اسموگ شدہ پنجاب

پنجاب میں اسموگ پر قابو پانے کےلیے حکومت، صنعتوں اور عوام کی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں

 

حالیہ برسوں میں پنجاب میں اسموگ کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے اور سردیوں کے آغاز کے ساتھ یہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اسموگ ایک خطرناک فضائی آلودگی ہے جو مختلف زہریلی گیسوں جیسے کہ سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، اور پارٹیکیولیٹ میٹر کی موجودگی سے بنتی ہے۔ سورج کی روشنی جب ان گیسوں کے ساتھ ملتی ہے تو اس سے ایک گہری دھند کی تہہ بن جاتی ہے جو انسانی صحت، ماحول اور اقتصادیات پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔

پنجاب میں اس کا اہم سبب فیکٹریوں کی بے قابو اخراجات، گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں، زراعت میں کھیتوں کی باقیات جلانا، اور تیزی سے ہونے والی تعمیراتی سرگرمیاں ہیں۔ اگر اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو یہ انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ فصلوں، جانوروں اور مقامی انفرااسٹرکچر کو بھی متاثر کرے گا۔ ایسی صورتحال میں عوامی صحت اور ہوا کی کوالٹی کو بہتر بنانے کےلیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔

اسموگ کے انسانی صحت پر سنگین شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ سانس اور دل کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتی ہیں۔ خاص طور پر بچے، بزرگ اور ایسے افراد جو پہلے سے ہی صحت کے مسائل کا شکار ہیں، اس آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ہوا میں زہریلے اجزا کی مسلسل موجودگی سے دمہ، برونکائٹس اور دل کے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ذہنی صحت کے حوالے سے بھی آلودگی کی موجودگی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ آلودہ ماحول میں رہنے سے لوگوں میں ذہنی دباؤ اور پریشانی بڑھ سکتی ہے۔

ماحول بھی اس آلودگی سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ اسموگ سورج کی روشنی کو روک دیتا ہے جو کہ پودوں کےلیے فوٹوسنتھیسز کے عمل میں ضروری ہے۔ اس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے جس سے زراعت متاثر ہوتی ہے۔ جانور اور جنگلی حیات بھی خطرے سے دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ آلودہ ماحول ان کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ علاوہ ازیں، اسموگ میں موجود تیزابی اجزا انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے معاشی نقصان ہوتا ہے اور شہروں میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اسموگ کا خاتمہ ایک دو سال کی بات نہیں، یہ اصل میں موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک علامت ہے، اس کو ختم کرنے کےلیے ایک لمبی، مسلسل جدوجہد اور مستقل پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا ہماری کسی بھی حکومت کی یہ ترجیحات میں شامل ہے؟ کیا کبھی عوام نے کسی سیاسی پارٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ اسموگ کا خاتمہ اپنے منشور کا حصہ بنائیں، ورنہ ہم ووٹ نہیں دیں گے؟ یہاں حکومت سال کے آٹھ مہینے اس مسئلے پر بالکل بھی توجہ نہیں دیتی اور اکتوبر آتے ہی دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی ہے، وہ بھی صرف دکھاوے کی۔

اسموگ دنیا کےلیے نئی نہیں، کئی ترقی یافتہ ممالک نے اس کا سامنا کیا ہے اور سخت پالیسیز کے ذریعے اس پر مکمل طور پر قابو پایا ہے۔ مثلاً، امریکا میں کلین ایئر ایکٹ کے نفاذ سے سخت اخراج کے معیارات مقرر کیے گئے جس سے فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئی۔ جاپان نے صنعتی آلودگی کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا اور فیکٹریوں کے اخراج کو محدود کرنے کےلیے قوانین لاگو کیے۔ چین نے فضائی کوالٹی کی مانیٹرنگ، گاڑیوں کے اخراجات پر پابندیاں، اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری جیسے اقدامات کے ذریعے فضائی آلودگی کو قابو میں لانے میں بڑی پیش رفت کی ہے۔ ان ممالک کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ اسموگ پر قابو پانا زیادہ مشکل نہیں صرف اچھی پالیسی اور ان کے مؤثر نفاذ کے ذریعے ہوا کی کوالٹی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

