کینیا میں پیدا ہونے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر قاسم عمر کے حالات و خیالات

عمران نے کرکٹ کیریئر تباہ کردیا، انھیں خوش کرنے کیلئے مجھ پر پابندی لگائی گئی.

فوٹو: فائل

لاہور:
بعض افراد کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ دل کی بات زبان پر لائے بغیر وہ رہ نہیں سکتے۔

وقتی طور پرلاکھ دامن بچائیں، مصلحت اختیار کریں، لیکن ضمیر کے کچوکے آخر کار انھیں اپنے حصے کا سچ بولنے پرآمادہ کرلیتے ہیں ،اور ایک وقت ایسا آتا ہے ،کہ ہر چیز سے بے نیاز ہوکر وہ سب کہہ ڈالتے ہیں، جس کو اپنی دانست میں درست خیال کرتے ہیں۔ قاسم عمر نے1986 ء میں بعض کرکٹرز پرمنشیات استعمال کرنے کا الزام لگایااور پھر ہمیشہ کے لیے کرکٹ کا دروازہ ان پر بند ہوگیا۔ بعض حلقوں کے مطابق قاسم عمر کو اپنا شاندار کیرئیر ختم ہونے کی صورت میں، جو کڑی سزا ملی،اس سے لگتا تو یہی ہے کہ ان کے موقف میں کچھ نہ کچھ صداقت تو ضرور ہوگی، وگرنہ ہمارے ہاں غلط کام کرنے والوں کو سزا کا رواج تو کبھی نہیں رہا ، اس لیے میچ فکسنگ میں ملوث بڑے بڑے جغادری ،معززین کرکٹ بنے پھرتے ہیں ، اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

قاسم عمرکرکٹ سے الگ ہوئے، تو بعض واقعات انھیںمذہب کی طرف لے گئے اور ڈسکو پارٹیوں کے رسیااور نائٹ کلبوں میں جانے والے قاسم عمر نے ،خود کومکمل طورپر مذہبی رنگ میں رنگ لیا۔ وہ 23برس سے تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، یہاں بھی کوئی بات درست معلوم نہ ہو تواس پر ناراضی ظاہر کردیتے ہیں۔مثلاً ،ہمارے ساتھ گفتگو میں، وہ تبلیغی جماعت میں شامل ایسے طاقت ور عناصرپر خوب گرجے برسے، جو ان کے خیال میں شخصیت پرستی کو رواج دے کر تبلیغ جیسے مقدس مذہبی فریضے کو خراب کررہے ہیں۔اس معاملے میں قاسم عمر کے موقف کوپذیرائی ملتی ہے یا کرکٹ کی طرح انھیں تادیب سے سابقہ پڑتا ہے،کوئی دن جاتا ہے، اس کا فیصلہ بھی ہوجائے گا۔ اب کچھ اجمالی تذکرہ کرکٹ میں قاسم عمر کے مختصر مگر کامیاب سفرکا،جس سے شاید اندازہ ہوسکے کہ وہ کس پائے کے کرکٹر تھے اور اگر ان کے کیرئیر کا افسوس ناک انجام نہ ہوتا تو وہ کتنا آگے جاسکتے تھے۔

آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پرپاکستانی بیٹسمین ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے۔ اس سرزمین پرہم نے، جن چند ٹیسٹ میچوں میں کامیابی حاصل کی ، وہ بولروں کے مرہون منت رہی ہے۔بیٹسمینوں کی ناقص کارکردگی کے باعث پاکستان ایک بار بھی آسٹریلیا کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز نہیں ہراسکا۔ آسٹریلیا میں پرتھ کا وکٹ دنیا میں تیزترین ہے۔بڑے بڑے بیٹسمین ادھر گڑبڑا جاتے ہیں۔اس وکٹ پر1983 ء میں ڈینس للی کی سربراہی میںآسٹریلیوی بولرزنے پاکستان ٹیم کو دونوں اننگزوں میں جلد ہی ڈھیر کردیا۔ دونوں اننگز میں قاسم عمر ہی تباہ کن بولروں سے نبرد آزمارہے اور اپنی ٹیم کی طرف سے سب سے زیادہ انفرادی اسکور کیا۔ مبصرین اور شائقین دونوں نے دوسرا ٹیسٹ کھیلنے والے اس نوواردکو جرات مندانہ کھیل پرخوب داددی ، جس سے مہمیز پاکرانھوں نے ایڈیلیڈ میں پہلی ٹیسٹ سنچری بناڈالی۔اس سیریز میں پاکستان کی جانب سے رنز بنانے کی سب سے زیادہ اوسط انہی کی رہی۔

