ٹھیک ہو جائے گا
اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں ہیں‘ ایک صاحب کسی نئی نویلی عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر سگریٹ پی رہے تھے‘ وہ سگریٹ کا کش لگاتے تھے‘ عمارت کو غور سے دیکھتے تھے اور پھر دھواں آسمان کی طرف روانہ کر دیتے تھے‘ وہ جب تیسرا سگریٹ سلگانے لگے تو سائیڈ پر کھڑے شخص نے کھنگار کر پوچھا ’’سر آپ روزانہ کتنے سگریٹ پیتے ہیں؟‘‘سگریٹ نوش نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور ذرا سا سوچ کر جواب دیا ’’ بس تین چار ڈبیاں‘‘ پوچھنے والے نے ہنس کر پوچھا ’’اور آپ یہ کتنے عرصے سے پی رہے ہیں؟‘‘ سگریٹ نوش نے فوراً جواب دیا ’’تقریباً تیس سال سے‘‘ پوچھنے والے نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’جناب پھر آپ اس عمارت کی ویلیو کے برابر سگریٹ پی چکے ہیں۔
آپ اگر سگریٹ نہ پیتے تو آج آپ اس عمارت کے مالک ہوتے‘‘ سگریٹ نوش نے عمارت کی طرف دیکھا‘ پھر اپنی انگلیوں میںدبا سگریٹ دیکھا اور پھر پوچھنے والے کی طرف دیکھ کر بولا ’’کیا آپ سگریٹ پیتے ہیں؟‘‘ پوچھنے والے نے جواب دیا ’’ہرگز نہیں‘ میں نے آج تک سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا‘‘ سگریٹ نوش ہنسا اور پھر پوچھا ’’کیا یہ عمارت پھر آپ کی ہے؟‘‘ پوچھنے والے نے لمبی سانس بھر کر جواب دیا ’’نہیں میں اس میں کام کرتا ہوں‘‘ سگریٹ نوش نے لمبا قہقہہ لگایا اور کہا ’’پھر کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘۔
مدت پہلے ایک صاحب نے مجھے یہ لطیفہ سنایا تھا اور اس کے بعد دو سبق دیے تھے‘ پہلا سبق ’’کیا فرق پڑتا ہے‘‘ تھا اور دوسرا سبق تھا ’’ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ان کا کہنا تھا یہ دونوں فقرے جادوئی ہیں‘ آپ کو زندگی میں جہاں بھی اپنے آپ یا اپنی کام یابیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے ساتھ کمپیئر کرنا پڑ جائے تو صرف چار لفظ بولیں ‘کیا فرق پڑتا ہے اور آپ چند سیکنڈز میں حسد کے پنجے سے آزاد ہو جائینگے‘ آپ کو اپنی کام یابیوں کا غرور ہو گا اور نہ دوسروں کے آگے نکل جانے کا رشک‘ آپ چند لمحوں میں پرسکون ہو جائینگے اور دوسرا آپ جب بھی کسی مشکل صورت حال کا شکار ہوں توٹھیک ہو جائے گا کی تسبیح شروع کر دیں‘ آپ کی تکلیف کم ہونے لگے گی‘مجھے شروع میں یہ بات عجیب محسوس ہوئی لیکن وقت نے ثابت کیا انسان واقعی ان دو فقروں سے دکھ اور حسد جیسے جذبوں کو شکست دے سکتا ہے‘ کیسے؟ اس کی سائنس بڑی سادہ ہے۔
یہ دنیا بلکہ پوری کائنات عارضی ہے‘ ہم یہاں چند برسوں کے لیے آتے ہیں‘ ہم بس کے مسافر ہیں‘ نہ بس ہماری ہے‘ نہ سیٹ نہ ڈرائیور نہ کنڈیکٹر اور نہ ساتھی مسافر‘ ہم سب ایک مشترکہ سفر کے عارضی ساتھی ہوتے ہیں‘ ہم جوں ہی منزل پرپہنچتے ہیں‘یہ سارا سسٹم‘ہمارا سارا ساتھ ختم ہو جاتا ہے‘ ہمارا وجود‘ہماری سوچ‘ہماری اچیومنٹس اور ہماری زندگی کی تمام نعمتیں لیز پر ہوتی ہیں‘ ہم جس زمین پر زندگی گزارتے ہیں اس کی مالک اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے‘ یہ ہمیں اپنی کروڑوں میل کی زمین میں سے چند مرلے دس بیس پچاس سال کی لیز پر دے دیتا ہے لیکن ہم اس عنایت پر اس کا شکر اور شکریہ ادا کرنے کے بجائے لیز کو اپنا حق اور ملکیت سمجھ لیتے ہیں‘ ہم اسے مستقل بنانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یہاں سے ہماری ٹینشن شروع ہو جاتی ہے جب کہ یہ فقط لیز ہوتی ہے‘ یہ ہم سے پہلے کسی دوسرے کی لیز میں ہوتی ہے اور ہمارے بعد یہ کسی اور کو دس بیس پچاس سال کے لیے مل جائے گی‘ زندگی کی باقی کام یابیاں اوراچیومنٹس بھی عارضی ہیں‘ یہ بھی ٹرافی کی طرح ہیں۔
