پاکستانی سیاست کی ایک نئی جہت
چند روز قبل خدا خدا کرکے حکومت 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد پوری کرکے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی اور قومی اسمبلی کی تاریخ میں صبح فجر کے وقت وزیر اعظم شہباز شریف نے اختتامی تقریر کی اور مولانا فضل الرحمن کو یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ساری رات ایوان کی کارروائی جاری رہی۔ مولانا آدھی رات گزرنے کے بعد تشریف لائے تو ان کی تشریف آوری کے منتظر میاں نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر سیاسی قائدین کا مہمان خصوصی کی طرح مولانا کا خیر مقدم کیا تو کارروائی شروع ہوئی تو مولانا فضل الرحمن نے بھی خطاب کیا اور واشگاف اعلان کیا کہ ہم نے ترمیم کے زہریلے سانپ کے دانت نکال دیے ہیں اور اب یہ سانپ کسی کو ڈسنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ ایک جج سے حکومت اور دوسرے جج سے اپوزیشن (پی ٹی آئی) سخت خوفزدہ تھے اور ہم نے درمیانی راستہ نکالا اور ترامیم ممکن ہو سکی ہیں۔ قومی اسمبلی سے قبل سینیٹ میں شق وار بائیس ترامیم پیش ہوئیں جب کہ ایمل ولی خان کے مطابق ہم نے 26 ترامیم منظور کی تھیں مگر مولانا کی وجہ سے 22 ترامیم پیش ہوئیں۔ آئینی ترامیم کا مسودہ وہی تھا جسے پارلیمانی کمیٹی نے تجویز کیا تھا جس میں جے یو آئی کی پانچ ترامیم شامل تھیں۔ سینیٹ میں مولانا کے بھائی مولانا عطا الرحمن نے بھی کالے سانپ کی بات کی تھی جس کے دانت مولانا فضل الرحمن نے توڑ دیے تھے جب کہ پی پی کی سینیٹر شیری رحمن نے کہا تھا کہ ترامیم میں کوئی سانپ تھا ہی نہیں۔
(ن) لیگ اور پی پی کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا 26 ویں ترمیم سے پورا ہو گیا ہے جب کہ پی ٹی آئی نے ان ترامیم کو حکومتی ارکان کا جرم قرار دیا اورکارروائی کا بائیکاٹ کیا،اس بائیکاٹ کو مولانا نے جائز قرار دیا اور کہا کہ ترامیم پر اب کوئی جھگڑا نہیں رہا تھا جس سے پی ٹی آئی نے بھی اتفاق کیا تھا۔ بائیکاٹ ان کا حق اور احتجاج جائز ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ہم ترمیمی بل کی منظوری کا حصہ نہیں بنے۔ حیرت تو یہ تھی کہ پی ٹی آئی نے ترامیم پر اتفاق کیا تھا جس کا مطلب ہے کہ انھیں ترامیم پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر چونکہ حکومت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو پیر کو اپنے بانی سے مزید مشاورت نہیں کرنے دی اور اتوار کی رات کو 26 ویں ترمیم منظور کرا لی۔
بلاول بھٹو آئینی ترامیم منظور کرانے کی مہم میں بڑے سیاست دان بن کر ابھرے۔ ابتدا سے جو اختلافات آئے بلاول نے فرنٹ فٹ پر آ کر ملاقاتیں کیں اور آخر مولانا کو منا لیا۔ مگر مولانا نے بھی اپنی تمام باتیں منوائیں اور پی پی اور (ن) لیگ کا آئینی عدالت کا خواب چکنا چور کر دیا اور دونوں کو مجبوراً آئینی بینچز بنانے پر آمادہ ہونا پڑا اور اس طرح مولانا فاتح قرار پائے۔ بعض مذہبی شخصیات نے تعریف کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کی دانش مندی سے ملک انتشار سے بچ گیا اور آئینی ترمیم کے ذریعے سود کے خاتمے، وفاقی شرعی عدالت اور مدارس کا مسئلہ حل ہوا ہے۔
حکومت اور پیپلز پارٹی اور حکومتی حلیف تمام پارٹیاں 26 ویں آئینی ترمیم میں اہم کردار ادا کرنے پر نہ صرف مولانا کے گرویدہ نظر آئے اور سب نے ہی مولانا فضل الرحمن کو شان دار خراج تحسین پیش کیا اور پی ٹی آئی نے بھی مولانا کی تعریفوں کے قلابے ملائے اور بارہ رکنی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے تین رہنماؤں کی نمایندگی کا خیر مقدم کیا مگر رات گئے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں شرکت سے انکار کر دیا اور کمیٹی ارکان کی کوشش کے باوجود میٹنگ میں شریک نہ ہو کر اپنی ہٹ دھرمی دکھائی اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے تین روز خاموش رہنے کے بعد اعلان کر دیا کہ حکومت نے 26 ویں ترمیم کرا تو لی ہے مگر اقتدار میں آ کر اسے مسترد کرنے کا اعلان وزیر اعلیٰ کے پی نے کر دیا جو پی ٹی آئی رہنماؤں کے بار بار مولانا کے در پر جانے سے خوش نہیں تھے اور انھوں نے دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرح مولانا کے آئینی ترامیم کے کردار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جب کہ پی ٹی آئی کے بانی اور رہنما مولانا کو اپنے ساتھ اس لیے رکھنا چاہتے تھے کہ حکومت کسی بھی طرح مولانا کو اپنے ساتھ ملا کر مرضی کی ترامیم نہ کرا لے اور ترامیم رکوانے کے لیے مولانا کے گھر کے چکر پہ چکر لگا رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کی طرح صدر مملکت، وزیر اعظم، میاں نواز شریف اور وزرا خصوصاً بلاول بھٹو زرداری بھی مولانا کے در دولت پر حاضریاں بھرتے رہے جس کی وجہ سے مولانا کا سیاسی قد بہت بڑھا اور ان کے آگے ترامیم کے تمام حامیوں کو مولانا کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے دن رات کوشش کرنا پڑی ۔ مولانا نے ترامیم میں ووٹ دینے کے لیے اپنی تمام شرائط منوائیں۔ آئینی شقیں آدھی کرانے اور حکومت کو جھکانے کے بعد ترامیم منظور کرائیں ۔
کہتے ہیں مولانا نے حکومت، (ن) لیگ اور پی پی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی سے پینگیں بڑھائیں اور حکومت کا ساتھ دے کر بڑی مہارت سے سیاسی کھیل کھیلا ،اس کھیل میں وہ منجھے ہوئے اور بہترین کھلاڑی سیاستدان کے طور پر سامنے آئے اور آئینی ترامیم پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو حکومت پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کرتا اور اپنی شرائط منواتا رہا اسی طرح مولانا نے بھی دونوں پارٹیوںکی مرضی کی ترامیم نہیں ہونے دیں۔