بچے ہماری دُنیا کا مستقبل : انہیں محفوظ کریں، مضبوط بنائیں

اپنے بچوں کو ذہنی، روحانی، تعلیمی اور سماجی اعتبار سے باشعور بنانے کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

میں جب دُنیا اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرے ذہن میں بچوں کا مستقبل اور چہرہ آجاتا ہے۔

اس دُنیا کا حسن اور رونق بچوں سے ہے۔

جہاں ٹیکنالوجی کی وجہ سے دُنیا بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے وہیں اس کے ساتھ جڑے مسائل بھی بڑی تیزی سے ہماری زندگیوں میں جڑ پکڑ رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ جہاں بچوں کے لیے بے شمار سہولیات اور

وسائل دست یاب ہوئے ہیں وہاں ان کے لیے نئے خطرات اور چیلینجز کے امکانات بھی بڑے ہیں۔ بہ طور والدین، اساتذہ، سماجی ومذہبی راہ نما اور ایک مہذب و ذمے دار معاشرے کا فرد ہونے کے ناتے یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم بچوں کی دُنیا کو محفوظ اور مضبوط بنانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ آج کے اس مضمون میں ہم اس اہم، توجہ طلب اور وقت کی ضرورت پر گفتگو کریں گے اور چند ایسے نکات پیش کریں گے جن کی روشنی میں والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے انہیں معاشرے کا ایک باشعور اور کار آمد انسان بننے میں معاونت اور رہنمائی کرسکتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کی سب سے اولین ذمے داری والدین کی ہے، اس کے بعد سماجی ادارے یعنی خاندان اور معاشرے کے افراد والدین کی اس اہم اور بھاری ذمے داری میں معاونت کرتے ہیں۔

آج کے مشکل دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہی کافی نہیں، بلکہ انہیں ذہنی، سماجی اور جذباتی لحاظ سے محفوظ اور مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے چوںکہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جس قسم کی برائیاں جنم لے رہی ہیں ان سے نہ صرف بچوں کو آگاہ کرنا لازم ہے بلکہ کیسے محفوظ رہنا ہے ایک اہم ذمے داری ہے۔

کوئی بھی والدین 24 گھنٹے اپنے بچوں کی مکمل طور پر دیکھ بھال اور حفاظت نہیں کر سکتے۔ اس لیے اس ضمن میں بچوں کو اس قابل، پراعتماد اور باشعور بنانا ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ بنا سکیں اور اپنا دفاع کر سکیں۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہماری معاشرتی صورت حال بہت اچھی نہیں ہے۔ اس لیے والدین کو بچوں کے حوالے سے بہت چوکَنّا اور محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ سماجی پس منظر کے تناظر میں موجودہ دور کے چیلینجز گمبھیر اُداسی کو فروغ دے رہے ہیں۔ سماجی اور معاشی طور پر کم زور گھرانوں کے بچے زیادہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے کے جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادتی کا شکار ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔

1:بچوں کو باشعور اور باختیار بنائیں

والدین کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بدلتی ہوئی دُنیا کے بارے میں شعور دیں اور انہیں اپنی زندگی اور اسکے انتخاب کے متعلق فیصلوں کے بارے میں با اختیار بنائیں۔ وہ بچے جو سماجی، معاشی اور نفسیاتی طور پر باشعور اور بااختیار نہیں ہوتے، وہ اکثر غلط لوگوں کا آسان ہدف بن جاتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کو باشعور بنائیں اور انہیں ابھی سے بااختیار بنائیں۔ بچوں میں اپنی حفاظت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کو اجاگر کریں۔