یہ آج کے میچ میں ہمارے ہاتھ میں ہیں‘آج ہم ونر ہیں لیکن کل یہ کسی اور کے پاس ہوں گی‘ کوئی اور ان پر ناز کر رہا ہو گا چنانچہ لیز کے اس مقابلے میں جہاں بھی آپ کو دوسرے اپنے آپ سے آگے محسوس ہوں یا آپ خود کو دوسروں کے مقابلے میں پیچھے محسوس کریں تو صرف یہ کہیں کیا فرق پڑتا ہے اور آپ کام یابی اور ناکامی دونوں کی تکلیف سے نکل جائینگے‘جب دنیا کی ہر چیز لیز ہے تو پھر کس کے پاس کتنی لیز ہے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کے پاس اگر دس مرلے ہیں اور دوسرا دس ہزار مرلے کا مالک ہے تو کیا فرق پڑتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ کل دس مرلے آپ کے ہاتھ سے بھی نکل جائینگے اور دوسرے کے دس ہزار مرلے بھی اس کے نہیں رہیں گے‘ یہ چند برسوں کا کھیل ہے اس کھیل کے آخر میں آپ اور وہ دونوں خالی ہاتھ ہوں گے۔
وہ دس ہزار مرلے کی ملکیت کے ساتھ شوگر‘ بلڈ پریشر‘ دل کے اسٹنٹس اور جوڑوں کے درد کے ساتھ بستر پر پڑا ہو گا اور آپ دس مرلے کے ساتھ بستر پر ہوں گے اور ایک آدھ سال کے وقفے سے آپ دونوں قبر میں ہوں گے چناں چہ کیا فرق پڑا؟ اس کے دس ہزار مرلوں نے اسے کیا دے دیا اور آپ کے دس مرلوں سے آپ کا کیا نقصان ہو گیا‘ کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کام یابی اور ناکامی‘ آگے بڑھ جانا یا پیچھے رہ جانا یہ چند برسوں کا کھیل ہوتا ہے‘ کھیل کے آخر میں بادشاہ اور غلام دونوں برابر ہو جاتے ہیں‘ ڈیٹا (تاریخ)یہ بھی بتاتا ہے زندگی کے اس سفر میں جس کا سامان جتنا کم ہوتا ہے اس کا سفر اتنا ہی اچھا گزرتا ہے۔
آپ اگر سفر کے دوران بکسے ہی سنبھالتے رہیں گے تو پھر سفر کا خاک مزہ آئے گا؟ ضرورت سے زیادہ دولت‘ زیادہ جائیداد‘ زیادہ بڑی کمپنی اور زیادہ ملازم یہ سب بکسے ہوتے ہیں‘ یہ آپ کے سفر کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں چناں چہ آپ جب بھی کسی کے زیادہ بکسے دیکھیں تو اوپر آسمان کی طرف دیکھیں اور کہیں ’’کیا فرق پڑتا ہے‘ میرا ایک بکسا اور اس کے پچاس بکسے دونوں پیچھے رہ جائیں گے‘ صرف ہم آگے جائیں گے‘‘ آپ یقین کریں آپ کا تاسف چندلمحوں میں ختم ہو جائے گا‘ یہ زندگی کا ایک سبق ہے‘ آپ اب دوسرا سبق بھی ملاحظہ کیجیے۔
دنیا کی ہر چیز جب عارضی ہے تو پھر ہماری تکلیفیں‘ ہمارے مسئلے اور ہماری محرومیاں کیسے مستقل ہو سکتی ہیں؟ وقت دنیا کی سب سے بڑی دواء‘ سب سے بڑا ڈاکٹر ہوتا ہے‘ میرا تجربہ اور میرا مشاہدہ ہے وقت کے ساتھ دنیا کا ہر مسئلہ‘ ہر تکلیف اور ہر محرومی ختم ہو جاتی ہے‘ ہر چیز ٹھیک ہو جاتی ہے‘ ہندو میتھالوجی کے مطابق انسان کی ہر تکلیف کا دورانیہ اڑھائی سال ہوتا ہے‘ آپ اگر کسی موذی مرض کا شکار ہو گئے ہیں‘ کسی مقدمے میں پھنس گئے ہیں‘ یا کسی لڑائی جھگڑے میں الجھ گئے ہیں تو اس کی شدت اور تکلیف کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ اڑھائی سال ہو گا‘ عشق یا بریک اپ کا جنون بھی تیس ماہ (اڑھائی سال) رہتا ہے‘ انسان اس کے بعد نارمل ہو جاتا ہے۔
