نئی قانون سازی اور سیاسی منظر نامہ
پارلیمان نے نئے قوانین منظور کر لیے ہیں۔ صدر مملکت نے ان تمام قوانین پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پہلے 26ویں ترمیم سے حکومت بہت مضبوط ہوئی ہے۔ اب نئی قانون سازی نے تو کہا جا رہا ہے کہ حکومت مضبوط سے مضبوط تر کر دیا ہے۔ بہر حال یہ قانون سازی پاکستان کے سیاسی منظر نامہ کو کافی حد تک تبدیل کر دے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن کمزور ہوئی ہے، اگر کسی کو حکومت کے گھر جانے کے بارے میں کوئی شک تھا، اب وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
سب سے زیادہ شور سروسز چیفس کے عہدہ کی مدت پانچ سال مقرر کرنے پر ہوا ہے۔ ان عہدوں کی پہلے مدت تین سال تھی۔ لیکن اب پانچ سال کردی گئی ہے۔ یہ قانون موجودہ سروسز چیفس پر لاگو ہوگا۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب موجودہ آرمی چیف کی مدت عہدہ پانچ سال ہو گئی ہے۔ وزیراعظم کے پاس مزید توسیع دینے کا اختیار بھی موجود ہے ۔
پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی سے لے کر مدت عہدہ میں توسیع ہمیشہ سے میڈیا کے لیے ہاٹ ایشو رہا ہے،افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے اور سارا نظام زلزلے کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے، جمہوریت غیر مستحکم ہو جاتی ہے اور حکومت کمزور نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔
ہر تین سال بعد پاکستان ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوتا آرہا ہے لیکن اب ملک اس صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس عہدے کی مدت پانچ سال کرنے سے صورتحال بہتر ہوگی ، افواہوں کا سلسلہ کم از کم چار برس تک رکا رہے گا، آخری برس میں ہی افواہ سازوں کو اپنا کام کرنے کا موقع ملے گا، پہلے نہیں، لہٰذا حکومت مستحکم رہے گی ، اپوزیشن حدود میں رہ کر سیاست کرے گی ، یوں ملک میں سیاسی استحکام نظر آئے گا۔ کم از پالیسیوں کا تسلسل پانچ سال رہ سکے گا۔
اس لیے مجھے اس قانون سازی میں ایسا کچھ مسئلہ نظر نہیں آرہا۔ یقیناً اس قانون سازی سے نظام اور حکومت مستحکم ہوئی ہے۔ ورنہ سب کی نظریں اگلے سال توسیع پر تھیں۔ توسیع ہو گی یا نہیں۔ اس لیے اس قانون سازی سے نہ صرف ابہام دور ہوا ہے۔ بلکہ کسی بحران کا خدشہ بھی ختم ہوا ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل بھی آئے گا۔ ورنہ پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل بھی اس ایک تعیناتی کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے پر بھی بہت بات ہو رہی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط نے بھی بہت سے سوال پیدا کیے ہوئے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس کسی بھی قسم کی مداخلت روکنے کے لیے وہ تمام اختیارات موجود ہیں جو سپریم کورٹ کے ججز کے پاس ہیں، سپریم کورٹ کے پاس کوئی اضافی اختیار نہیں،اس لیے یہ جج صاحبان خود ہی مداخلت روکنے کے لیے اقدمات کر سکتے تھے۔
اس خط کا تحریک انصاف نے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے بعض فیصلوں کا تحریک انصاف کو بہت فائدہ بھی ہوا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں ہائی کورٹس کے ججز کا ایک سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ کرنے کی شق شامل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ تب بھی پی ٹی آئی اور ان کے حامیوں نے یہی شور مچایا تھا کہ یہ شق شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چند ججز کا دوسری ہائی کورٹس میں تبادلہ کرنا چاہتی ہے تا کہ وہاں چھ ججز کا اتحاد توڑا جا سکے۔ اب شور مچایا جارہا ہے کہ اس ناکامی کے بعد اب حکومت نے اسلام آباد کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ وہاں نئے ججز لا کر چھ ججز کے اتحاد کو مارجنلائز کیا جا سکے گا۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ویسے تو سپریم کورٹ میں آئینی بنچ کے قیام سے وہاں نئے ججز کی ضرورت تھی۔ سپریم کورٹ میں جس قدر مقدمات زیر التوا ہیں، ان کا بھی یہی تقاضہ تھا کہ وہاں ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن آئینی بینچ کے قیام کی ترمیم کے بعد ، یہ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ ججز کی تعداد کم ہے، اس لیے ججز کی تعداد بڑھانا حکومت کی مجبوری بھی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ ججز کی تعداد زیادہ بڑھائی گئی یا ایسا کرکے اچھا کام کیا گیا۔
گروپنگ کے نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے، اگر اتنی بڑی تعداد میں سپریم کورٹ میں نئے ججز آجاتے ہیں تو پرانی گروپنگ پس منظر میں چلی جائے گی۔ مخصوص سوچ نے جو ماحول بنایا ہوا ہے، وہ سب بدل جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ججز کی تعداد بڑھنے سے سائلین کو فائدہ ہوگا، پینڈنگ مقدمات کی سماعت شروع ہوجائے گی اور ان کے فیصلے آنا شروع ہوجائیں گے ۔ یوں پارلیمان ، عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ بھی ختم ہو جائے گا۔ میں ذاتی طورپر ملک میں ہر سطح کی جیوڈیشری میں ججز کی تعداد میں اضافے کے حق میں ہوں۔ صرف سپریم کورٹ میں ہی پچاس ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔
مقدمات کی دس دس سال سے باری نہیں آرہی۔ اس لیے جب تک ججز کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا، زیر التو مقدمات کی تعداد کم نہیں ہو سکتی۔ عام سائل کی بروقت دادرسی نہیں ہوسکتی۔ میں سمجھتا ہوں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججزکی تعداد بڑھنے کے بعد وہاں بھی زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی ہوگی۔ باقی ہائی کورٹس میں بھی ججز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔
ماتحت عدلیہ کے ججز کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائی کورٹس میں ججز کی تعداد میں اضافہ صوبائی اسمبلیوں نے کرنا ہے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کی تعداد میںاضافہ ہائی کورٹس نے خود کرنا ہے۔ میں ملک میں نظام انصاف کی ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں ہر سطح پر ججز کی تعداد میں اضافے کے حق میں ہوں۔ اس لیے مجھے ججز کی تعداد میں اضافے کی قانون سازی مثبت قانون سازی لگتی ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں حکومت پہلے ہی ایک آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر چکی تھی۔ اب اس آرڈیننس کو قانون کی شکل دے دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ذریعے چیف جسٹس کوبنچز کے قیام کے لیے ساتھی ججز کے ساتھ مشاورت کا پابند کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں تین سنئیر موسٹ ججز کی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ لیکن پھر محسوس ہوا کہ کمیٹی کے دو ارکان نے مل کر چیف جسٹس کو او ایس ڈی بنا ڈالا۔ اس لیے اب اس کمیٹی میں چیف جسٹس کے بعد سنئیر موسٹ جج کو تو رکھا گیا ہے۔ لیکن ایک ممبر چیف جسٹس اپنی مرضی سے بھی لگا سکتے ہیں۔
اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اگر پہلی قانون سازی سے یہ بات سامنے آئی کہ چیف جسٹس کو کمیٹی کے دیگر دو جج صاحبان کے ساتھ مشاور ت کا پابند کرنا مقصد ہے، او ایس ڈی بنانا مقصد نہیں ہے ۔ اس لیے نئی قانون سازی چیف جسٹس کو اس کا اختیار واپس دے گی، اب چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ وہ تیسرے ممبر کے طور پر سنیئر موسٹ کو رکھیں یا بدل دیں۔ اس لیے چیف جسٹس مضبوط ہوئے ہیں جب کہ دوججز کی ساری توجہ مشاورت تک رہے گی نہ چیف جسٹس کو مفلوج کرنے پر۔