2:کمیونیکیشن کے گیپ کو کم کریں

یہ میرا ذاتی مشاہدہ اور براہ راست زندگی کے تجربات سے حاصل شدہ تجزیہ ہے کہ اکثر خاندانوں میں والدین اور بچوں کے درمیان کمیونیکیشن کا بہت زیادہ فقدان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بچے اکثر اپنے ساتھ لوگوں کے معاشرتی رویوں کا ذکر نہیں کرتے، جس سے والدین کو بچوں کے ساتھ دوسروں لوگوں کے رویوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنے بچوں کے ساتھ اپنے کمیونیکیشن گیپ کو کم کریں اور ان کے نقطۂ نظر، لوگوں کے ان کے ساتھ رویے، سلوک اور برتاؤ کے حوالے سے تبادلۂ خیال کرتے رہیں۔

ویسے بھی ہمارے معاشرے میں کمیونیکیشن کا بہت بڑا خلا ہے جس کی وجہ سے بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔

3: بچوں کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور ہمت دیں

 بہت سارے والدین اپنے بچوں کو ساری عمر بچے ہی رہنے دیتے ہیں کیوںکہ وہ بچوں کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں میں صحیح اور غلط کا امتیاز کرنے کی صلاحیت معدم ہوجاتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ہر صورت حال میں فیصلہ کرنے اور چیزوں کے درمیان امتیاز یعنی فرق کرنے کی صلاحیت دیں تاکہ بچے اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہونے کی بجائے، اپنی ذات اور کام پر فوکس کرسکیں۔ بے شمار بچے صرف اس وجہ سے زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ان میں صحیح اور غلط کو پہچاننے کی تمیز اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔

4: بچوں کو اعتماد اور حوصلہ دیں

میں اکثر والدین اور اساتذہ کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ اگر آپ اپنے بچوں کو دُنیا بھر کی ساری چیزیں دے دیتے ہیں اور انہیں خوداعتمادی اور حوصلہ نہیں دیتے تو آپ انہیں مفلوج کر رہے ہیں۔

 یاد رکھیں دُنیا میں سب سے بڑی اور اہم خوبی خوداعتمادی کی صلاحیت ہے۔ وہ بچے جو والدین کی جانب سے اعتماد اور حوصلہ حاصل کرتے ہیں وہ زندگی کے مسائل کا بہ خوبی سامنا کرتے ہیں اور ہر طرح کے مشکل حالات سے بہ آسانی نکل جاتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ اپنے بچوں کو کچھ نہیں دے سکتے تو انہیں صرف اعتماد اور حوصلہ دے دیں۔ پُراعتماد اور باہمت بچے خود کو محفوظ بنانے کے لیے زیادہ قابل ہوتے ہیں۔

5: ذہنی، روحانی اور سماجی شعور کو اْجاگر کریں

بچے جس طرح اپنی جسمانی عمر میں بڑھ رہے ہوتے ہیں، اسی طرح انہیں ذہنی، روحانی اور سماجی شعور کو بھی پروان چڑھانا چاہیے۔ جو والدین اپنے بچوں کی ذہنی روحانی اور سماجی صحت اور تعلقات پر توجہ دیتے ہیں، انہیں معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ معاشرت، معاشرے کے بدلتے رویوں کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں، ایسے بچے نہ صرف ہر طرح کی برائی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ وہ ہر لحاظ سے مضبوط ہوتے ہیں۔

یاد رکھیں ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر قسم کے لوگ ہیں، ضروری نہیں کہ ہم اچھے ہیں تو ہمارے ساتھ لوگ بھی اچھے ہوں گے، اچھا برتاؤ کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے آداب سے آگاہ ہوں۔

6: غلطی پر معاف کریں اور آئندہ احتیاط کریں

بچے غلطیاں کرتے ہیں اور غلطیاں کرنا ہی ان کے بچے ہونے کا ثبوت ہے۔ بعض اوقات والدین بچوں کی غلطیوں پر اس قدر سخت ردعمل دیتے ہیں کہ بچے آئندہ اپنی غلطیوں کو والدین سے چھپاتے ہیں جس کا بعد میں انہیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی غلطیوں پر بہت زیادہ سخت ردعمل نہ دیں اور نہ ہی انہیں نظرانداز کریں، بلکہ بچوں کی غلطیاں معاف کرنے، ان سے سبق حاصل کرنے اور آئندہ احتیاط کرنے کی ترغیب دیں۔

