پاکستان کا ٹرمپ کی عبوری ٹیم سے جلد رابطہ کرنے کا فیصلہ
پاکستان نے آنے والی انتظامیہ کے ساتھ جلد رابطہ قائم کرنے کی کوششوں کے تحت ٹرمپ کی عبوری ٹیم تک پہنچنے کا فیصلہ کرلیا ۔ پاکستان نے ملکی مفادات کو نقصان سے بچانے کیلیے ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم سے جلد رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سرکاری ذرائع نے اتوار کو ’’ دی ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف امریکی نو منتخب صدر ٹرمپ سے ذاتی طور پر بات کرکے انہیں مبارک باد دینے اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست رابطے کا چینل کھولنے کے خواہاں ہیں۔ اس مقصد کیلیے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ جلد ہی ٹرمپ کی عبوری ٹیم سے رابطہ کرکے نئے امریکی صدر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے لیے درخواست کرے گا۔
واضح رہے ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں شاندار واپسی کے الیکشن جیتنے کے بعد عالمی رہنماؤں سے بات کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے ہی بھارتی وزیر اعظم مودی، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر رہنماؤں سے بات کرلی ہے۔ یہ ایک رواج ہے کہ عالمی رہنما نئے امریکی صدر کو ٹیلی فون کرکے انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔ تاہم صدر جو بائیڈن نے روایت کو توڑ دیا تھا اور نومبر 2020 میں صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد کبھی کسی پاکستانی وزیر اعظم سے بات نہیں کی تھی۔
دوسری جانب ٹرمپ نے نومبر 2016 میں الیکشن جیتنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی۔ انھوں نے نواز شریف سے بات کرنے کے لیے رسمی حلف برداری کا انتظار بھی نہیں کیا تھا۔ تاہم ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار پر تنقید کی تھی۔ ٹرمپ کے غیر روایتی انداز کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکام امید کر رہے ہیں کہ وہ بائیڈن کی پالیسی پر عمل نہیں کریں گے اور جلد وزیر اعظم شہباز شریف سے بات کریں گے۔
ٹرمپ کی جیت کے بعد سے عمران خان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ ان کے لیڈر عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے شہباز شریف کو فون کریں گے۔ تاہم دفتر خارجہ نے ایسی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کو توقع ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ باہمی احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو جاری رکھے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹرمپ کو ان کی جیت پر مبارک باد دی ہے اور پاکستان کی طرف سے ان کی انتظامیہ کے تحت امریکہ کے ساتھ کام جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے۔ اگرچہ اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان واشنگٹن کی نظروں میں اپنی خاص اہمیت کھو چکا ہے لیکن اب بھی کچھ ایسے شعبے موجود ہیں جہاں دونوں ممالک مشترکہ نکات تلاش کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی ترجیحات کا خاکہ پیش کیا ہے جن کو اگر نافذ کیا جائے تو پاکستان پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ نئے امریکی صدر اپنے ملک آنے والی دیگر ملکوں کی تمام اشیا پر 10سے 20 فیصد تک کا ٹیرف لگانا چاہتے ہیں۔ امریکا پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منزل ہے اور ٹرمپ کا ایسا کوئی بھی نقطہ نظر اسلام آباد کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کے دونوں اہم پڑوسیوں ایران اور چین کے بارے میں ٹرمپ کا سخت گیر موقف بھی اسلام آباد کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم کچھ سرکاری حلقوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کسی بھی مشکل والی صورت میں سعودی عرب پاکستان کو بچانے کے لیے آگے آسکتا ہے ۔ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔
محمد بن سلمان ان پہلے رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو ان کی انتخابی فتح کے بعد فون کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیتے اور محمد بن سلمان نے نئے امریکی صدر سے فون پر بات کی، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سعودی عرب میں موجود تھے۔
تاریخی طور پر سعودی عرب نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں کسی بھی مشکل وقت میں ایک راستے کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کا آنے والی نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ جلد رابطہ قائم کرنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں انتظامیہ کی تبدیلی سے ملک کے بنیادی مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