سگ گزیدہ اورمردم گزیدہ
بہت پرانی پشتو کہاوت ہے کہ
وہ تیرا باپ کیا کم تھا جو تو نے کتا بھی پال لیا
بظاہر یہ کسی دل جلے عاشق کی شکایت ہے جو وہ اپنے محبوب سے کر رہا ہے ، دراصل کچھ لوگ خرچہ بچانے کے لیے اپنے منہ میں ہی کتا پال لیتے ہیں ،اس عاشق کا ہونے یا نہ ہونے والے سسر نے بھی اپنے منہ میں کتا پالا ہوگا جسے وہ وقتاً فوقتاً عاشقوں پر چھوڑتا ہوگا ، لیکن اوپر محبوب نے سچ مچ کا کتا بھی پال لیا ، گویا یک نہ شد دوشد
اب اگر ہم چاہیں تو اس صورت حال کو آج کل کی حقیقی دنیا پر بھی چسپاں کرسکتے ہیں کیوں کہ یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی پھیلنے لگا بہت سارے لوگ اپنے منہ کاکتا ناکافی سمجھ کر کتے پال رہے ہیں اگرچہ یہ سلسلہ مہنگا بہت ہے کیوں کہ اچھے کتے ایک تو بڑی مشکل سے ملتے ہیں دوسرے مہنگے بھی بہت پڑتے ہیں کیوں کہ راتب بہت زیادہ کھاتے ہیں لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ ان لوگوں کے پاس ’’بہت کچھ‘‘ دینے کے لیے ہوتا ہے ،مطلب یہ کہ بہت کچھ غیب سے مل جاتا ہے ۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ ایسے سگ یہاں وہاں لوگوں کو کاٹتے بھی ہوں گے اورآنے جانے والے شکایت بھی کرتے ہوں گے لیکن ایسا کچھ نہیں کہ یہ کاٹنے والے نہیں ہوتے صرف بھونکنے والے ہوتے ہیں کیوں کہ ان کو صرف بھونکنے کی تربیت دی گئی ہوتی ہے ،کاٹنے کی نہیں بلکہ ان کو خود بخود اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ مالک کی رضا کیا ہے یعنی کس پر بھونکنا ہے اورکس کے قدموں میں چیاؤں چیاؤں کر کے خوش آمدید کہنا ہے اورخیر مقدمی انداز میں دم ہلانا ہے۔
کسی اورمقام کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں کہ وہاں کیا صورت حال ہے ،لوگ کتے پالتے ہیں یا خود ان کا کام کرتے ہیں لیکن ہمارے گاؤں میں تو آج کل یہی سلسلہ چل رہا ہے کہ بھونکنے کے لیے کتے رکھے جاتے ہیں اورکاٹتے خود ہیں۔کچھ لوگوں نے تو ایسے ایسے لائق فائق وفادار کتے پالے ہیں کہ صرف کھانے پینے کے وقت ہی سائلنٹ ہوتے ہیں، باقی مسلسل اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اب اگر کسی جگہ ایسی صورت حال پیدا ہوجائے جیسی ہمارے گاؤں میں ہے تو عام لوگوں کی نیندیں تو یقیناً حرام ہوں گی جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا ہے ۔
ہمارے محلے میں بھی ایک صاحب نے ایک بہت ہی کوالی فائیڈ کتا پالا ہوا ہے حالانکہ بھونکنے میں خود اس کو بھی یدطولیٰ بلکہ زبان طولیٰ حاصل ہے ۔ اس کے نوکر اورمالی موالی لوگ بتاتے ہیں کہ مالک نے اپنے منہ میں جو کتا پالا ہوا ہے وہ اس پالے ہوئے کتے سے کم نہیں ہے اورکوئی ضرورت نہیں تھی اس کو اصل کتا پالنے کی ۔ لیکن فیشن بہرحال فیشن ہوتا ہے ویسے بھی مالک صرف نوکروں پر بھونکتا ہے اورعام لوگوں پر بھونکنا کسر شان سمجھتا ہے اس لیے راہ گیروں یا دوسرے کتوں پر بھونکنے کے لیے الگ سے بندوبست کرنا پڑا ہے۔خیر توہمیں بھی اس مسلسل بھونکنے سے بڑی بے آرامی ہوگئی ، زورآور آدمی تھا کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے لیکن خدا جناب مشتاق احمد یوسفی کو اجر عطا فرمائے کہ ان کی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ میں ہمیں ایک تیربہدف نسخہ مل گیا ۔