قدرت اگر کسی شخص سے زیادہ ناراض ہوجائے تو اس کی مشکل اس کی اذیت کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات سال تک پھیل جاتا ہے‘ ہندو پنڈت اسے ساڑھ ستی (ساڑھے سات سال) کہتے ہیں‘ اس کیفیت کا شکار صرف ایک فیصد لوگ ہوتے ہیں باقی سب لوگ اڑھائی سال کے اندر اندر مسائل اور مصیبتوں سے آزاد ہو جاتے ہیں‘ ڈیٹا بتاتا ہے موذی سے موذی مرض بھی اڑھائی سال کے اندر اندر ختم ہو جاتا ہے اور اگر مرض ختم نہ ہو تو انسان ختم ہو جاتا ہے یعنی دونوں صورتوں میں مسئلہ نہیں رہتا‘ دنیا میں ہر دس سال بعد ’’ری سیشن‘‘ آتا ہے‘ اس کی شدت بھی اڑھائی سال سے زیادہ نہیں ہوتی‘ پاکستان میں آخری ’’ری سیشن‘‘ 2022 میں آیا تھا‘ آپ دیکھ لیں آج دو سوا دو سال بعد اس کی شدت ختم ہو رہی ہے اور اگلے تین چار ماہ میں معاشی سرگرمیاں دوبارہ جوبن پر ہوں گی‘ شریف فیملی پر 2018میں زوال آیا تھا لیکن 2020 اور 2021 کے درمیان ان کے حالات بدلنا شروع ہو گئے اور 2022 میں یہ لوگ ایک بار پھر اقتدار میں تھے اور عمران خان نے بھی مشکل وقت گزار لیاہے۔
آپ کو اب ان کے حالات بھی ٹھیک ہوتے ہوئے محسوس ہوں گے‘ ان کا ہردن اب پہلے سے بہتر ہوتا چلا جائے گا‘ یہ اس زمین اور زمین کے سسٹم کا سیکرٹ ہے‘ وقت کے ساتھ ہر چیز ٹھیک ہو جاتی ہے‘ ہمارے دائیں بائیں جتنے بھی نام نہاد ولی‘ درویش‘ صوفی‘ بابے‘ پامسٹ اور جوتشی ہیں‘ آپ جب بھی ان سے ملتے ہیں یہ ایک فقرہ کہتے ہیں ’’ٹھیک ہو جائے گا‘‘ یہ کیوں کہتے ہیں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں دو اڑھائی سال میں واقعی اس کا مسئلہ ختم ہو جائے گا‘ یہ ٹھیک ہو جائے گا اور ان کا یہ تکا ہر بار ٹھیک بیٹھتا ہے‘ میں ایک جعلی درویش کو جانتا ہوں‘ اس نے میرے سامنے اعتراف کیا ’’میرا سب سے بڑا ہتھیار ’’ٹھیک ہو جائے گا‘‘ ہے۔
میں جب بھی کسی کی طرف دیکھتا ہوں تو اس کی کمر پر تھپکی دے کر کہتا ہوں جا بچہ ٹھیک ہو جائے گا اور وہ مطمئن ہو کر واپس چلا جاتا ہے‘ دنیا بھر کے نفسیات دان‘ ڈاکٹرز‘ فنانشل ایڈوائزر‘ وکیل اور سیاست دان بھی کون سا منتر بیچتے ہیں؟ یہ بھی ’’ٹھیک ہو جائے گا‘‘ بیچ رہے ہیں چناں چہ آپ بھی یہ فقرہ پلے باندھ لیں‘ آپ جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوں تو ’’ٹھیک ہوجائے گا‘‘ کا منتر پڑھنا شروع کر دیں‘ آپ کو نتائج حیران کر دیں گے تاہم ایک چیز لازم ہے آپ ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں‘ شکر اور مدد گلوکوز کی وہ بوتلیں ہیں جن سے ’’ٹھیک ہو جائے گا‘‘ اور ’’کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ میں تاثیر پیدا ہوتی ہے جس سے انسان کو شفاء ملتی ہے‘ اللہ کرم کرے گا اور آپ بھی جس مسئلے سے گزر رہے ہیں ’’وہ بھی ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔
نوٹ: دسمبر کے آخر میںنیوائیر کے لیے ہمارا گروپ ترکی اور باکو جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
+92 301 3334562, +92 309 1111311,+92 331 3334562