جانوروں کا انسانوں پر احسان

ترقی و تہذیب کے سفر میں جانوروں نے ہر ہر معاملے میں انسانوں کی مدد کی

انسان کو ’انسان‘ بننے میں مختلف مراحل لگے ہیں۔ وہ پہاڑوں، جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے ہوئے زندگی کے ’گُر‘ سیکھتے ہوئے آج یہاں تک پہنچا کہ اس نے نہ صرف دنیا کو مسخر کیا، بلکہ کائنات کو بھی مسخر کرنے میں مگن ہے۔

اس پورے سفر میں اسے رہنمائی مختلف صورتوں میں ملی جن میں سب سے پہلے ’مذہب‘ ہے، جس نے انسان کو ’اخلاقی شعور‘ ، ’زندگی گزارنے کے رہنما اصول‘ دیے تاکہ انسان اس دنیا میں شتر بے مہار نہ پھرے۔ مذہب نے انسان کو وہ بنیادی باتیں سکھادیں جن کی روشنی میں وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب بن سکتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو ’عقل و شعور‘ کی روشنی میں کلی اختیار دے دیا کہ وہ اس دنیا اور کائنات کو مسخر کرے۔

انسان نے اپنی دانش کا استعمال کیا اور کائنات کو مسخر کرنا شروع کردیا۔ اب اس انسا ن نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ اس سیکھنے کے مراحل میں انسان کے معاون کا کردار سب سے پہلے ’جانوروں‘ نے کیا۔ جس نے انسان کو ’گھر بنانا‘، ’تیرنا‘، ’اڑنا‘، یہاں تک کہ ’دفنانا‘ بھی سکھایا۔

انسان بہت بہادر تھا، اس نے دیکھا کہ جنگل میں ’شیر‘ ہے، جس سے تمام جانور ڈرتے ہیں، اس کی ایک آواز سے جنگل کے تمام جانوروں کا دل سہم جاتا ہے۔ شیر کی یہ ادائیں انسان کو ایسی بھائیں کہ اس نے اپنے آپ کو ’شیر‘ سے تشبیہ دینا شروع کردی۔ اب انسان اپنے آپ کو ’شیر‘ کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح لوگوں نے دیکھا کہ ’گیدڑ‘ رات کو کھیتوں میں آتا ہے اور انتہائی بزدل ثابت ہوتا ہے، تو فیصلہ یہ کیا کہ جو انسان بھی ’بزدلی‘ دکھاتا ہے، اسے ’گیدڑ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ یعنی اب بہادری اور بزدلی کی صفات کو شیر اور گیدڑ سے تشبیہ دے دی گئی۔ اس طرح انسانوں میں ان دونوں نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔

انسان نے پرندوں کو دیکھا کہ وہ اڑتے پھرتے ہیں، اُسے بھی یہ خواہش ہوئی وہ بھی اڑے۔ چنانچہ اس نے پرندوں کے پروں پر غور کرنا شروع کیا، کہ یہ ہوا میں کیسے ٹھہرتے ہیں، جب یہ نیچے آتے ہیں، تو اپنے پروں کو کس طرح کرتے ہیں۔ یہ تحقیق کرنے کے بعد انسان نے مختلف مشینیں بنانی شروع کردیں۔ اس نے مختلف تجربات کرنے شروع کردیے۔ پہلے چھوٹا جہاز بنایا، پھر اتنا بڑا جہاز بنایا کہ ہزاروں ٹن (Antonov An-225 Mriya) کا وزن لے کر دنیا میں اڑتا پھر رہا ہے۔ اب مزید اس قابل ہوگیا ہے کہ خود بھی اڑنے (کچھ مشینیں لگا کر) کے قابل ہوگیا ہے۔ جس طرح اب جہاز ایئرپورٹس پر اڑ رہے ہیں، آنے والے وقتوں میں انسان بھی ہوا میں اڑتے ہوئے نظر آئیں گے۔

