گہرے سمندر میں لوگوں کی زندگیاں بچانے والے لائف گارڈز آج بھی روایتی طریقوں پر کاربند
شہر قائد کی ساحلی پٹی سی ویو سے کیپ ماونزے تک 50 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے، سمندری تندی کی وجہ سے کراچی کے ساحلوں پر تفریح کے لیے آنے والے لوگوں کی زندگیاں بچانے والے دہاڑی دار لائف گارڈز کو بسا اوقات اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں لیکن چلچلاتی دھوپ کے تیز وسل بجاتے بھاگتے دوڑتے لائف گارڈز آج بھی روایتی طریقوں پر کار بند ہیں۔
دنیا بھر میں سمندر میں ڈوبنے والوں کے بچاو کے لیے تیراک کی تربیت کے ساتھ اسپیڈ بوٹس اور جیٹ اسکی (سمندری اسکوٹر) کا استعمال کیا جاتا ہے۔
شہر قائد کی لگ بھگ 50 کلومیٹر پر پھیلے تاحدنگاہ ساحلوں میں سی ویو کے تاحد نگاہ پھیلے ساحل کے علاوہ کیپ ماونزے سمیت قرب و جوار کے علاقے شامل ہیں۔ سمندر کی پرشور لہروں کے عین نیچے بھی زمین کی طرح نشیب و فراز یعنی گڑھے اور چٹانیں موجود ہیں جس کی وجہ اکثر و بیشتر تفریح کے دوران سمندر میں نہاتے افراد اچانک گہرائی میں چلے جاتے ہیں یا تندوتیز لہروں کے دوش پر بہہ جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ساحل سمندر پر چوکنا اور وسل بجاتے لائف گارڈز کا خطروں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، دن بھر چلچلاتی دھوپ کے دوران چوکنا لائف گارڈز بھوک و پیاس سے بے نیاز سمندری لہروں پر نظریں جمائے دکھائی دیتے ہیں۔
ہاکس بے پر پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کے دوران بھاگتے دوڑتے عبدالرحمٰن گوٹھ کے رہائشی علی اسمٰعیل کے مطابق تمام تر مہارتوں کے باوجود بسا اوقات سمندر ان کو بھی مشکل میں ڈال دیتا ہے اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ سمندر کسی کا نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندر میں ڈوبتے لوگوں کو بچانے کے لیے پہلے اپنے آپ کو وارم اَپ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک چھوٹی سی غلطی لائف گارڈ کو بھی خطروں سے دوچار کر سکتی ہے۔
علی اسمٰعیل کے مطابق ہمارے یہاں آج بھی روایتی طریقے رائج ہیں جس میں لائف گارڈز اپنے کمر پر بندھے ایک سنگل لائف جیکٹ کے ساتھ ہر قسم کے حالات کو پش پشت ڈال کر سمندر میں کود جاتے ہیں مگر ایسے مواقعوں پر اسپیڈ بوٹس اور جیٹ اسکی بھی لازم ہوتی ہے جس کی پاکستانی لائف گارڈز کے پاس فقدان ہے کیونکہ یہ اسپیڈ بوٹ اور جیٹ اسکی (سمندری اسکوٹر) بلند لہروں کے درمیان بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کسی فرد کے سمندر میں ڈوبنے کا پتہ یوں چلتا ہے کہ سمندر کی سطح پر اونچی لہروں کے دوران اس کا سر بار بار اوپر، نیچے ہو رہا ہوتا ہے جس کے بعد لائف گارڈ اس کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے، اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ موجود لوگ بے ساختہ چیخ و پکار کرنے لگتے ہیں جس کے بعد غیر معمولی صورتحال اور حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔
علی اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ تفریح کے لیے ساحل پر آنے والے لوگوں وسل کے ذریعے تنبیہ کرتے ہیں، بعض مواقع پر انھیں اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر سمندر کے اندر چٹانوں اور گڑھوں والے علاقوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کو ایک مشورہ دیں گے کہ ایک تو اس مقام پر نہانے یا سمندر میں جانے سے گریز کریں جہاں پر لائف گارڈ موجود نہ ہو، دوسرا عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ایک بندہ ڈوب رہا ہوتا ہے تو گھر کے دیگر نوجوان بھی اسے کے پیچھے مہم جوئی کرتے ہوئے چھلانگ لگا دیتے ہیں اور وہ بھی ڈوب جاتے ہیں، ماضی میں ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں کہ ایک ہی خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں لائف گارڈز کی ہی خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیں۔
