انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ
اقوام متحدہ کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کی رپورٹ جو دنیا بھر میں شایع ہوتی ہے ۔ کمیٹی کے اراکین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ابھی تک منتخب طلبہ یونین کے ادارے کی بحالی نہیں ہوسکی ہے۔ معاشرے کے بعض گروپوں کو اجتماع کرنے کی آزادی نہیں دی جاتی ہے۔
مظلوم طبقات کے افراد کو زبردستی مذہب کی تبدیلی پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ بعض شہریوں کے لاپتہ ہونے کا الزام سرکاری اداروں پر لگایا جاتا ہے۔ سرکاری اہلکار ماورائے عدالت قتل کرنے کے واقعات میں بھی ملوث ہیں، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم میں کمی نہیں ہوئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست متشدد مذہبی عنصرکو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جرائم بڑھنے اور مجرموں کو سزائیں نہ ہونے کی ساری ذمے داری بدعنوان Criminal Justice System پر عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں خاص طور پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ عدالتوں سے سزاؤں کا تناسب صرف 3فیصد ہے۔ رپورٹ میں بچوں کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لاکھوں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔
یہ غریب گھروں، دکانوں، کارخانوں،کھیتوں اور دیگر مقامات پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ نے سرکاری اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے کہ 5 سال کی عمر تک پہنچنے والے صرف 41 فیصد بچے رجسٹرڈ ہیں۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی قوانین شہریوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرپارہے ہیں۔ رپورٹ میں حکمرانوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ عوام دوست پالیسیاں اختیار کریں تاکہ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ حکمرانوں کو اپنی ساری توجہ لوگوں کو معاشی فوائد فراہم کرنے پر صرف کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کے پیریاڈیکل ریویو Universal Periodical Review کے طریقہ کار کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین یہ رپورٹ تیار کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی رپورٹیں اقوام متحدہ کی ریویو کمیٹی کو بھیجتی ہے، پھر اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا دفتر اپنی رپورٹ تیار کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے افسران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں، وکلاء، صحافیوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنوں سے انٹرویوز کرتے ہیں۔ ان تنظیموں کی رپورٹوں اور ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی رپورٹوں کی مدد سے یہ رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں، یوں اقوام متحدہ کے ماہرین کی یہ رپورٹیں بہت زیادہ مفید ہوتی ہیں۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں جو ہر سال جنیوا میں منعقد ہوتا ہے میں پیش ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ریاستی اور غیر ریاستی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے خاصا کام ہوا ہے۔ غیرریاستی سطح پر انسانی حقوق کمیشن HRCP گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے کام کررہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دوراب پٹیل ،وکیل عاصمہ جہانگیر ، معروف صحافی آئی اے رحمن، حسین نقی اور نثار عثمانی وغیرہ نے مل کر کام کیا۔ HRCP کے چار کے قریب رضاکار انسانی حقوق کی جدجہد میں شہید ہوچکے ہیں۔ ہر سال انسانی حقوق کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ شایع کرتا ہے۔ HRCP کے کارکن ان سالانہ رپورٹوں کی تیاری میں سخت محنت کرتے ہیں اور HRCP کی رپورٹوں میں انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں جن حقائق کی نشاندہی کی جاتی ہے ان ہی حقائق کا ذکر اقوام متحدہ کی ریویو کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں اور ایچ آر سی پی کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں سرکاری سطح پر قومی انسانی حقوق کمیشن HRCP Nقائم ہوا۔ اس سرکاری کمیشن کی رپورٹوں میں بھی ان ہی مسائل کی نشاندہی کی گئی جن کا اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے، پھر اقوام متحدہ نے مختلف کنونشنز کیے۔ ملک میں اقلیتی کمیشن ،عورتوں کی حیثیت کا کمیشن ،بچوں کے حقوق کے تحفظ کا کمیشن اور اس نوعیت کے دیگر کمیشن بھی کام کررہے ہیں۔ مگر اس طرح شہریوں کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے وفاق اور صوبوں نے اطلاعات کے حصول کے کمیشن بھی قائم کردیے ۔
سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک کمیشن قائم ہے۔ وفاق نے بھی اس بارے میں قانون سازی کو حتمی شکل دی ہے مگر سپریم کورٹ نے 2010میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا تھا جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کو مقرر کیا گیا، وہ گزشتہ 14 برسوں سے اس کمیشن کے سربراہ ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جسٹس جاوید اقبال کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتی ہیں مگر جسٹس جاوید اقبال گزشتہ حکومت میں جب نیب کے چیئرمین تھے تو انھوں نے سیاسی مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کے متعدد فیصلوں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ کی واضح رولنگ دی تھی کہ لاپتہ فرد وہ ہے جس کو سرکاری اہلکار اغواء کریں۔ موجودہ حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو فی کس 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے، مگر ان تمام اقدامات کے باوجود صورتحال انتہائی خراب ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے ۔
اقوام متحدہ کی مختلف تنظیموں کی کارروائیوں کا جائزہ لینے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ جب بھی پاکستانی مندوب جنیوا میں ہونے والے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں شہریوں کو لاپتہ قرار دینے اور انسانی حقوق کی پامالی کی رپورٹوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو بھارتی مندوب فوراً پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے اور انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹوں کا حوالہ دینے لگتے ہیں، یوں پاکستان کا مؤقف کمزور ہوجاتا ہے۔ انسانی حقوق کی مسلسل پامالی سے عوام او رریاست کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ بلوچستان اورخیبر پختون خوا میں آزادی کا مطالبہ کرنے والی تنظیمیں مضبوط ہورہی ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں طالب علموں کے احتجاج کی مشکل شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام ریاست کے کسی بیانیہ کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہے، جس ریاست میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں ہوتا ،وہ ریاست ترقی نہیں کرسکتی۔