اسرائیل اور مشرق وسطیٰ
عالمی میڈیا کے توسط سے پاکستان کے میڈیا نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ایک بار پھر غزہ کی پٹی میں حملے تیزکر دیے، میڈیا کے مطابق اسرائیل سیکیورٹی فورسز نے شمالی غزہ اور جبالیا کیمپ سے 600 کے قریب فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا، ایک محتاط اندازے کی بنیاد پر بتایا جاتا ہے کہ شہدا کی مجموعی تعداد 43000 سے زائد ہوچکی ہے۔ اسرائیلی فوج لبنان کے علاقے صور اور جنوبی لبنان کے قصبوں پر بمباری کررہی ہے۔
اسرائیل جو کچھ کررہا ہے، اس نے مشرق وسطیٰ کا امن تو تباہ کررکھا ہے لیکن جس انداز میں اسرائیل کی جارحیت میں اضافہ ہورہا ہے، اس سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے ۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ دنیا ایک اور عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس وقت اسرائیل، فلسطین، لبنان، یمن اور ایران پر براہ راست حملے کررہا ہے، جب کہ شام اور عراق پہلے ہی اسرائیلی متاثرہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال کا ایک دوسرا اور اہم پہلو وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کی حکومت کا سخت سے سخت ہوتا ہوا رویہ ہے ۔
ادھر امریکا کے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی دوڑ میں بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں، اگر ٹرمپ امریکا کے صدر بن جاتے ہیں تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے حوصلے مزید بلند ہوجائیں گے ۔ اس جنگ کا بڑا سبب اسرائیلی جارحیت یا اس کی جارحانہ پالیسیاں ہیں۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں مسلسل ایک برس سے زائد عرصے سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر کے ان پر عرصہ حیات تنگ کرتا چلا جا رہا ہے اور اب لبنان کے خلاف بھی اس نے انسانی جرائم کی نئی تاریخ رقم کرنا شروع کر رکھی ہے۔
وہ عبرتناک ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت سوز بھی ہے، لاکھوں لبنانی اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اس دوران اس نے جنگ کا دائرہ مزید پھیلاتے ہوئے، ایران کے خلاف بھی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ ایران کی اہم دفاعی شخصیات کے قتل کی جو کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں اور اپنے جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے فلسطینی، لبنانی اور ایرانی شخصیات کی قتل و غارت گری کے اقدام اٹھائے ہیں، ان کا مقصد اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ وہ خطے میں امن کے قیام کی ہر کوشش کو ناکام بنانے پر تلا بیٹھا ہے۔
اسرائیل کو امریکا کی جانب سے ہر طرح کی امداد اور حمایت غیر معمولی انداز میں مل رہی ہے، بشمول بیلسٹک میزائلوں کے خلاف فضائی دفاعی نظام کا جدید ترین اپ گریڈڈ سسٹم ’ تھاڈ‘، جس نے اسرائیل پر ایک ہمہ گیر جنگ کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو وسعت دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے اپنی فوجی موجودگی اور پورے مشرق وسطیٰ میں اپنی افواج کی تعیناتی میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ امریکا، اسرائیل کی دہشت گردی کو اس کا حق دفاع قرار دیتا ہے، جو کہ اس کی مجبوری ہے۔
ایک جانب امریکا میں موجود مضبوط یہودی لابی ہے کہ جس کے اختیار میں امریکا کی انتظامیہ ہے، تو دوسری جانب اسرائیل کے لیے کسی جنگ کا حصہ بننے کا مطلب امریکا کا اپنا زوال ہے، جس کا امریکا کے ذہین دماغوں کو بخوبی ادراک ہے۔ درحقیقت فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں جس طرح سے اسرائیل بے بس ہوا ہے اور طاقت کے بدترین استعمال اور ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسرائیل نہ تو اپنے یرغمالیوں کو حماس سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو سکا ہے اور نہ ہی لبنان اور غزہ سے راکٹوں کی بارش روک سکا ہے اور اس ناکامی اور عالمی ہزیمت کے باعث اب اسرائیل، امریکا کی بھی سننے کو تیار نہیں ہے، جس سے امریکا کو بھی نظر آرہا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ براہ راست جنگ ہوتی ہے تو امریکا جو یوکرین میں بری طرح پھنسا ہوا ہے، اس کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوگا۔
اسرائیل کا انتہا پسند وزیراعظم، اپنے انتہاپسند ساتھیوں کے ایما پر غز ہ سمیت مغربی کنارے پر فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ امریکا بحیثیت ایک سپر پاور کے اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو رکوا سکتا ہے، لیکن تادم تحریر ابھی تک امریکا بہادر کی جانب سے ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے کہ یہ جنگ رک جائے۔
