ذکر فیض اور صاحب فیض

پاکستان میں ڈھونڈنے نکلیں، تو دو طرح کے تخلیق کار ملیں گے۔

khurram.sohail99@gmail.com

پاکستان میں ڈھونڈنے نکلیں، تو دو طرح کے تخلیق کار ملیں گے۔ پہلے وہ جنھوں نے خوب جی بھر کے شہرت کمائی اور دوسرے وہ جن کو گمنامی نے نگل لیا۔ اس تناظر میں بے شمار نام لیے جاسکتے ہیں، مگر جس شخصیت کی یہاں بات ہو رہی ہے، اُن کا نام ''فیض احمد فیض'' ہے، جنھیں نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی بے پناہ شہرت ملی۔ فیض اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی شہرت کا سلسلہ عہدِحاضر میں بھی جاری ہے، کیونکہ ابھی ہم تک یہ اطلاع پہنچی ہے کہ دنیا کی 50 بہترین رومانی نظموں میں فیض صاحب کی نظم ''رنگ ہے دل کا میرے'' بھی شامل ہے۔ یہ انتخاب عالمی سطح پر کیا گیا ہے۔

فیض احمد فیض 1911 میں پیدا ہوئے اور 2011 میں فیض صدی منائی گئی، جس کے تحت پاکستان بھر میں تقریبات منائی گئیں، لاہور میں سجائے گئے میلے میں بھارت سے جاوید اختر اور شبانہ اعظمیٰ بھی تشریف لائیں۔ کراچی میں بھی کئی شاندار تقریبات کا انعقاد ہوا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اسی سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں، جن میں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، روس، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہالینڈ، بلجیم، ڈنمارک، سویڈن، کینیڈا، امریکا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔

اردو شاعری میں میر تقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، علامہ اقبال کے بعد فیض احمد فیض ہی وہ نام ہیں، جن کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد بے شمار ہے، مگر ایک کتاب جس کی کمی فیض کے چاہنے والے محسوس کرتے تھے، وہ ان کی ''سوانح عمری'' تھی، جسے محکمہ ثقافت، سیاحت ونوادرات، حکومت سندھ نے ہمارے عہد کے قابل نقاد اور محقق مظہر جمیل کی خدمات حاصل کیں اور اس دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

مظہر جمیل ادبی تحقیق کے شعبے میں جانا پہچانا نام ہیں، انھوں نے گفتگو، آشوب سندھ اور اردو فکشن، جدید سندھی ادب، میلانات، رجحانات امکانات، انگارے سے پگھلا نیلم تک۔ نئے گوشے نئے تناظر، سوبھوگیان چندانی۔ شخصیت وفن، سندھی زبان وادب کی مختصر تاریخ اورایک صدی کی آواز۔ محمد ابراہیم جویو جیسی مستند کتابیں لکھیں۔ ہر کتاب اپنی جگہ سنجیدہ تحقیق طلب کام تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے ہر موضوع کے ساتھ انصاف کیا اور تحقیق کے تقاضے پورے کیے۔

حکومت سندھ نے ایک اچھی روایت قائم کی، فیض کے حوالے سے 17 منتخب کتابوں کے سندھی زبان میں تراجم کروائے اور ''ذکر فیض'' جیسی کتاب لکھوائی۔ ان کتابوں کے حوالے سے فریئر ہال کراچی میں ایک مشترکہ تقریب رونمائی کا انعقاد بھی کیا گیا۔ بازار میں یہ کتاب ابھی دستیاب نہیں تھی اور اسے پڑھنے کا کئی لوگوں کو اشتیاق تھا۔ کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد بازار میں اس کا دستیاب نہ ہونا متعلقہ ادارے کی کاہلی ہے۔

''ذکر فیض'' 1083 صفحات پر مشتمل کتاب، جس میں 33 ابواب ہیں۔ سرورق پر فیض صاحب اپنی بیگم ایلس اور اپنی دونوں بیٹیوں، منیزہ اور سلیمہ کے ہمراہ ایک فوٹو میں بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں، جب کہ کچھ ذیلی تصاویر میں وہ علی سردار جعفری، سبط حسن، پابلو نرودا کے ساتھ ہیں اور ایک تصویر لینن ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کی ہے۔ کتاب کے اندر 78 تصاویر ہیں، جن میں فیض اپنے عہد کے تمام بڑے دانشوروں، ہم عصروں اور مداحوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔


اس کے علاوہ فیض صاحب کے اشعار کو صادقین نے متصور کیا، وہ پینٹنگز بھی ان ہی تصاویر کا حصہ ہیں اور ان کی شاعری کے تناظر میں جو کارٹون بنائے گئے، ان کا انتخاب بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ تقریباً 300 شہ سرخیوں اور ذیلی سُرخیوں سے فیض صاحب کی زندگی کے مختلف نمایاں اور مخفی پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں ان کا بچپن، نوعمری، جوانی، تعلیم، ملازمتیں، سیاحت، اسیری، جلاوطنی، رفاقتیں، تنہائی، تخلیقات اور دیگر پہلو شامل ہیں۔

