پی سی بی کے بابراعظم
’’ارے سر بابر اور شاہین کو نکال دیا تو بڑا مسئلہ ہو جائے گا، انھیں کھیلنے دیتے ہیں‘‘
میٹنگ میں جب عاقب جاوید سے کسی نے یہ کہا تو انھوں نے جواب دیا ’’کیا مسئلہ ہو جائے گا ہار تو اب بھی رہے ہیں، زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ پھر ہار جائیں گے‘‘ پھر انھوں نے چیئرمین محسن نقوی کی منظوری سے تین اسٹارکرکٹرزکو ایک ساتھ باہر کر دیا جس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔
بظاہر 2 بڑے کرکٹرز کارکردگی کی وجہ سے ڈراپ ہوئے لیکن جب ٹیم شکستوں کا شکار ہو تو ایسے فیصلے نہیں ہوتے،دراصل پلیئرز پاور ختم کرنے کیلیے ایسا کیا گیا، اس سے دیگر کو پیغام گیا کہ اگر بابر اور شاہین باہر ہو سکتے ہیں تو تم کس کھیت کی مولی ہو، بڑے پلیئرز بھی سمجھ گئے کہ وہ ناگزیرنہیں ہیں۔
کچھ اسی قسم کی صورتحال پی سی بی میں بھی ہے، وہاں بھی کئی لوگ خود کو بابر اعظم ہی سمجھتے ہیں، فرق یہ ہے کہ کرکٹرز نے اپنی کارکردگی سے دنیا میں ملک کا نام روشن کیا لیکن بورڈکے خود ساختہ اسٹارز نے کچھ کیے بغیر اپنی ہی سلطنت بنا لی، نئے لوگوں کو سیٹ ہی نہیں ہونے دیا جاتا، عدم تعاون کا رویہ ہوتا ہے، کئی چیئرمین آئے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے، کرکٹ کی اسٹیبلشمنٹ سے بڑے بڑے کرکٹرز ڈرنے لگے۔
ذکا اشرف نے تبدیلی کی کوشش کی مگر خود ہی تبدیل ہو گئے، محسن نقوی کئی برسوں کے دوران سب سے طاقتورچیئرمین پی سی بی ہیں،وہ وزیر داخلہ بھی ہیں، ان کے ساتھ ٹکر لینے کی کسی میں ہمت نہیں ہے،انھوں نے ٹیم سے گروپنگ ختم کرنے کی کوشش کی جس کے نتائج بھی سامنے آئے، البتہ چیئرمین نے بورڈ کی گروپنگ ختم کرنے پر ابتدا میں توجہ نہ دی،سب انھیں مشورے دیتے رہے کہ اپنی ٹیم بنائیں، کپتان کتنا بھی اچھا ہو اگر ٹیم مرضی کی نہ ہو تو اچھے نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔
چیئرمین بھی بورڈ کی سیاست دیکھ کر حیران رہ گئے ہوں گے، انھیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کئی بڑے ’’سیاستدان‘‘ قذافی اسٹیڈیم میں بھی موجود ہیں، جب کوئی بیٹر میدان میں کھیلنے آئے تو پہلے پچ کا جائزہ لیتا ہے،بولرز کا سامنا کرکے ان کی اہلیت کا اندازہ لگاتا ہے جاتے ہی جارحانہ شاٹس کھیلنا شروع نہیں کر دیتا،محسن نقوی نے بھی ایسا ہی کیا،پچ پر سیٹ ہو کر انھوں نے اب اپنے شاٹس کھیلنے شروع کر دیے ہیں، انگلینڈ سے سیریز میں فتح نے ان کا اعتماد بھی بڑھایا۔
اطلاعات کے مطابق آئندہ چند روز میں کئی بڑی تبدیلیاں نظر آئیں گی، برسوں سے بورڈ میں موجود بعض آفیشلز کی پالیسی یہی رہی کہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرو ، یہی ہوتا رہا جس کی وجہ سے کئی کیسز میں ثبوت ہونے کے باوجود بعض کو معمولی سزائیں دے کر چھوڑ دیا گیا۔