دوسری جانب حماس فلسطینیوں کی نمایندگی کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی مزاحمت کر رہا ہے، لیکن حماس کے پاس سامان حرب زیادہ نہیں ہے۔ اس لیے اسرائیل اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ اور مغربی کنارے پر خوفناک بمباری کرکے ان علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، تاہم اسرائیل کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اس جارحیت کی وجہ سے خود غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ فلسطینی اپنی زمین اور حقوق کے لیے ہر قیمت پر اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کریں گے۔
اب حزب اللہ بھی اسرائیل کی جارحیت کے خلاف سینہ سپر ہوگیا ہے، جس کو روکنے کے لیے اسرائیل لبنان پر بھی حملے کر رہا ہے، اس طرح اب مشرق وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کے شعلوں کی لپٹ میں آچکا ہے، اگر مغربی ممالک سمیت بعض عرب ممالک نے اس پھیلتی ہوئی جنگ کو نہیں روکا یا رکوانے کی کوشش نہیں کی تو اس صورت میں حماس کے علاوہ بعض عرب ممالک بھی اس جنگ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ مغربی ممالک کے عوام نے غزہ کے باسیوں کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی ہیں لیکن اُن ممالک کی حکومتیں اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ ‘امریکا ‘فرانس اور روس نے ارض فلسطین پر اسرائیل کے نام سے ریاست قائم کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے ‘اس لیے ان ممالک کی حکومتیںمسلسل اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں۔گوان میں روس کی پالیسی مختلف ہے کیونکہ جب سوویت یونین موجود تھی‘تب اس وقت کی کمیونسٹ حکومت نے فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی تھی البتہ وہ بھی چاہتے تھے کہ اسرائیل بطور ریاست قائم رہے‘وہ صرف اسرائیلی توسیع پسندی کے مخالف تھے۔
آج کی جمہوری اور مہذب ریاستیںاسرائیل کا ساتھ کیسے دے سکتی ہیں، جس کی خارجہ پالیسی ہی دہشت گردی پر مبنی ہے، جس کے ہمسائے اس کے شر سے محفوظ نہیں، جس نے فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرکے انھیں اپنی ہی سرزمین پر مہاجر بنا دیا ہے۔اس حوالے سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اسرائیلی مظالم کا دائرہ غزہ یا فلسطین ہی تک محدود نہیں، اب وہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔اسرائیل نے شام‘اردن اور لبنان کے علاقے پر قبضہ کر کے انھیں اسرائیل کا حصہ بنا لیا ہے اوراس کی توسیع پسندانہ پالیسی جاری ہے۔ اسرائیل مصلحتاً نئے نئے جنگی محاذ کھول رہا ہے جس کا مقصد جنگ کو پھیلانا ہے۔
خطے میں امن کے لیے بہت سی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ کئی امن معاہدے کیے گئے مگر فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ حالانکہ ضروری تھا کہ فلسطین کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اسے بھی آزاد ریاست تسلیم کر لیا جاتا۔ اب اسرائیل کو فلسطین کے وجود کو سرے سے تسلیم کرنا گوارہ نہیں۔ اسی سوچ کے تحت اسرائیل نے ہر امن معاہدے کو سبوتاژ کیا ہے، اسرائیل نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے خلاف محاذ کھولے رکھا۔ جب جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی گئی تو امریکا نے امن کی اس قرارداد کو ویٹوکر دیا اور اسرائیل کو نہ صرف کھلی جارحیت کا موقع فراہم کیا بلکہ اسے ہر طرح کی امداد بھی فراہم کی۔
امریکا جیسی بعض بڑی طاقتیں بھی خطے میں امن نہیں چاہتی ہیں، وہ خود حالات کو خراب کرنا یا رکھنا چاہتی ہیں تاکہ یہاں کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرسکیں۔ بظاہر یہ کارروائی فلسطین اور لبنان کے خلاف ہے مگر اس سے شام اور عراق بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اب ایران کو بالکل اسی طرح گھیرنے کی کوشِش کی جارہی ہے جس طرح عراق کو ٹریپ کیا گیا تھا۔ اسرائیل کی لبنان کے خلاف زمینی کارروائی دراصل ایران کو شہ دینا ہے کہ وہ ہوائی اور میزائل حملوں کے بجائے براہ راست اس جنگ میں کود جائے۔ ایران ابھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہے مگر اسرائیل کو بھرپور جواب بھی دے رہا ہے۔
ادھرجب تک اسرائیل کو امریکا، برطانیہ اور بعض دیگر یورپی ممالک کی پشت پناہی حاصل رہے گی، اس کے جارحانہ اقدامات رکنے میں نہیں آئیں گے، امریکا اسرائیل کوجس طرح شب و روز اسلحہ، جنگی ساز و سامان مہیا کرتا رہے گا، خطے میں امن کی توقع عبث ہی رہے گی۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ مغربی اقوام اسرائیل کی انتہا پسندانہ ریاستی پالیسی کے خلاف سخت ردعمل دے تب جا کر ہی امن کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