انسان نے دیکھا کہ سمندر میں مختلف انواع کے جانور باآسانی تیرتے پھرتے ہیں۔ اس نے مچھلیوں پر غور کیا کہ آخر سمندر میں ڈوبتی کیوں نہیں۔ سمندری مخلوقات پر غور کرنے کے بعد اس نے تیرنا سیکھ لیا۔ پھر اس نے اس سمندر میں بڑے بڑے جہاز اتار دیے، جن کا وزن ’کئی ٹن‘ پر مشتمل تھا۔ اب باآسانی سمندر پر ہزاروں ٹن سامان ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچایا جاتا ہے۔

انسان نے جانوروں کی حرکات و سکنات پر غور کیا یہاں تک کہ رات کو کیسے جاگتے ہیں، جانور رات کا سفر کیسے طے کرتے ہیں، تو اسے ’الّو‘ سے سیکھنے میں مدد ملی۔

انسان کو کسی ایک جانور نے نہیں بلکہ کرۂ ارض پر ہر مخلوق نے کچھ نہ کچھ ضرور سکھایا۔ ان جانوروں میں سب سے زیادہ استاد ’کتا‘ ثابت ہوا۔ جس نے انسان کو اس کی ’کھوئی ہوئی‘ اخلاقیات سکھائی۔ کتنے میں انسان کی ’وفا‘، ’جفا‘، ’ادب‘ اور ’تعلیم‘ سب موجود ہے۔ امام دمیری نے اپنی مشہور کتاب ’حیات الحیوان‘ میں لکھا ہے کہ ’’کتے میں تادیب تعلیم و تلقین قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور یہ بہت جلد قبول کرلیتا ہے‘‘ (حیات الحیوان ،جلد دوم، امام کمال الدین الدمیری، مترجم، مولانا ناظم الدین، اسلامی کتب خانہ ، لاہور،/2 587)

کتے نے انسا ن کو سب کچھ سکھایا ہے، لیکن انسانی صفت ’وفا‘ کو اس نے اپنے عمل سے انسان ہی کو سکھا کر واضح کردیا کہ تم دوبارہ اپنی صفت پر غور کرو، یہ تمھارا خاصا ہے، تم کیوں اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کو دھوکا دیتے ہو!

انسان نے اپنے ہی جیسے انسان کو دفنانا بھی ایک پرندے سے سیکھا (پورا واقعہ ملاحظہ، سورۃ المائدہ آیت نمبر 30-31)

یہی نہیں بلکہ انسان کو اس سفر تک پہنچانے میں جانوروں نے ہر ہر معاملے میں انسانوں کی مدد کی، چاہے وہ وزن اٹھانے پر ہو، سواری کےلیے ہو، لطف اندوز ہونے کےلیے ہو یا دوسرے معاملات ہوں، وغیرہ۔

مذکورہ سطور سے یہ نتیجہ نکلا کہ انسانوں نے جانوروں سے: 
•    اڑناسیکھا۔
•    تیرنا سیکھا۔ 
•    بہادری سیکھی۔
•    بزدلی سیکھی۔
•    وفا سیکھی۔
•    جفا سیکھی۔

یہ صحیح ہے کہ انسان اپنی عقل و شعور کی بنا پر ہی یہ سب کچھ کر پایا ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اس نے آئیڈیاز ضرور لیے ہیں، لیکن کیا سب کچھ خود ہی ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ انسان جانوروں پر دوبارہ غورو فکر کرے اور یہ دیکھے کہ جانور ’مل جل‘ کر کیسے رہتے ہیں، وہ کیوں اپنے ہی قبیلے کے جانوروں کو قتل نہیں کرتے، ان میں اتحاد کیسے پیدا ہوتا ہے؟ غور کرنے کے بعد دوبارہ اپنی اصل پر آنے کی کوشش کرے، یعنی ’قتل و غارت گری‘ سے بچتے ہوئے امن کے ساتھ رہے، تاکہ دنیا جس طرح دوسری مخلوقات کے لیے امن کا گہوارہ ہے، اسی طرح انسانوں کےلیے بھی امن کا گہوارہ بنے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story