کہتے ہیں کہ ان کو پڑوسی کے کتے نے بہت زیادہ بے آرام کیا تو وہ ایک دوست ڈاکٹر کے پاس گئے کہ کوئی دوا دے دو جو اس کتے کو عارضی یاہمیشہ کے لیے سلائے۔ ڈاکٹر نے گولیاں دیں اور وہ انھوں نے کسی چیزمیں لپیٹ کر کتے کو کھلادیں لیکن کوئی اثر نہیں ہوا ، کتابدستور بھونکتا رہا ، وہ پھرڈاکٹر کے پاس گئے کہ ذرا زیادہ موثر خواب آوردوا دے لیکن اس مرتبہ بھی کتا خاموش نہیں ہوا، تیسری مرتبہ ڈاکٹرنے چنگل گولیاں دے کر کہا کہ ساری کی ساری گولیاں ایک ساتھ کھلا دو اس سے یقیناً سو جائے گا۔ لیکن اس مرتبہ بھی کتے پر کوئی اثر نہیں ہوا اورساری رات بھونکتا رہا ۔
ڈاکٹر کو بتایا تو وہ حیران ہوا پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے نئی گولیوں کا پتہ دیا اورکہا کہ یہ کتے کو نہیں کھلانا بلکہ دوگولیاں خودکھا لیں۔ یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ کمال کی گولیاں تھیں اس رات کتا بالکل نہیں بھونکا ، ہم نے یہ نسخہ ازبر کرکے ڈاکٹر سے رجوع کیا اس نے گولیاں دیں اورآج کل ہم بڑے آرام سے ہیں لیکن ڈاکٹر نے ایک ہدایت یہ بھی کی ہے کہ اخبارات پڑھنا اورچینلات دیکھنے سے سخت پرہیزکریں۔
اخبارات اورچینلات سے پرھیز کچھ مشکل ضرورہے لیکن بدلے میں ہمیں جو آرام ملا ہے وہ انمول ہے ۔ ویسے ایک علاج ہمارے ایک گاؤں والے نے بھی دریافت کیاہے اس نے گھر میں ایک خاص قسم کی دوا ڈال کر روٹیاں پکائیں اورپھر پورے گاؤں میں پھر کر سارے کتوں کو ایک ٹکڑا کھلایا تھا لیکن یہ طریقہ آوارہ اورگلی کوچوں کے کتوں پر تو کارگر ہے لیکن پالے ہوئے کتوں کے لیے کامیاب نہیں ہے کیوں کہ پالنے والے ان کا پیٹ ہمیشہ بھرا رکھتے ہیں اور وہ یہاں وہاں انٹ شنٹ کچھ بھی نہیں کھاتے ۔
یہ خواب آورگولیاں خود کو کھلانے کا طریقہ ہی درست ہے ۔کتوں میں ایک اور بات انسانوں سے بالکل ہی برعکس ہے انسان جب پاگل ہوجائے اور اکثر پاگل ہوتے رہتے ہیں کبھی کسی لیلیٰ کے لیے توکبھی کسی کرسی کے لیے ۔ تو اور زیادہ بھونکنے لگتے ہیں جب کہ کتوں کا معاملہ قطعی اس کے برعکس ہے، باؤلے ہونے کی صورت میں خاموش ہوکر صرف کاٹنا شروع کردیتے ہیں گویا چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں جسے ہندی اصطلاح میں ’’موہن ورت‘‘ اورانگریزی میں ’’لاک جا‘‘ کہتے ہیں لیکن یہ بات آج تک واضح نہیں ہوئی کہ ان کے کاٹے ہوئے پانی سے کیوں ڈرتے ہیں البتہ انسانوں کے کاٹے ہوئے آئینے سے ڈرتے ہیں اس کی تصدیق مرشد نے بھی کی ہے کہ ؎
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ ’’مردم گزیدہ ‘‘ ہوں
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ باؤلے انسان بھی آئینے سے ڈرتے ہوں گے اسی لیے ان کے گزیدگان بھی آئینہ دکھانے پر کاٹنے کو دوڑنے لگتے ہیں ، بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو باؤلے آئینے سے ڈرتے ہیں وہ بھی باؤلے ہوتے ہیں اورانھیں کسی بھی بات کاہوش نہیں رہتا۔
میں کون ہوں میں کہاں ہوں مجھے یہ ہوش نہیں
یہ کیاجگہ ہے جہاں ہوں مجھے یہ ہوش نہیں