اکبر و اقبال ، ایک تاریخی فکری دریافت
شاعر مشرق نے کبھی کہا تھا ؎
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
کتاب سے استفادہ تو ہر کوئی کر سکتا ہے لیکن صاحب کتاب کے منصب عظیم تک پہنچنے کے لیے اگر کتاب کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ پیغمبر اس دنیا میں نہ بھیجتے۔ پیغمبروں کا سلسلہ تو منقطع ہو چکا لیکن تربیت و راہ نمائی کا سلسلہ تو ابد تک جاری رہے گا۔ یہی انتظام ہم اقبال کے ضمن میں بھی دیکھتے ہیں۔ یہ کیا سلسلہ تھاجس کا ہمارے بھائی ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے ایک سو تین برس کے بعد اس کا انکشاف کر دیا ہے۔ حال ہی میں ان کی ایک کتاب شایع ہوئی ہے:
’اکبر بنام اقبال‘
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ کتاب اقبال کے نام اکبر الہ آبادی کے خطوط ہیں۔ اقبال کے نام ان کے دو چار خط تو پہلے بھی مل جاتے تھے لیکن اقبال کے معتمد ترین دوست چوہدری محمد حسین اور ان کے خانوادے کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے یہ تمام فکری اثاثہ سنبھال کر رکھا اور اسے اس کام کے اہل تک پہنچا دیا جس نے اسے پوری فکری دیانت اور علمی اہتمام کے ساتھ کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خطوط کا یہ مجموعہ ہماری کیا راہ نمائی کرتا ہے؟
یہ عین ممکن بلکہ یقینی ہے کہ فکریات اقبال کا کوئی طالب علم ان خطوط میں زیر بحث آنے والے موضوعات کا اشاریہ مرتب کر کے جویان فکر اکبر و اقبال کے لیے آسانی کر دے لیکن یہ کام جب بھی ہو باعث خیر ہو گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان خطوط کا قاری دوران مطالعہ ہر ہر سطر پر رک جاتا ہے اور قدرت کے انتظام پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ اس نے ایک عہد بلکہ اس کے بعد آنے والے زمانوں کے دکھوں کے علاج کے ایک حکیم حاذق کی تیاری اور تربیت کے لیے کیسا شان دار اور موزوں انتظام کیا۔
ان سطور کے لکھنے والے کے استاد گرامی پروفیسر سید ارشاد حسین نقوی مرحوم و مغفور نے ایک بار فرمایا تھا ہماری فکری تاریخ میں اکبر الہٰ آبادی سے زیادہ کوئی مظلوم نہیں جنھیں طنز و مزاح کا شاعر قرار دے کر نظر انداز کر دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اکبر کے نقاد فکری ہی نہیں فنی گہرائی سے بھی محروم تھے۔
ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ پروفیسر آل احمد سرور جیسا نقاد اکبر کی ظرافت کو بازاری اور سطحی قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتا کہ ان کا فن صرف الفاظ کے الٹ پھیر تک محدود ہے۔ ہمیں ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا اس لیے بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے مسلم برصغیر کا یہ علمی سرمایہ ہم تک منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مبسوط مقدمہ لکھ کر اس کے عہد کے بہت سے اہل علم اور نقادوں کی حیثیت بھی بے نقاب کر دی۔
شیخ محمد اکرام نے ’ موج کوثر‘میں اور ممتاز مستشرق ولفرڈ کینٹ ویل اسمتھ نے اپنی کتاب ’ ماڈرن اسلام ان انڈیا‘میں تفصیل سے بتایا ہے کہ اقبال تحریک خلافت میں دل چسپی کیوں نہیں رکھتے تھے اور تحریک مجاہدین سے لے کر 1857جیسی لڑائیوں کے حق میں کیوں نہ تھے اور انھوں نے سر سید علیہ رحمہ کے ردعمل میں ابھرنے والی فکر جس میں مسلمانوں کو تعلیم و ترقی سے روک کر ماضی کی گپھا میں سانس لینے کا مشورہ دینے والی ایک قسم کی بنیاد پرستانہ سوچ کا مقابلہ کس طرح کیا۔ اقبال نے اس کے جواب میں ایک سوال تو یہ اٹھایا کہ ہم اگر ماضی میں پناہ گزیں ہو گئے تو دور جدید کے چیلنجوں سے عہدہ برا کس طرح ہوں گے؟
اب آتے ہیں، اکبر کے ایک خط کی طرف جو انھوں نے 10 اکتوبر 1911 کو تحریر فرمایا۔ یہ خط تحریک خلافت سے بھی پہلے کا ہے جب یہ خطرہ پیدا ہو چکا تھا کہ ترکیہ کے حصے بخرے کر دیے جائیں گے نیز یہ کہ یہ وقت ترکیہ کی مدد کا ہے۔ ان ہی دنوں اکبر نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقبال کو اپنے ایک خط میں لکھا:
کجا اٹلی، کجا ٹرکی کجا تم
نحیف و ناتواں، نے علم، گم سم
اس شعر کو پڑھیے اور دیکھئے، اقبال کی فکر میں کیسے نکھار پیدا ہو رہا ہے۔ مسلم برصغیر کی قسمت پر اکبر کا یہ شعر اور اقبال کی فکر کیسے اثر انداز ہوئی، یہ تو تاریخ عالم کا ایک ناقابل تردید واقعہ لیکن ایک حقیقت اور بھی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی کے وہ مسلح تنازعات جن میں مسلمان کسی نہ کسی طور شریک ہوئے یا گھسیٹے گئے۔
ان میں مسلمانوں کی جو کیفیت رہی ہے، کیا اکبر کا یہ شعر اس کی عکاسی نہیں کرتا؟ بات یہ ہے اقبال کی علمی تحریک کے نتیجے میں مسلمان تباہی کے جس گڑھے سے نکلے تھے، اب وہ ایک بار پھر اسی گڑھے میں جا پڑے ہیں۔ غزہ کی تباہی و بربادی ہو یا ایران کے حملے کا نتیجہ، اس وقت مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں، یہ سب اسی مرض کی مختلف علامتیں ہیں جس کی نشان دہی اکبر اور اقبال نے بیسویں صدی کی ابتدا میں کر دی تھی۔
لمحۂ موجود میں اگر اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے تو یہ بے سبب نہیں بلکہ یہ بھی قدرت کے اسی انتظام کے تحت ہوا جس کے تحت سیال کوٹ کے امّی شیخ نور محمد نے اقبال کو قرآن خوانی کے سلیقے اور آداب سے آگاہ کیا تھا۔ اکبر کے خطوط کی اشاعت اقبال کے تعلق سے یہ یاد دہانی ہے کہ مسلمان آج جس آشوب میں مبتلا ہیں۔
اس سے نجات کا وہی راستہ ہے جس کی نشان دہی اکبر اور اقبال کرتے آئے ہیں۔ گویا اکبر کے ان خطوط نے اقبال ہی کو اقبال نہیں بنایا بلکہ یہ آج بھی انگلی پکڑ کر ہماری راہ نمائی کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا ایک خط تو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے جس میں انھوں نے حضور اکرم ﷺ کی حدیث کے تعلق سے بتایا ہے کہ اگر فتنہ و فساد پر قابو پانے کی صلاحیت تم میں نہ ہو تو کیا کرنا چاہیے۔
اقبال کا ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا عالم گیر شہرت رکھتا ہے۔ اکبر نے اس نظم کی داد بڑے دل نشیں انداز میں دی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ نظم نہایت عمدہ ہے لیکن اس وقت عالم اسلام کا دل بڑھانا بہتر ہے۔ یہ خط اقبال کے ہندی قوم پرستی سے پان اسلام ازم کی طرف سفر کی نظریاتی بنیادوں سے ہمیں روشناس کراتا ہے۔
گاندھی جی کا تصوف ہو یا ہندوستانی سرزمین کی پراسراریت، اس چیز نے بڑے بڑے دانش وروں کی راہ کھوٹی کی ہے۔ اقبال اس فلسفے سے متاثر تھے یا نہیں لیکن اکبر نے انھیں بروقت خبر دار کیا اور نصیحت کی کہ مندر کے فلسفہ تصوف پر مسلمان ذی علم کبھی قلم نہ اٹھائے گا۔ بالکل اسی طرح ان خطوط سے دو قومی نظریے کا سراغ بھی ملتا ہے۔
ان سطور میں اکبر کے خطوط کی کہانی اب تک یک طرفہ رہی ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ اکبر ہی ہیں جنھوں نے اقبال کو اقبال بنایا۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ خطوط بتاتے ہیں کہ اقبال ہی دراصل اقبال ہے اور کوئی اس کا ثانی نہیں۔ مسلم فلسفہ ، عصری علوم و معارف اور اقوام عالم کے مسائل و حوادث اور ان کے مسائل کے حل کے ضمن میں جو بصیرت اللہ نے اقبال کو ارزاں کی تھی، اکبر اپنے خطوط میں بار بار اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
کوئی شبہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے یہ خطوط مرتب کر کے صرف ہمیں نہیں پوری مسلم دنیا کو اس کی نظریاتی بنیادوں سے ایک بار پھر منسلک کر دیا ہے اور یہ بھی یاد دلا دیا ہے ہمارے دکھوں کا علاج کیا ہے۔ استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی نے بلاوجہ نہیں کہا کہ یہ کتاب ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے۔