کوئی علاج نہیں ؟
لاہور میں اچھی قسم کے ماسک نہیں مل رہے جو سموگ سے بچا سکیں اور سانس لینے میں دقت نہ ہو۔ کسی نے بتایا تو حیرت ہوئی کہ کورونا وباء کے بعد سے تو ماسک کی رل پڑ گئی تھی۔ ملک میں ہر رنگ اور قیمت کے ماسک ملنا شروع ہو گئے تھے۔
اچھی اور بری دونوںکوالٹی کے ماسک دستیاب تھے ، دس روپے میںبھی ماسک مل جاتا ہے اور اس میں اور بیس روپے والے میں فرق جاننا دشوار ہے ۔ پھرعلم ہوا کہ سادہ ماسک نہیں بلکہ کم از کم N-95 ماسک اس نوعیت کی آلودہ فضا میں قدرے بہتر حفاظت فراہم کر سکتے ہیں مگر وہ قیمت میں زیادہ ہیں ، جب کورونا سے ہزاروں لاکھوں لوگ مر رہے تھے یا شدید تکلیف میں مبتلا تھے، ہمارے ہاں تو تب بھی ماسک پہننا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ کبھی گاؤں جاتے تو لوگ سب ماسک کے بغیر ہوتے تھے اور اگر ان سے کہاجاتا کہ ماسک پہنیں تو وہ کہتے کہ ماسک تو شہروں کے لوگ پہنتے ہیں، ہمیں کچھ نہیں ہوتا۔
فصلوں کی باقیات اب بھی جلائی جا رہی ہیں، دھواں چھوڑتی گاڑیاں اب بھی سڑکوں پر ’’ شان سے‘‘ چل رہی ہیں ، تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہیں۔ ایک طرف یہ صورتحال تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بے تکی ہانکتے ہیں، جسے کسی صاحب نے خبر اڑا دی کہ لاہور میں سموگ میں انتہائی اضافے کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں دیوالی کا تہوار منایا گیا،چراغ جلنے اور آتش بازی کے نتیجے میں جو دھوں پیدا ہو اہے، وہ پاکستان میں آرہا ہے، مزید دس دن تک اس کے آتے رہنے کی توقع ہے۔
مجھے نہیں علم تھا کہ خبروں میں اب لطیفے بھی سنائے جاتے ہیں- ہندوستان سے تو ہم یوں بھی ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ چند دن پہلے ان کے ایک نامور اداکار کی سالگرہ تھی جس کے بارے میں ہمارے سارے چینلز یوں کوریج دے رہے تھے جیسے کہ وہ پاکستان کا اہم ترین عہدیدار بن گیا ہو۔ اسی طرح دیوالی کے دیوں کے دھویں کے پاکستان میں داخلے کا سن کر ہنسی بھی آئی کہ دھویں کو بھی علم ہے کہ اس نے کہاں جانا ہے اور اس کا دشمن ملک کون ہے جسے نقصان پہنچانا ہے۔
ہمیں ہر معاملے میں ہندوستان پر الزامات بھی لگانا ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں جاننے کا بھی اتنا شوق ہے کہ اہم ترین چینلز پر ان کے ملک کے اداکاروں کی سالگرہ کی کوریج بھی دی جا رہی ہے۔ ہمارے اندر ہر معاملے میں اتنا دوغلہ پن کیوں ہے۔ ہندوستان کی فلمیں پاکستانی سینما پر دکھانے کی اجازت نہیں مگر ہندوستان کی پنجابی فلمیں باقاعدگی سے ہمارے ہاں سینما پر ریلیزہوتی ہیں، اس کا کیا مطلب ہے، کوئی ہمیں بھی سمجھائے!!
ملک میں ایسی صورت حا ل میں ایمر جنسی نافذ کی جانا چاہیے، صرف تعلیمی اداروں کو بند کرنا درست نہیں، فیکٹریاں، کاروبار، باقی دفاتر، تفریح گاہیں اور مال کھلے ہیں، کیا وہاں جانے کے لیے گاڑیاں نہیں چلتیں ؟ کیا ان جگہوں پر بچے نہیں جاتے؟ کیا تعلیمی اداروں کے علاوہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں جانا ان حالات میں صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے جہاں سے ہم نے لفظ سموگ اٹھایا اور اپنی لغت کا حصہ بنایا ہے، کیا وہاں سے یہ نہیں سیکھ سکتے کہ ان ملکوں میں سموگ کے خاتمے کے لیے کیا کچھ کیا جاتا ہے، سموگ شروع ہونے کے بعد تو وہی ہے کہ آفت آ گئی ہے اب اس کا سامنا کریں ، قبل از وقت ہمارے ہاں کیا اقدامات کیے جاتے ہیں؟ کسی سے مشورہ کیا گیا کیاکیا جا سکتا ہے؟ مگر عوام کے مفادات کی کسے فکر ہے۔ کیا ہمارے ہاں سارے اذہان اس معاملے پر بند ہو چکے ہیں اور تمام تر حکومتی کوششیں ناکام؟
غریب کا سانس بھی سموگ سے بند ہو رہا ہو تو اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ، اس نے آلودگی کی، پندرہ سو کی حد کو کراس کرتی ہوئی خطر ناک فضا میں سانس لینا ہی لینا ہے۔ چھوٹے بچے، حاملہ عورتیں ، بزرگ لوگ، پہلے سے ہی مریض اور کمزور پھیپھڑوں والے لوگ تو اس فضائی آلودگی کو نہیں سہہ پاتے۔
ہماری دھواں چھوڑتی گاڑیاں جو آلودگی کو بڑھانے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہوتی ہیں، ہم ان کے مالک ہوں تو ہمیں اپنا منہ آئینے میں نظر نہیں آتا بلکہ ہم دوسروں کی گاڑیوں پر تنقید کرتے ہیں- ہم فصلیں جلاتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ان سے کس قدر نقصان ہو گا، صحت کا نقصان سب سے بڑا نقصان ہے ، ہم اپنی خود غرضی میں دوسروں کے مفادات کو بھول جاتے ہیں، جب تک ہم اپنے غلط نوعیت کے ذاتی مفادات پر ، اجتماعی مفادات کو ترجیح نہیں دیں گے تب تک اس ملک میں ایسا ہی چلتا رہے گا اور ہمارے شہر اسی طرح آلودگی کی شرح میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتے رہیں گے۔