بدقسمتی سے والدین بچوں کی معمولی غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور سنگین غلطیوں پر سخت سزا دیتے ہیں، جو مناسب رویہ نہیں ہے، بلکہ والدین کو بچوں کے ہر عمل پر بہت تحمل، دھیان اور گیان اور احتیاط کے ساتھ رد عمل دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

7: اپنے بچوں اور سچ کا ساتھ دیں

بچوں کی اس عمر میں سب سے اہم احساس جو والدین دلا سکتے ہیں وہ ہے کہ بچے والدین کے لیے سب سے اہم اور خاص ہیں۔ بچوں کے لیے سب سے ضروری نکتہ والدین کا ان کے ساتھ ہونا اور ان کا ساتھ دینا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر اوقات والدین معاشرتی، سماجی، مذہبی اور نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے بچوں اور سچ کا ساتھ دینے سے قاصر ہوتے ہیں، جس کا بچوں کی شخصیت اور ذہنی صحت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ نکات کسی بھی طرح سے کوئی مکمل گائیڈ اور جامع لائحہ عمل نہیں بلکہ یہ چند ہدایات ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے بچوں کو ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ کرسکتے ہیں۔ بچوں کا بچپن خوب صورت اور بہترین دور ہوتا ہے جو ان کی شخصیت اور اور آئندہ زندگی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے بچوں کا مستقبل محفوظ اور مضبوط بنانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔

اس ساری گفتگو کا مقصد والدین اور معاشرے کو یہ احساس دلانا ہے کہ آج کے بچے مستقبل کے معمار ہیں، اس لیے انہیں آج سے ہی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ بچوں کے بچپن کے واقعات اور حادثات ان کی شخصیت کو ترتیب دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی بچے مستقبل میں ملک میں ہر سطح پر اہم ذمے داریاں سرانجام دیں گے۔ اگر ان کی شخصیت اور ذات پر کچھ منفی واقعات اور حادثات کے داغ ہوں گے تو یہ نہ صرف ان بچوں کے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک قابل فکر المیہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اب بھی بچوں کے حوالے سے جو احتیاطی تدابیر اور حفاظتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بطور معاشرہ ہم اس سے بہت پیچھے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس جدید دور میں مجھے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ کیا مستقبل کے بچے اپنی زندگی سے اُس طرح لطف اندوز ہوپائیں گے جس طرح ہم نے اپنی زندگی اور بچپن سے خوب لطف اندوز ہوئے تھے۔ بچوں کی زندگی سے بچپن، خوب صورتی اور کھیل کو چھینا کسی بھی طرح ان کی توانا شخصیت کے لیے مفید نہیں ہے۔

بچوں کی ابتدائی زندگی کے تجربات اور حادثات کا ان کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے، اور ان کی نشوونما کے لیے ایک صحت مند اور محفوظ ماحول ضروری ہے۔ موجودہ دور میں بچوں کے لیے جو چیلینجز ہیں، جیسے کہ ڈیجیٹل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال اور کم ہوتے جسمانی کھیل، ان کے ذہنی اور جسمانی نشوونما پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ والدین اور معاشرہ مل کر بچوں کے لیے ایسا ماحول بنائیں جس میں وہ نہ صرف تعلیمی لحاظ سے بلکہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر بھی مضبوط ہوں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال کو متوازن کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو کھیلنے اور تخلیقی سرگرمیوں میں شامل کرنا بھی لازمی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکیں۔

والدین کا کردار اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ وہ بچوں کو نہ صرف تعلیمی میدان میں راہ نمائی دیں بلکہ ان کی جذباتی ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ اس طرح، بچے مستقبل میں بہتر اور ذمے دار شہری بن سکیں گے، جو اپنے معاشرے اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

Load Next Story