پنجاب میں حکومت نے فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کےلیے کچھ پالیسیاں متعارف کروائی ہیں جیسے کہ کھیتوں کی باقیات جلانے پر پابندی اور گاڑیوں کے اخراجات کی جانچ۔ تاہم، ان قوانین پر عملدرآمد محدود وسائل اور عوامی رویوں کی وجہ سے مشکل ہے۔ پنجاب میں کلین ایئر زونز کا قیام ایک مؤثر حکمت عملی ہوسکتی ہے، جہاں پر فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے سخت اقدامات کیے جائیں گے، جیسے کہ فیکٹریوں کے اخراجات پر سخت پابندیاں، گاڑیوں کی آمدورفت کو محدود کرنا اس میں طاق اور جفت ماڈل لاگو کیا جاسکتا ہے یعنی ایک دن میں صرف وہ گاڑیاں سڑکوں پر آئیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر کا آخری عدد جفت ہے اور دوسرے دن طاق نمبر والی، یہ ماڈل چین اور بھارت میں آزمایا جاچکا ہے، لیکن اس کےلیے ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ بہتر کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی فعال مانیٹرنگ کہ وہ دھواں نہ چھوڑتی ہوں، تاکہ آبادی والے علاقوں میں آلودگی کو کم رکھا جاسکے۔ اس مقصد کےلیے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی، حکومتی امداد کے ساتھ، ایک مؤثر حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔

زراعت کے شعبے میں بھی بہتری کی گنجائش ہے، کیونکہ کھیتوں کی باقیات جلانا اسموگ کی ایک اہم وجہ ہے۔ کاشتکاروں کو کھیتوں کی باقیات کو کھاد میں تبدیل کرنے، جانوروں کےلیے چارے کے طور پر استعمال کرنے، یا زیرو ٹیلج جیسی پائیدار زراعت کے طریقے اپنانے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ مگر کاشتکاروں کو ان نئی تکنیکس کو اپنانے کےلیے مالی معاونت اور تربیتی پروگرامز کی ضرورت ہوگی۔ اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر شجرکاری کا فروغ بھی ضروری ہے، خاص طور پر درخت بھی صرف وہ جو ہمارے علاقائی درخت ہیں، جیسے کہ نیم، شیشم، شہتوت، برگد وغیرہ نہ کہ کھجور، پائن اور اس طرح کے غیر ملکی درخت جو قدرت نے پنجاب کےلیے مناسب نہیں سمجھے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے مقامی درختوں کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں، جیسے کہ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا آپ وہاں غیر ملکی درختوں کے بیج بھی نہیں لے جاسکتے۔

عوامی شعور کسی بھی آلودگی کو کم کرنے کی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ شہریوں کو اسموگ کے ذرائع اور اس کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کرنا اور انہیں ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دینا جیسے کہ ذاتی گاڑی کے استعمال کو محدود کرنا یا غیر قانونی کھیت جلانے کی اطلاع دینا، ماحول میں بہتری لاسکتا ہے۔

آج کل بھی لاہور سے موٹروے پر نکلیں تو فصلوں کی باقیات جلتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں جس سے حکومتی رٹ کی کمزوری صاف نظر آتی ہے۔ مزید یہ کہ ہوا صاف کرنے والی ٹیکنالوجی عوامی مقامات جیسے کہ اسکولوں اور اسپتالوں میں فضائی آلودگی کے فوری اثرات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ اس میں بھی چین کے ماڈل کو استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں بڑے شہروں میں اسموگ ٹاور نصب ہیں جن کا کام ہوا کو فلٹر کرنا ہے۔ بلکہ چین تو ان ٹاورز سے اکٹھا ہونے والے کاربن کو کمپریس کرکے ہیرے بنانے کی کوشش کررہا ہے۔

پنجاب میں اسموگ پر قابو پانے کےلیے حکومت، صنعتوں اور عوام کی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ عالمی تجربات سے سیکھ کر، سخت قوانین، عوامی شعور، جدید ٹیکنالوجی، اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو شامل کرتے ہوئے پنجاب میں فضائی آلودگی کو کم کیا جاسکتا ہے اور شہریوں کی صحت اور ماحول کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل ضروری ہے، اور مستقل عزم سے ہی پنجاب میں صاف اور محفوظ ہوا کی فراہمی ممکن ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story