کتاب کے آخر میں حواشی، اشاریے اور مختصر سوانحی کوائف بھی دیے گئے ہیں اور جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا، ادبی رسالوں نے ''فیض نمبر'' شایع کیے، ان کی فہرست بھی دی گئی ہے، جو خاص طور پر تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہو گی۔ فیض صاحب کی زندگی میں جتنا پھیلائو ہے، اس کو سمیٹنے کے لیے مظہر جمیل جیسا دوربین اور گہری نظر رکھنے والا شخص ہی چاہیے تھا۔ مظہر جمیل نے فیض پر لکھنے کا حق واقعی ادا کر دیا۔

''ذکر فیض'' کے 33 ابواب میں ہر باب اپنے اندر ایک جامعیت سموئے ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے قاری کو خبر ہو گی کہ فیض کے بزرگ بھی کتنے قابل تھے۔ خاندانی روایات کس قدر شاندار تھیں۔ زمانہ طالب علمی کو فیض نے کیسے گزارا۔ اپنے ہم عصروں سے کیسے تعلقات تھے۔ ترقی پسندی نے کیسے فیض کے دل میں گھر کیا، اس راہ میں انھیں کتنے دوست ملے اور کتنے ہی دشمنوں سے واسطہ پڑا۔ فوج اور صحافت کے تجربات نے ان کی شخصیت کو کس طرح متاثر کیا۔ بیوی اور بچوں سے زندگی نے کس قدر خوبصورت موڑ لیا اور پھر فیض کے کنبے نے اپنے اس تخلیق کار کی خاطر کتنی قربانیاں دیں۔

شاعری نے کس طرح دلوں کو فتح کیا اور کیسے سازشوں نے فیض صاحب کے تخلیقی سفر میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔ عالمی سطح پر فیض صاحب کی مقبولیت میں کس طرح اضافہ ہوا۔ روس میں دی گئی عزت اور وطن عزیز سے دوری، جلاوطنی اور پھر واپسی کے احساسات نے فیض صاحب کو کتنا کندن بنا دیا۔ فیض کی شاعری سے کس طرح عالمی دنیا نے فیض حاصل کیا اور فیض کی شاعری کے عالمی تراجم اور فیض صاحب کی زندگی کے دیگر پہلو کبھی ہم پر اس طرح منکشف نہ ہوتے۔

گزشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں اس کی ''تقریب تعارف'' کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب کے مقررین میں مبین مرزا، عنبرین حسیب عنبر، مہتاب اکبر راشدی، مسلم شمیم، جعفر احمد، زاہدہ حنا، سحر انصاری شامل تھے جب کہ اس تقریب کی صدارت پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کی تھی، نظامت کے فرائض سلیم میمن انجام دے رہے تھے۔ سوائے ایک دو مقررین کے باقی سب کی گفتگو سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ انھوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی۔ حاضرین مستقل مزاجی سے آخر تک کرسیوں پر براجمان رہے اور مقررین کی تقاریر کو بڑے تحمل سے سنا۔ سچی بات تویہ ہے ''ذکر فیض'' جیسی کتاب اور ''فیض احمد فیض'' جیسی شخصیت کے لیے جیسی تقریب ہونی چاہیے، یہ ویسی نہ تھی۔ 10 مقررین میں سے 8 کا فیض صاحب کے کام سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔

''ذکر فیض'' کتاب کی صورت میں فیض کے چاہنے والوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کو پڑھنے کے بعد بات کی جانی چاہیے۔ یہ کتاب ایک بار پڑھنے والی نہیں ہے، باربار پڑھی جانے والی کتاب ہے، کیونکہ فیض صاحب کی زندگی میں کئی جہتیں ہیں، جن کا ادراک ایک ہی بار پڑھنے میں ممکن نہیں ہے۔ فیض کے چاہنے والوں کے لیے یہ اچھی علامت ہے کہ وہ ''ذکر فیض'' کو پڑھنے کے بعد فیض سے متعلق دیگر کتابوں سے بھی استفادہ کرسکیں گے۔

میں فیض صاحب کی شاعری سے پہلی مرتبہ ضیا محی الدین کی آواز کی بدولت متعارف ہوا تھا، اس آواز کے تعاقب میں مجھے درِفیض تک رسائی ہوئی۔ مجھے اس بات کا قوی یقین ہے، جن لوگوں کو فیض صاحب سے حقیقی محبت ہے، انھیں یہ کتاب حیرت میں مبتلا کردے گی، وہ فیض صاحب کی دنیا کو جان لینے کی جستجو میں درِ فیض تک رسائی حاصل کرلیں گے۔ یہ مظہر جمیل کے قلم کا مظہر ہے، جس سے نئی نسل فیض یاب ہو گی۔ عاشقان فیض کے ہاں کتابوں کی الماری میں ان کے شعری مجموعے ''نسخہ ہائے وفا'' کے برابر میں ''ذکرفیض'' رکھنے کے بعد انھیں ایسا محسوس ہو گا جیسے فیض صاحب کی محبت کے ایک پلڑے میں شاعری اور دوسری میں ان کی زندگی رکھی ہوئی ہے۔ یہ توازن حلقہ فیض سے وابستہ لوگوں کے لیے پرلطف احساس ہے، جس کے لیے مظہر جمیل مبارک باد کے مستحق ہیں۔
Load Next Story