ملک کے مختلف ریلوے اسٹیشنز پر لگے سیکیورٹی کیمرے و دیگر آلات خراب نکلے
پاکستان ریلوے نے ریلوے اسٹیشنز کی سیکیورٹی کو ہمیشہ ہی نظر انداز کرکے کروڑوں مسافروں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا، کروڑوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے زیادہ تر سیکیورٹی کیمرے، اسکینرز اور دیگر آلات خراب نکلے جبکہ جو ٹھیک ہیں وہ بھی کام نہ کرنے کے برابر ہیں۔
ریلوے ذرائع کے مطابق عرصہ دراز سے خراب سیکیورٹی کیمرے اور مسافروں کے سامان سمیت دیگر سامان کی جانچ پڑتال کرنے والے سیکیورٹی اسکینرز کو ٹھیک نہ کروایا جا سکا۔
سیکیورٹی کیمرے اور لگیج اسکینر خراب ہونے سے ریلوے اسٹیشنز کی سیکیورٹی رسک بن کر رہ گئی ہے، ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کا سامان چیک کرنے کے لیے کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ کیمرے خراب ہونے سے مسافروں کا گمشدہ سامان تلاش کرنا بھی ناممکن ہوگیا ہے، لگیج اسکینر خراب ہونے کے باعث منشیات اور دیگر ممنوعہ اشیا کو ٹریس کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
لاہور ریلوے اسٹیشن پر صرف چند پولیس اہلکار ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں، مسافروں کے رش کے باعث تمام مسافروں کا سامان چیک کرنا بھی ناممکن ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر کل 46 کیمرے نصب ہیں جن میں سے 36 خراب ہیں۔
ریلوے انتظامیہ کی جانب سے گزشتہ دو سال میں کیمرے تبدیل ہی نہیں کیے گئے، سیکیورٹی آلات نہ ہونے کے باعث ریلوے پولیس کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ سیکیورٹی کیمروں کی تبدیلی کے لیے ٹینڈر جاری کیا گیا تھا مگر وزارت ریلوے کی جانب سے اسے کینسل کرکے دوبارہ ٹینڈر کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ریلوے اسٹیشنز پر سیکیورٹی آلات کی تنصیب تمام متعلقہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری ہے مگر ریلوے انتظامیہ کی روایتی غفلت اور لاپرواہی کے باعث آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ بھی رونما ہوتا رہتا ہے، تین چار روز قبل ہونے والے کوئٹہ اسٹیشن پر بم دھماکے میں بھی کچھ اسی طرح کے ناقص انتظامات سامنے آئے مگر ابھی تک خاطر خواہ انتظامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
لاہور، فیصل آباد، ملتان، کراچی، پشاور، راولپنڈی اور روہڑی سمیت دیگر ریلوے اسٹیشن پر جو اسکینر لگے ہیں اس میں سے 90 فیصد خراب ہیں۔ ریلوے انتظامیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور رہی سہی کسر ریلوے پولیس نے پوری کر دی کہ ان کے پاس بھی نفری کی تعداد ریلوے اسٹیشن کے حساب سے انتہائی کم ہے اور جو آلات ان کو فراہم کیے گئے ہیں وہ بھی ناقص ہیں۔
اس بارے میں ریلوے پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس نفری کم ہونے کے باوجود ہم سے ڈبل شفٹوں میں کام لیا جا رہا ہے جو سیکیورٹی آلات فراہم کیے گئے ہیں اس میں سے اکثر خراب ہیں یا وہ آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکے ہیں۔ نئے آلات خریدنے کے لیے کئی بار سمری ریلوے کو بھجوائی گئی لیکن اس پر کوئی عمل درآمد ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر بھی تین چار روز قبل ہی سیکیورٹی کیمرے فعال کیے گئے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اسی طرح فیصل آباد، ملتان، سکھر، راولپنڈی، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں کے ریلوے اسٹیشن پر جو کیمرے لگے ہیں ان میں سے زیادہ تر خراب ہیں۔ اس حوالے سے ریلوے انتظامیہ کی کئی بار توجہ مرکوز کرائی گئی لیکن انتظامیہ نے اس پر توجہ نہیں دی۔
انتہائی ناقص انتظامات کے باوجود آج بھی لوگ ریلوے سے ہی سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں 20 کروڑ 45 لاکھ کے قریب مسافروں نے ٹرین کے ذریعے ہی سفر کیا اور ان کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ریلوے کے بڑھتے ہوئے مسافروں کے پیش نظر ریلوے انتظامیہ نہ تو ان کو سہولیات فراہم کر رہی ہے اور نہ ہی سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لایا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں جب ریلوے انتظامیہ سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ کیمرے لگا دیے گئے ہیں جو کیمرے خراب تھے ان کو تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ ریلوے پولیس کا کہنا یہ ہے کہ جتنے بھی سیکیورٹی آلات اور نفری موجود ہے اس حساب سے وہ کام لے رہے ہیں، نفری بڑھانے اور جدید آلات خریدنے کے لیے سمری ریلوے حکام کو بھجوا دی گئی ہے، فنڈ ملنے کے بعد فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے گا۔