آسٹریلیوی بولروں سے تو انھوں نے کامیابی سے نمٹ لیا لیکن اب انھیں آسٹریلیوی وکٹوں پر ہونے والی ون ڈے سیریز میں ویسٹ انڈین بولروں کا سامناکرنا تھا، جو اس دور میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے ۔ قاسم عمر نے کالی آندھی کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا اور میلبورن میں اپنے تیسرے ون ڈے میں بہترین کھلاڑی قرار پائے۔یہ ویسٹ انڈیز سے ان کا پہلا ٹاکرا تھا۔مخالف بولروں میں مائیکل ہولڈنگ ،جوئیل گارنر اور میلکم مارشل شامل تھے۔انھوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف سڈنی میں بھی ناقابل شکست 67رنز بنائے۔بیرون ملک ان کی ایک یادگار کارکردگی نیوزی لینڈ میںڈینیڈن ٹیسٹ میںرہی۔ رچرڈ ہیڈلی کو وہ بڑے اعتماد سے کھیلے اوردونوں اننگز میںسنچری کے قریب پہنچے۔ 26ٹیسٹ میچوں پر محیط کیرئیر میں بھارت اور سری لنکا کے خلاف وہ ڈبل سنچری بنانے میں کامیاب رہے۔دونوں بار میدان فیصل آباد کا اقبال اسٹیڈیم رہا۔ قاسم عمر کے کیریئر کی ان جھلکیوں سے ان کا آئندہ، تابناک ہونے کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے مگر شومئی قسمت کہ ایک بیان نے کرکٹ کا سارا سفر ہی کھوٹا کر دیا۔

قاسم عمر رنز بنانے میں بھی طاق تھے اور ساتھ میں کھیلنے کا منفرد اسٹائل بھی بیٹنگ کا خاصہ تھا ۔یہ دونوں خوبیاں کم ہی بیٹسمینوں میں یکجا ہوتی ہیں۔ زیادہ تربیٹسمین ایسے ہوتے ہیں، جن کا بلا رنز تو اگلتاہے مگروہ اسٹائل سے محروم ہوتے ہیں۔ قاسم عمر نے چوٹی کے فاسٹ بولروں کا بڑی دلیری سے مقابلہ کیا۔ ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اگران کا کیرئیر جاری رہتا تو وہ پاکستانی تاریخ کے نمایاں بیٹسمینوں کی صف میں جگہ بنانے میں کامیاب رہتے اور ون ڈائون کی اہم پوزیشن کے لیے ٹیم کا قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے۔

بین الاقوامی کرکٹ وہ کم کھیلے لیکن شائقین کے ذہنوں میں قاسم عمر کے عمدہ کھیل کانقش ،ان کے کئی ہم عصروں کے مقابلے میںزیادہ گہرا ہے۔وہ1983ء میں جالندھر میںبھارت کے خلاف پہلا اور1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف اپناآخری ٹیسٹ کھیلے۔31ون ڈے میچوں میں پاکستان ٹیم میں شامل رہے۔بہترین بیٹسمین ہونے کے ساتھ ساتھ، وہ عمدہ فیلڈربھی تھے ، یہ ایسی خوبی ہے، جو پاکستان ٹیم میں چند ایک کھلاڑیوں کو چھوڑ کر ہمیشہ جنس نایاب رہی ہے۔ قاسم عمرسالہا سال سے مانچسٹر میں مقیم ہیں۔گاہے گاہے ان کا پاکستان آنا رہتا ہے۔گذشتہ دنوں وہ لاہور آئے توان سے گفتگو رہی، جس کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔

قاسم عمر کے اجداد کا اصل وطن توبھارتی گجرات کاشہر جام نگر تھا،لیکن وہ اٹھارویں صدی میں کاروبار کے سلسلے میں کینیا جابسے۔ قاسم عمر کے والدین یہیں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بھی 1957ء میںکینیامیں آنکھ کھولی۔چار سال کی عمر میں والد،عمر حسن چل بسے۔ 1962ء میں ان کے نانا، بیٹی اور نواسے کے ہمراہ کراچی چلے آئے،اور خواجہ ناظم الدین کے نام پر آباد بستی، ناظم آباد میں رہائش اختیار کرلی۔ تھوڑے بڑے ہوئے اور باہر کی دنیا سے ذراشناسائی بڑھی تو انھیں بچوں میں کرکٹ کا جنون دیکھ کر حیرانی ہوئی۔گلی میں کرکٹ کا تصورعجب لگا۔ کینیا میں کرکٹ کھیلی ضرور جاتی لیکن اس ذوق وشوق سے نہیں۔خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، آہستہ آہستہ وہ بھی گلی میں کھیلنے لگے۔تھوڑے عرصے میں بیٹنگ میں انھیں مہارت حاصل ہونا شروع ہوگئی۔

کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ان کے کرائے دار تھے ، جنھیں کرکٹ کی اچھی خاصی سمجھ تھی، اور وہ قاسم کا کھیل پسند کرتے تھے۔ ایک روزپروفیسر صاحب نے انھیں تجویز کیا کہ' میاں! گلی محلے میں کرکٹ کا سلسلہ موقوف کرواور باقاعدہ کلب کرکٹ سے وابستہ ہوجائو۔تم بہت جلدترقی کرکے پاکستان کے لیے کھیلو گے۔' قاسم عمر کے بقول''یہ سن کر مجھے ہنسی آئی کیونکہ اس زمانے میں کلب کرکٹر اور فرسٹ کلاس کرکٹر ہونا بڑی بات تھی، اور پاکستان سے کھیلنا تو عجوبہ ہوتا۔'' قاسم عمر نے پروفیسر صاحب کے کہنے پر صاد کیا اورشہریار سپورٹس کلب میں کھیلنے لگے۔شروع میں اسکورنگ ، فیلڈنگ ، کٹ بیگ سنبھالنا اور ساتھی کھلاڑیوں کو پانی پلانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ایک ٹورنامنٹ میںایک سینئرکھلاڑی کے نہ آنے پر وہ ٹیم کا حصہ بن گئے۔ساتویں نمبر پر بیٹنگ کرنے گئے، اور میچ جتوا کر واپس آئے۔

آہستہ آہستہ ٹیم میں جگہ مستحکم ہوتی گئی اوراوپری نمبروں پربیٹنگ کرنے لگے۔جلد وہ کلب کی سطح پر مشہور ہوگئے۔پاک کریسنٹ کلب سے بھی وابستہ رہے۔ انڈر 19کے ٹرائل دینے گئے توسلیکٹروں نے لوگوں سے پوچھا :یہ کون ہے؟ مکرانی ہے؟لوگوں نے بتایا کہ کینیا سے تعلق ہے۔گھنگھریالے بالوں والے قاسم عمر کی بیٹنگ دیکھ کر سلیکٹر متاثر ہوئے اور انھیں کیمپ میں شامل کرلیا گیا۔کراچی انڈر19ٹیم کی نمائندگی کی۔ قومی انڈر19مقابلوں میں سندھ کی طرف سے کھیلے۔ 1974ء میں سری لنکاکے خلاف اپنے پہلے فرسٹ کلاس میچ میں 67 رنز بنائے۔ 1975ء میں جاوید میانداد کی کپتانی میں پاکستان انڈر 19 ٹیم کے ساتھ انگلینڈ گئے۔ قاسم عمرکے نزدیک'' اس زمانے میں انگلینڈ جانا عجوبہ تھا ۔''

انڈر19ٹیم کے ساتھیوں میں جاوید میانداد، سکندر بخت اورانورخان، ان سے کہیں پہلے ٹیسٹ کرکٹر بن گئے۔ 1982ء میں قائد اعظم ٹرافی کے ایک سیزن میں ہزار اسکور کرنے والے وہ پہلے بیٹسمین بنے ۔ایسی شاندار کارکردگی پر سلیکٹرز کے لیے انھیں نظراندازکرنا مشکل ہوگیا۔بھارت کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں انھیں لگاکہ شاید ٹیسٹ کرکٹر بننے کی منزل آگئی ہے لیکن وہ بارھویں کھلاڑی ہی رہے ،جس کو افتخار عارف کی نظم ''بارھواں کھلاڑی ''میں توجوہر دکھانے کاموقع ملتا ہے لیکن اصل میچ میں وہ فیلڈنگ کے سوا کچھ کرنے کا مجاز نہیں۔بھارت کا جوابی دورہ کرنے والی ٹیم میںانھیں شامل کرلیا گیا ۔جالندھرمیں انھیں ٹیسٹ کیپ مل گئی۔اس میچ کے بارے میں یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا ''ایک کھلاڑی کی طبیعت خراب ہونے پر ٹیم میں جگہ ملی۔ مجھے کسی نے رات تک بھی نہیں بتایاکہ شاید مجھے کھیلنا پڑ جائے۔میچ سے بیس منٹ قبل علم میں آیا کہ میں کھیل رہا ہوں۔

