا کہ یہ وزیروں، مشیروں، معاونوں،قائمہ کمیٹیوں اور بے فیض اداروں کی عیاشی کم کریں اور فنڈز کو مال غنیمت کی طرح بانٹنا چھوڑ دیں۔ یوں ہی ہم نے اور بھی ’’اسٹوپڈ‘‘ قسم کے مشورے دیے اور دیتے رہے۔وہ تو خدا بھلا کرے ہمارے اس دوست کا جن سے ہماری ملاقات آئینے میں ہوتی ہے، اس نے سمجھایا کہ دانا دانشور لوگ ’’احمقوں‘‘سے ’’دانش‘‘ سیکھتے ہیں۔اور تم دانا دانشوروں سے حماقت سیکھتے ہو، کیا تم سمجھتے ہو کہ جو مشورے تم دیتے ہو تو کیا ’’ان‘‘ لوگوں کو ان باتوں کا پتہ نہیں ہے؟وہ تم سے زیادہ قابل، زیادہ ہوشیار ہیں کہ ان کا سو پشت سے پیشہ یہی ہے۔ثبوت یہ ہے کہ مٹھی بھر ہوکر اتنے عرصے سے کالانعاموں پر سواری کرتے آئے ہیں وہ سب کچھ سمجھتے ہیں ؎
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کہ گیس اور پٹرولیم کے بھی وہی سوداگر ہیں جتنی قلت ہوگی، کھپت ہوگی ان کا فائدہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔اگر بجلی وافر اور سستی ہوجائے تو اس مد میں بھی ان ہی یا ان کے ’’بائیکوں‘‘ کا فائدہ ہے۔بے نظیرسیکم ختم کریں گے تو وہ’’لوٹوں‘‘ کی پیشگی خریداری کیسے کریں گے، جلسوں جلوسوں اور دھرنوں کے لیے ’’کارکن‘‘ کہاں سے لائیں گے اور یہ وزیروں، مشیروں، معاونوں اور کمیٹیوں کا سلسلہ بھی تو ’’تم چوپو‘‘اور مجھے بھی’’چوپنے‘‘دو پر مبنی ہے۔تم پاگل ہو، احمق ہو، بدھو ہو۔وہ ’’مسائل‘‘ ختم کردیں گے تو لوٹیں گے کیسے؟ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔ امراض ختم ہوجائیں تو ڈاکٹر پکوڑے بیچیں گے، دواساز کمپنیاں ٹافیاں بانٹیں گی یہ اسپتال،یہ کلینک ،یہ لیبارٹریاں کہاں جائیں گی؟
بحرساکن ہو تو تم کو کوئی پوچھے بھی نہیں
نا خدا خیر منا بحر میں طوفانوں کی
ایک مرتبہ ایک علاقے میں وہاں کے پانی کی شفایابی کا غلغلہ مچ گیا تو بات یہاں تک بڑھی پورے علاقے میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہوگیا کیونکہ ہر روٹ کی گاڑیاں وہاں کے روٹ پر چلنے لگیں۔ ہمارے گاؤں سے بھی روزانہ ایک بس بھر کر سواریاں جاتی تھیں۔ہم نے اس پر بولنا شروع کیا تو وہ بس والا آکر بولا ،کیوں میری روزی میں لاتیں مار رہے ہو؟چپ ہوجاؤ۔یہ سب کچھ کوئی دو مہینے رہا آج کسی کو یاد بھی نہیں وہی پانی اب بھی وہیں پر موجود ہے۔ بلکہ لوگ اس کا نام تک بھول چکے ہیں۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہم مفت میں اپنا مغزکھپائی کر رہے ہیں وہ سب جانتے بھی ہیں، سمجھتے بھی ہیں۔ویسے اس حماقت میں ہم اکیلے نہیں اور بھی بہت سارے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ادھر ہم نے مشورہ دیا اورادھر سے واہ واہ ڈونگڑے بھرسنے لگے اور’’وہ‘‘ ہمارے مشورے پر فوراً عمل پیرا ہوجائیں گے۔ایسے ایک شخص نے ہمیں ایک زبردست پلان کے بارے میں تفصیلات بھیجیں جن میں اس نے دنیا کے سارے ممالک کے سربراہوں کو خطوط بھیجے تھے اور کچھ کی طرف سے پزیرائی اور شکریے پر مبنی جواب بھی آئے تھے ان میں ضیاالحق اور نواز شریف کی طرف سے آئے ہوئے جوابات بھی تھے جن میں اس کے پلان کی تعریف کی گئی تھی اور اس پر عمل درآمد کی کوشش کا وعدہ بھی۔
ایک اور صاحب نے تو باقاعدہ ایک کتاب لکھ کر چھپوائی بھی ہے جس کا ٹائٹل ہے عالمی ماسٹرپلان، اس کتاب میں دنیا بھر کے حکمرانوں کو زرین مشورے دیے گئے ہیں۔اور آخر میں ایک لطیفہ۔ایک سادہ لوح دیہاتی پن چکی سے اناج پسوانے جا رہا تھا اور اس گدھے پر ایک طرف اناج کی بوری اور دوسری طرف ہم وزن پتھر لادا ہوا تھا، راستے میں ایک دانشور ملا تو اس نے اس شخص کی حماقت پر اسے سمجھایا کہ بیلنس برابر کرنے کے لیے پتھر کے بجائے اناج کو دو حصوں میں تقسیم کرو۔ اس نے مان لیا اور اس کی مدد سے اناج کو برابر دوحصوں میں تقسیم کرکے گدھے پر لادا۔ دیہاتی نے سوچا یہ شخص اتنا ہوشیار ہے تو بہت مالدار بھی ہوگا، پوچھنے پر اس عقل مند نے بتایا مالدار تو کیا تمہارے پاس اتنا اناج ہے جب کہ میرے گھر میں کچھ نہیں۔ دیہاتی نے فوراً اناج اتارا اور پہلے کی طرح پتھر سے بیلنس کرتے ہوئے کہا میں تجھ منحوس کی کیوں مانوں؟