بیرونی سرمایہ کاری ، معاشی استحکام کی نوید
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے، کاروباری اور تاجر برادری کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ون ونڈو آپریشن کے ذریعے بہترین سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے برطانیہ کی بااثر اور معروف کاروباری شخصیات پر مشتمل وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس وقت ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہے، پاکستان کو معاشی اصلاحات کی ضرورت تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کے چنگل سے نکلنے اور پائیدار معاشی استحکام کے لیے سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے جب تک معاشی نظام قرض پر چلتا رہے گا، اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے۔
ہمیں اپنے مالی معاملات کو بہتر بنانے اور ملک کو مالی طور پر مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو فروغ دینا ہوگا۔ پاکستان ان دنوں دوست ممالک سے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اسی تناظر میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا اور اِس کا مقصد کاروبار کی لاگت کم کرنا، نئے صنعتی کلسٹرز کا قیام اور پالیسی میں ہم آہنگی لا کر ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا خصوصاً دوست ممالک قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے سرمایہ کاری فوری پاکستان لانا تھا، اِس نے قیام کے فوراً بعد ہی کام شروع کردیا تھا اور اب تک اِس کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جا چکے ہیں جب کہ مزید کئی معاہدے بھی متوقع ہیں۔
مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھائے جا رہے ہیں، ان ممالک میں سے روس بھی ایک اہم ملک ہے۔ چین کی حکومت پاکستان میں سی پیک منصوبوں کے معاملے میں سنجیدہ رویے اپنانے پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہے۔ چینی حکومت نے پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر تعاون کے معاملے میں موجودہ حکومت کی کاوشوں کو سراہا ہے۔ اسی طرح روس کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات کو تیزی کے ساتھ مضبوط بنانے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ اس وقت روس اور پاکستان تیل اور گیس کے ذریعے تجارت کررہے ہیں جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ روس اور پاکستان کی تجارت میں پچیس سے تیس فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔
اعداد و شمار خوش آیند اور حوصلہ افزا ہیں، یہ نمبرز بڑھتے رہنے چاہئیں۔ ناموافق حالات کے باوجود پاکستان میں متعدد شعبوں نے اپنی ترقی کی صلاحیت اور اسٹرٹیجک اہمیت کی وجہ سے روایتی طور پر بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ توانائی کے شعبے، خاص طور پر بجلی کی پیداوار، تیل اور گیس کی تلاش نے خاطر خواہ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ پاکستان کو توانائی کے خسارے کا سامنا ہے، قابل تجدید توانائی کے ذرایع میں بھی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ ماضی قریب میں ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں خاص طور پر موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز کی توسیع کے ساتھ نمایاں غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔
اس وقت بھی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ سڑکوں، پلوں اور شہری ترقی کے منصوبوں سمیت انفرا اسٹرکچر کی ترقی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (cpec) بنیادی ڈھانچے کے مختلف منصوبوں کے لیے چینی سرمایہ کاری لانے کا ایک بڑا محرک رہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے نے تاریخی طور پر ہمیشہ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی بڑی افرادی قوت اور ایک بڑے کپاس پیدا کرنے والے ملک کے طور پر اس کی حیثیت سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح بینکنگ اور مالیاتی خدمات کے شعبے نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ یہ شعبہ دیگر صنعتوں کو سپورٹ کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کا خاطر خواہ پوٹینشل موجود ہے جب کہ معدنی وسائل بشمول کوئلہ، تانبا، سونا اور قیمتی پتھروں کی مائننگ کا شعبہ بھی بیرونی سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف ملکی معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے خواہاں ہیں، اقتصادی بحالی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کے لیے بارہا بیرونی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں اور حال ہی میں سعودی عرب کے کامیاب ترین دورے کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں۔ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک سے توانائی خصوصاً قابل تجدید توانائی، آئل ریفائننگ، کان کنی، غذائی تحفظ، بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز، لاجسٹکس، واٹر سپلائی اور ویسٹ مینجمنٹ کے شعبوں میں کثیر سرمایہ کاری متوقع ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔
پاکستان کی معاشی مشکلات میں حکومت کی مدد کے لیے سعودی عرب نے پہلے ہی دو ارب ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کروائے تھے جس سے ملک کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو کچھ ڈھارس ملی تھی، جب کہ حالیہ دنوں میں ریکوڈک میں سعودی عرب کی جانب سے ایک ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کیے جانے کا امکان ہے۔پاکستانی حکام مختلف مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں سعودی عرب سے بڑی سرمایہ کاری کے منصوبے متوقع ہیں، جن میں معدنی وسائل، تجارت، مالیات، ماحولیات، زراعت، نقل و حمل، لاجسٹکس، کمیونیکیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت سمیت دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ پاک، سعودی تجارتی حجم کو 20 ارب ڈالر تک بڑھانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔
اسی طرح سعودی عرب آیندہ پانچ سالوں میں پاکستان سے براہ راست چاول کی درآمد بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ سعودی عرب، پاکستان کی بڑی اور معروف کمپنیوں سے معاہدوں کے ذریعے براہ راست پاکستانی کاشتکاروں سے زرعی پیداوار کو حاصل کرے گا اور اسے سعودی مارکیٹ میں صارف تک کم قیمت پر پہنچایا جائے گا۔ سرمایہ کاری، مشترکہ منصوبوں، تعمیراتی خدمات، آئی ٹی، خوراک ٹیکسٹائل اور مالیاتی خدمات سمیت مختلف کاروباری شعبوں میں تعاون بڑھانے پر غور جاری ہے۔
پاکستان میں معاشی آزادی کی انتہائی کم سطحوں کی سب سے بڑی وجہ حکومت کے غیر ضروری اخراجات ہیں جو بڑے پیمانے پر حکومتی قرضوں کے ذریعے پورے کیے جاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں سرکاری شعبے کی مختلف شعبوں میں موجودگی میں اضافہ ہوتا ہے، جو نجی کاروبار کو پیچھے دھکیلتا ہے، مارکیٹ کی حرکیات کو روکتا ہے اور وسائل کے غلط استعمال کا باعث بنتا ہے۔ ایک کلاسک مثال ترجیحی حکومتی پالیسی کی وجہ سے معاشی آزادی کی کمی کا زرعی شعبہ ہے جہاں، آئی ایم ایف کے مطابق، ترجیحی ٹیکس سلوک نے جمود اور غیر فعالیت کو فروغ دیا ہے، جو معیشت کے زیادہ پیداواری شعبوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
یہ شعبہ مسلسل کم پیداواریت کی سرگرمیوں میں پھنس کر رہ گیا ہے، عوامی فنڈز کا ایک بڑا حصہ خرچ کرکے بھی غیر مؤثر اور غیر مسابقتی ہے۔اس وقت پاکستان کو شدید معاشی للکار کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے خوراک، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، ماضی کی ناقص حکمرانی اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر رہی کہ ابتدائی اور درمیانی آمدنی کے حامل ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم پیداواری فی کس کے نتیجے میں ادائیگیوں کے توازن میں بحران پیدا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ ملک اتنا زر مبادلہ کمانے سے قاصر تھا کہ درآمدات کے لیے فنڈ مہیا کر سکے۔
قرضوں کی ری شیڈولنگ کو یقینی بنایا جانا بھی بہت ضروری ہے کہ اِس کے بغیر شاید مسائل قابو میں نہ آئیں جب کہ غیر ملکی زر ِمبادلہ کے ذخائر، برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلاتِ زرکے علاوہ ٹیکس نیٹ اور ٹیکس اصلاحات کے ذریعے ٹیکس آمدن بڑھانے کے ساتھ ساتھ اندرونی قرض، غیر ضروری حکومتی اخراجات، شرح سود اور مہنگائی میں کمی لانا ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھی جائیں۔ ضروری ہے کہ پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔
زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان لانا ملک کے معاشی مسائل کے حل کی کنجی ضرور ہے تاہم وہ ملک جہاں سیاسی استحکام نہ ہو اُس کے لیے سرمایہ کار کو راغب کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اِن پہاڑ جیسے معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔روایتی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو موجودہ حالات کے پیش نظر اقتصادی سفارت کاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستان کے تمام مشنز کو سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ان مربوط اقدامات اور کوششوں کی بدولت ملکی معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