ہاکس بے اور سینڈزپٹ پر لوگوں کی زندگیاں بچانے پر مامور لائف گارڈز کے مطابق اتنا پرخطر کام کرنے کے باوجود وہ لوگ لگی بندھی تنخواہ اور میڈیکل سمیت دیگر مراعات سے محروم ہیں اور دہاڑی پر کام کرتے ہیں۔
ہاکس بے پر متعین ایک دوسرے لائف گارڈ برکت کے مطابق ابتدا میں وہ لوگ رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے، اس میں ان کے ذاتی شوق کا بھی عمل دخل تھا کیونکہ انھوں نے اپنے بزرگوں کو برسہا برس سے ڈوبتوں کا سہارا بنتے دیکھا ہے مگر اب وہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ دہاڑی پر کام کرتے ہیں، ان کی کوئی لگی بندھی تنخواہ نہیں ہے اور نہ ہی علاج معالجے سمیت دیگر کوئی سہولیات حاصل ہیں، ان کے ساتھ 200 دیگر اہل کار بھی کام کرتے ہیں۔
برکت کے مطابق کسی بھی فرد کو بچانے کے لیے لائف گارڈ کا پرسکون ہونا بڑی معنی رکھتا ہے کیونکہ ساحل پر اکثر و بیشتر بیک وقت موجود 500 لوگوں کو مسلسل تیز وسل بجا کر سمندر میں جانے سے روکنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے میں لوگوں کی کڑوی کسیلی باتوں کی وجہ سے بھی وہ ذہنی کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں، کئی مرتبہ تو سمندر میں نہانے والے افراد خصوصاً نوجوانوں اور منچلوں کو محتاط رہنے کے مشورے پر اپنے کام سے کام رکھ یا پھر چل بھئی چلا اپنا کام کر، جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں۔
برکت نے بتایا کہ لائف گارڈز بھی عزت کے حقدار ہیں، دنیا بھر میں لائف گارڈز کو جو تعظیم دی جاتی ہے وہ رویہ پاکستان میں بھی ہونا چاہیے۔
لائف گارڈ برکت کے مطابق ڈوبتے ہوئے فرد کو بچاتے ہوئے اس اس کے جسمانی حالت بہت معنی رکھتی ہے، اگر ڈوبتا مدمقابل بہت زیادہ جارحانہ رویے کا حامل ہو تو اس کو پرسکون رہنے کے لیے مختلف جملے بولے جاتے ہیں جیسا کہ اسے کچھ نہیں ہوگا، وہ بالکل محفوظ ہے وغیرہ وغیرہ ایسے فرد کو کچھ فاصلے سے عقبی جانب سے کمر سے پکڑ کر اوپر کی جانب اٹھایا جاتا ہے کیونکہ اس کے بہت زیادہ قریب رہنے کے سبب وہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق لائف گارڈز لپٹنے اور پکڑے کی کوشش کرتا ہے۔
ہاکس بے پرپیشہ ورانہ سرگرمیاں انجام دینے والے دیگر لائف گارڈز کا ماننا ہے کہ کراچی کے ساحلی مقامات اپنے ہیئت کے ساتھ ساتھ کچھ مختلف حیثیت اور مزاج کے حامل ہیں، سب سے پہلے اگر ہاکس بے کے ساحل کی بات کی جائے تو یہ کھلے سمندر کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے تندوتیز لہروں کا سبب ہے۔ اسی طرح اگر سینڈزپٹ کے ساحل کی بات کی جائے تو وہ غیر متوقع گڑھوں کا حامل ہے یعنی اسپاٹ مقام کے بعد اچانک گہرائی سے سابقہ پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندر کا مزاج سرد و گرم حالات کے دوران تبدیل ہوتا رہتا ہے، کبھی کبھار یہ پرسکون تو کبھی غیض و غضب میں تبدیل ہوکر اپنے دامن میں انتہائی خطرناک موجیں اور خطرات لیے پھرتا ہے۔
ایک سروے کے مطابق شہر کے ساحلی مقامات پر ہر سال 95لاکھ افراد تفریح کی غرض سے رخ کرتے ہیں، ان افراد کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات انتہائی ناگزیر ہیں۔