ایران اسرائیل تنازع
یہ کہ گزشتہ ماہ اکتوبر کی 26 تاریخ اور رات کے ڈھائی بجے تھے۔ جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا۔ وہ حملہ جس کا پوری دنیا میں بڑی شدت سے انتظار ہو رہا تھا اور میں نے اس حملے کی پیشن گوئی اپنے گزشتہ کالم میں اکتوبر کی آخری تاریخوں کی، کی تھی ۔ ایسا ہی ہوا۔ ایران نے اسرائیل پر حملہ یکم اکتوبر کو کیا۔
اس کے بعد جوابی اسرائیلی حملے کی تاریخ 26 اکتوبر ہی بنتی تھی ۔ اگر اکتوبر کے 31 دنوں میں سے 5 دن مائینس کر لیے جائیں۔ اسرائیل نے یہ حملہ تہران سمیت ایران کے دو اور شہروں پر کیا۔ حملوں کا یہ سلسلہ رات ڈھائی بجے سے صبح پانچ بجے تک جاری رہا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیلی حملے کو بروقت جوابی کارروائی کر کے ناکام بنا دیا گیا۔
اس حملے کے کچھ گھنٹوں کے بعد تہران کے شہریوں کی بے فکری کا یہ عالم تھا کہ ایک عمر رسیدہ شخص دیوار کے ساتھ بیٹھ کر وائلن بجانے میں مصروف تھا۔ سامراجی میڈیا اور اس کے خوشہ چیں ایک مدت سے پوری دنیا میں اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ ایران بدترین مذہبی جبر کا شکار ہے تو وہاں کھلے عام اور سر عام وائلن کا کیا کام۔ اصفحان ہو یا دوسرے ایرانی شہر ایسی ہی آزاد روی عام دیکھی جا سکتی ہے۔ اسرائیلی حملے کے بعد تہران کے معمولات زندگی نارمل تھے۔
عام شہری تشویش اور سراسیمگی کا شکار نہیں تھا۔ زندگی معمول پر تھی۔ ہے ناقابل یقین حیرت کی بات ۔ کیونکہ ایرانی قیادت اور ایرانی عوام اس بات یقین رکھتے ہیں کہ مزاحمت کا خیال کسی ملک و قوم کا سب سے مضبوط ہتھیار ہوتا ہے۔ ایک یہودی صحافی مسٹر موشے نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ اس حملے سے ثابت ہو گیا کہ ایران کا دفاع مضبوط ہے۔
سامراجی پروپیگنڈے کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایران کے اسرائیل پر حملے کے بعد یہ خبر پوری شدت سے پھیلائی گئی کہ آیت اللہ خامنائی اسرائیلی حملے سے بچنے کے لیے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ ردعمل میں آیت اللہ خامنائی نے یہ اعلان کیا کہ وہ تہران یونیورسٹی کے تاریخی مقام پر نماز جمعہ پڑھائیں گے۔ اندازہ کریں صرف دو دن کے نوٹس پر دس سے بارہ لاکھ افراد بلا کسی خوف کے اس تاریخی میدان میں جمع ہوئے۔ جہاں سامراجی پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے جناب خامنائی نے پانچ برس بعد نماز جمعہ پڑھائی۔ اس طرح یہ پروپیگنڈا تو اپنی موت آپ مر گیا۔
سوال یہاں یہ ہے کہ ایرانی قوم 45 برس سے ہر طرح کی بدترین معاشی اور دیگر پابندیوں کے باوجود اتنی مضبوط اور متحد کیوں ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اتنے خوفناک بیرونی اور اندرونی حملوں کے باوجود ایرانی قوم کو شکست کیوں نہ ہوئی۔ ایرانی انقلاب کے ابتدا میں ہی امریکا نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پوری ایرانی پارلیمنٹ کو بم سے اُڑا دیا۔ جس ملک کی قیادت کے پیچھے اس کی پوری قوم کھڑی ہو اسے کوئی بھی سامراجی قوت شکست نہیں دے سکتی۔جہاں انصاف ہو وہاں معجزے رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مغرب کی ترقی یافتہ اقوام نے اس راز کو پا لیا اور اپنے عوام کو ہر طرح کے حقوق سے سرفراز کر دیا۔
جب کہ دوسری اقوام کو پس ماندہ غلام رکھنے کے لیے امریکی سامراج نے ان قوموں پر ایسے حکمرانوں کو مسلط کر دیا جنھوں نے سامراجی اور اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسا نظام رائج کر دیا جہاں عوام گھر سے باہر تو کیا، گھر کے اندر بھی محفوظ نہ رہیں۔ اس طرح کے حالات میں کوئی بھی قوم انتشار و افتراق کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہاں مائٹ ازرائٹ یعنی جنگل کا قانون نافذ ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اس قوم کا امیون سسٹم اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ وہاں فرقہ واریت ، رنگ ، نسل ، زبان کے تعصبات اسے موت کے دہانے پر لے جاتے ہیں۔
جب یہ صورتحال ہو تو وہاں ایسے دانشوروں کی ایک بڑی تعداد پیدا ہو جاتی ہے جو قلم کو آزار بند بنانے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بدلنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ یہ بدترین بیماری حکمران طبقات سے لے کر نچلے طبقات تک میں ایسی سرایت کر جاتی ہے کہ قوم کے اجتماعی ضمیر کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
یہاں تک کہ آخر کار قوم مکمل طور پر اندرونی اور بیرونی سامراج کی غلام بن جاتی ہے اور اس صورتحال کا آخری انجام دہشت گردی اور خانہ جنگی ہوتا ہے۔پاکستانی قوم بھی ان تمام مراحل سے گزر کر آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ جس کا آغاز قائداعظم، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، بھٹو اور بے نظیر کے قتل سے ہوتا ہے۔
بنگالیوں کے جائز مطالبات کو ماننے کے بجائے ان پر جبر کیا گیا کہ وہ الگ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اس طرح پاکستان توڑنے سے مشرق وسطیٰ میں اس تبدیلی کی پہلی اینٹ رکھ دی گئی۔ یہ سب کچھ کیوں کیا گیا کہ مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنا مقصود تھا۔ یہ امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کی وہ کامیابی تھی جو ستر سال کے زائد عرصے کی مسلسل سازشوں کے بعد حاصل ہوئی لیکن اِدھر سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو اُدھر ایک ایسے پہاڑ کی شکل میں نمودار ہوا کہ امریکی سامراج 45 برسوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسے عبور نہیں کر پایا۔ ورنہ بہت پہلے ہی مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کا خطہ ایسا تبدیل ہوتا کہ پہچاننے میں نہ آتا۔