وزارت خزانہ نے منی بجٹ کے امکان کو مسترد کردیا
وزیر خزانہ نے مالی سال کے درمیان میں بجٹ اور کسی بھی قسم کی ایڈجسٹمنٹ کے امکان کو مسترد کردیا۔
وزارت خزانہ نے واضح کیا ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال مالیاتی پالیسیوں کے موثر ہونے کی عکاس ہے اور اس سے مالیاتی استحکام کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ترجمان وزارت خزانہ کے مطابق اب تک سامنے آنے والے معیشت کے اعشاریے بالخصوص افراط زر، لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی نمو اور درآمدات کے حجم میں سامنے آنے والے رحجانات حکومت کے اندازوں اور توقعات کے عین مطابق ہیں اور مالی سال کے وسط میں بجٹ میں کسی قسم کی ایڈجسٹمنٹ کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے بھی معاشی اعشاریوں کے حوالے سے حالیہ دنوں میں اپنی پشین گوئیوں پر نظر ثانی کی ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کے اندازے اور تخمینے وزارت خزانہ کے معاشی تخمینوں سے قریب تر ہو گئے ہیں، جاری مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کنزیومر پرائس انڈیکس پر مبنی افراط زر 10.2 فیصد کے حکومتی تخمینے کے برعکس بہتر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے 9.2 فیصد رہا اور صرف 1 فیصد فرق دیکھنے میں آیا جسے عالمی نظیروں اور غیر یقینی عالمی معاشی ماحول کے تناظر میں معمولی کہا جا سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے بھی مالی سال 25-2024کے لیے سی پی آئی افراط زر کا تخمینہ 12.7 فیصد لگایا تھا جس پر نظر ثانی کرنے کے بعد اس تخمینے کو 9.5 تک نیچے لایا گیا ہے اور مجموعی طور پر اس میں 3.2 فیصد کمی لائی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق حقیقی اور تخمینوں پر مبنی معاشی اندازوں میں کسی قسم کا فرق پالیسی سازی اور بجٹ کی منصوبہ بندی کے حوالے سے زیر استعمال لائے گئے، تخمینوں کے ماڈلز کا کلیدی جزو ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق لارج سکیل مینو فیکچرنگ میں 0.9 فیصد سہ ماہی نمو کے تخمینے کا ہدف پورا ہونے کی بھرپور توقع ہے کیونکہ جولائی میں اس شعبے میں شرح نمو توقعات سے بڑھ کر 2.52 فیصد رہی اگرچہ اگست کے مہینے میں اس میں عارضی کمی دیکھنے میں آئی وزارت خزانہ کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر جس کا مینوفیکچرنگ سیکٹر میں شیئر سب سے زیادہ 18.2 فیصد ہوتا ہے، بھی پچھلے 24 مہینے مسلسل سکڑاؤ کا شکار رہنے کے بعد مثبت راہ پر چل پڑا ہے۔
علاوہ ازیں آٹو موبائل سیکٹر میں بھی پہلی سہ ماہی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق ایل ایس ایم سیکٹر کی کارکردگی معاشی اہداف سے ہم آہنگ ہے اور سیکٹر کی ابھرنے کی صلاحیت و استحکام اور محصولات کے ہدف کے پائیدار حصول میں اس کا کردار نمایاں ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق پہلی سہہ ماہی میں ایل ایس ایم کی شرح نمو کے حوالے سے ابھی تک دو ماہ (جولائی اور اگست) کے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں اور پوری سہ ماہی کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد اس سیکٹر کی معاشی نمو کے حقیقی اعداد و شمار حاصل ہوں گے۔
اس حوالے سے قبل از وقت تک بندی یا اندازوں کے ذریعے اس اہم سیکٹر کی معاشی نمو کی اٹھان کی درست عکاسی کرنا عبث ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق درآمدات کے شعبہ میں پہلی سہ ماہی کے حقیقی اعداد و شمار کے مطابق درآمدات کا حجم 14.219 ارب ڈالر رہا ہے جبکہ پہلی سہ ماہی کا تخمینہ یا اندازہ 14.062 ارب ڈالر کا تھا۔ ان اعداد و شمار سے درآمدات کے شعبے میں محصولات کی مد میں وصولیوں پر پڑنے والے مثبت اثرات کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے جاری مالی سال میں پاکستان کے درآمدات کے تخمینے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے 60.5 ارب ڈالرز سالانہ درآمدات کے تخمینے کو 3.3 ارب ڈالر کم کر کے 57.2 ارب ڈالر کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف کا تخمینہ، حکومتی تخمینہ کے قریب تر ہو گیا ہے جو کہ 57.3 ارب ڈالر ہے،
وزارت خزانہ کے مطابق مالی سال 2025 کی جولائی-ستمبر سہ ماہی میں ملکی درآمدات میں 15.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جو مینوفیکچرنگ اور معیشت کے پیدواری شعبے کی بحالی کے لیے ضروری تھا۔ وزارت خزانہ کے مطابق افراط زر میں کمی کے مثبت اثرات، گرتی ہوئی شرح سود اور اس کے نتیجے میں قرض کےحصول کی لاگت میں ہونے والی کمی معیشت کے لیے نیک شگون ہے، معیشت کے اعشاریوں کو سمجھنے اور ان کی درست عکاسی کرنے میں ماہانہ اور موسمیاتی رحجانات کے کلیدی کردار کی بہت اہمیت ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باعث ماہانہ بنیادوں پر معاشی اشاریوں میں سامنے آنے والا اتار چڑھاؤ ایک عمومی اور متوقع امر ہے اور ملک کی معاشی نشوونما اور معاشی ترقی کے تخمینوں میں پنہاں ان عوامل کا درست ادراک انتہائی ضروری ہے۔
وزارت خزانہ نے بعض اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں ملک کی معاشی صورت حال کو غلط اندازوں اور تک بندیوں کی بنیاد پر مخدوش بتا کر آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے پیکج پر سوال اٹھانے کو بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق اس قسم کی خبریں اور تبصرے معاشیات کے کلیدی اعشاریوں سے بے خبری کی عکاس ہیں اور افراط زر، لارج سکیل مینو فیکچرنگ اور درآمدات کے اہداف اور ان کے حصول میں فرق کے دعوے غیر مکمل اور غیر درست اعداد و شمار پر مبنی ہیں جنہیں اہم معاشی رحجانات پر انحصار کرنے کی بجائے تک بندی اور قیاس آرائیوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے جو عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق اس قسم کے دعوے اور ان کے نتیجے میں پیش کردہ غلط سلط اعداد و شمار حکومت کے شائع کردہ معاشی اہداف سے بھی مطابقت نہیں رکھتے جس سے گریز کیا جانا چاہیے۔