محسن نقوی کے پاس پاور ہے وہ اگر چاہیں تو بہت سے حقائق جان سکتے ہیں،آپ کو ابھی یہ کہہ کر ڈرایا جا رہا ہو گا کہ چیمپئنز ٹرافی آنے والی ہے اگر کسی کو ہٹایا تو ایسا ہو جائے گا ویسا ہو جائے گا لیکن بات یہی ہے کہ کوئی ناگزیر نہیں ہوتا، کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں کرنے سے اس کا اندازہ ہو گیا،جیسے اچھے کرکٹرز موجود ہیں مگر انھیں مواقع نہیں دیے جاتے تھے، اب دیے تو ٹیم ٹیسٹ سیریز جیت گئی، اسی طرح اچھے لوگ موجود ہوں گے آپ انھیں موقع دیں گے تو وہ اس ادارے کو بہترین بنا کر دکھائیں گے۔
پی ایس ایل کا حال دیکھ لیں کیا ہوا،خاموشی چھائی ہوئی ہے، صہیب شیخ واویلہ مچا رہے ہیں کہ کیوں استعفیٰ لیا گیا ذرا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے سوال پوچھیں کہ کیا کام کیے جس پر فخر محسوس ہوتا، بیچارے فرنچائز اونرز پریشان ہیں کہ آگے کیا ہوگا، شاید نیا ڈائریکٹر آنے سے کوئی بہتری آئے۔
اطلاعات کے مطابق سی او او سلمان نصیر کو پی ایس ایل کا سربراہ بنایا جا سکتا ہے،البتہ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ جو بندہ پی سی بی میں سیاہ سفید کا مالک ہو وہ نچلی پوزیشن پر کام کرنے کو تیارہو گا یا نہیں، سلمان نے جتنی تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں اس کی کم ہی مثال ملتی ہیں، لیگل ڈپارٹمنٹ کی چھوٹی پوزیشن سے وہ سی او او تک بن گئے،البتہ اب حالات ان کیلیے اتنے سازگار نظر نہیں آ رہے، ہر چیئرمین اپنی پسند کے لوگ لے کر آتا ہے، محسن نقوی کے معاملے میں فرق یہ ہے کہ وہ اچھی شہرت کے حامل اہل شخصیات کا تقرر کر رہے ہیں، البتہ ڈائریکٹر ڈومیسٹک کے حوالے سے اچھی رپورٹس سامنے نہیں آ رہیں، آج نہیں تو کل ان کی جانب بھی توجہ مبذول ہو گی۔
اس پوسٹ پر کسی سابق کرکٹر کو لانا چاہیے، یہ اچھی بات ہے کہ چیئرمین کا کئی سابق اسٹارز سے مسلسل رابطہ ہے، بدقسمتی سے زیادہ تر جاب سیکرز ہوتے ہیں، کوئی عہدہ اور نوٹ ملنے پر چپ ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، ایسے لوگوں کو موقع دیں جو واقعی کھیل کی بہتری چاہتے ہیں، جب آپ کے پاس پیسہ اور پاور ہو تو معاملات آٹو پائلٹ موڈ پر چلنے لگتے ہیں۔
اسٹیڈیمز کا تعمیراتی کام اس کی واضح مثال ہے جو تقریبا آدھا مکمل بھی ہو چکا،پی سی بی کا کرکٹرز کیلیے والد جیسا کردار ہے، آپس کے تعلقات بہتر بنانا ضروری ہے، اس کیلیے ایسے لوگ سامنے آنے چاہئیں جو انا کے غلام نہ ہوں اور کھلاڑیوں کو اچھی طرح ٹریٹ کریں، ہاں اگر کوئی غلطی کرے تو اسے ضرور سزا دینی چاہیے، پی سی بی کے کئی شعبوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، بعض آفیشلز خود کو نجانے کیا سمجھتے ہیں ، ان کی گردنیں اکڑی رہتی ہیں، جب وہ بورڈ سے جائیں گے اور انھیں آئی سی سی، کرکٹ آسٹریلیا یا انگلش بورڈ ملازمت دے تو واقعی یہ طرم خان ہیں،البتہ ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا،ہر عروج کو زوال ہے لیکن افسوس لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں، شاید چند روز بعد کچھ آفیشلز کو خیال آئے ’’میں بڑا اہم تھا یہ میرا وہم تھا‘‘۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)