ایسے میں پہلے ٹیسٹ کا دبائواور دوسرے میچ بھی بھارت سے۔یہ جالندھر میں ہونے والا پہلا ٹیسٹ تھا، پہلی ہی گیند پر محسن حسن خان آئوٹ ہوگئے تو میں کھیلنے گیا، گرائونڈ تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔میں نے 47 منٹ بیٹنگ کی اور 15رنز بناکر ، آسان سی گیند پرآئوٹ ہوگیا۔بارش سے متاثرہ اس میچ میں پاکستان دوسری اننگز نہیں کھیل سکا۔ایک اننگز میں اسکور نہ کرنے پر اگلے ٹیسٹ سے ڈراپ کردیا گیا ۔''یہ بات انھیں حیران کرگئی کہ صرف ایک اننگز کی بنیاد پریہاں ڈراپ کرنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ بھارت کے بعد پاکستان ٹیم نے آسٹریلیا کادورہ کرنا تھا۔ قاسم عمر کے بقول، ''انتخاب عالم مجھے ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن اخبارات میں میرے حق میں بہت لکھا گیا ۔پی سی بی کی کونسل اور سلیکٹروں نے میرے لیے اسٹینڈ لیا تو اسکواڈ کا حصہ بنا۔''

آسٹریلیا میںکھیلنا ایک تو ویسے دشوار، دوسرے ناکامی کی صورت میں ڈراپ ہونے کا ڈر۔ان نامساعد حالات میں نوجوان قاسم عمر نے حوصلہ نہیں ہارااورسائیڈ میچوں میں عزائم کا اظہار کردیا۔ایڈیلیڈ میں جنوبی آسٹریلیا کے خلاف بغیر آئوٹ ہوئے76 رنز بناکر ٹیم کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پرتھ میںہونے والے پہلے ٹیسٹ میں، پاکستان ٹیم کی بیٹنگ لائن اپ بری طرح ناکام لیکن قاسم عمرسرخرو ۔پہلی اننگز میں دوکم پچاس اور دوسری اننگز میں اسکور 65 رہا۔ قاسم عمر کے بقول ''مجھے اپنے کیریئر میں ذاتی طور یہ دونوں اننگز سب سے زیادہ پسند ہیں۔'' ایڈیلیڈ میں وہ پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

قاسم عمر کے بقول'' پرتھ میں آسٹریلیوی بولرز کے خوف سے ہمارے بیٹسمین وکٹیں چھوڑ رہے تھے۔گیند سمجھنامشکل ہورہا تھا۔ میں نے بڑی محنت سے بیٹنگ کی، میرے جسم پراتنے گیند لگے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ ہر وقفے پر زخموں پر فزیوتھراپسٹ ice pack لگاتارہا ایک بار میں نے کہا کہ بہتر ہے، آپ مجھے ایک ہی بار لے جاکرفریج میں رکھ دیں۔ میری اس بات کا مذاق بن گیا اور میڈیا میں اس کا کافی چرچا ہوگیا۔'' ایڈیلیڈ میں سنچری بنائی تو قاسم عمر کے بقول، عمران خان کہنے لگے کہ' تمھاری وجہ سے سنئیر بیٹسمینوں کامذاق بن رہا ہے کہ بھئی!قاسم اتنا عمدہ کھیل سکتا ہے تو انھیں کیا ہوگیا ہے۔'ہم نے ان سے آسٹریلیا میں بہترین پرفارمنس کاراز جاننا چاہا تو انھوں نے مجموعی طور پروہ خوبیاں گنوانی شروع کردیں، جن کی موجودگی میں بیٹسمین آسٹریلیا کیا، دنیا میں ہر جگہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ '' ٹیسٹ کرکٹر بننے کے لیے چند خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔

فرسٹ کلاس کرکٹ اور ٹیسٹ میں فرق ہے۔ٹیسٹ میں تماشائیوںکا دبائو ہوتا ہے، وکٹ پر آپ گئے اور اگر بولر بڑاہے تواور بھی مشکل میں بیٹسمین پڑ جاتا ہے۔اس کے بعد میچ کی صورت حال کے مطابق کھیل کو آگے بڑھاناہے۔بڑے بولر تین چار گیندوں میںپتا چلا لیتے ہیں کہ بیٹسمین کتنی صلاحیت کامالک ہے۔بیٹسمین ہلکا ہوگا تو وہ اسے جلد آئوٹ کرلیں گے۔بیٹسمین کے لیے ضروری ہے کہ بولر خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اسے ذہن پر سوار نہ کرے، اگر وہ یہ نہ کرسکے تو پھر وہ زیادہ اسکور نہیں بناپائے گا۔وکٹ پر پہنچ کر اور مشکل ہوتی ہے۔بال جب آپ کھیلنے سے قاصر رہتے ہیں، اور وہ وکٹ کیپرکے گلوز میں جاتی ہے تو آوازآتی ہے اور پھرآپ کو پتا چلتا ہے گیند تو نکل گئی۔

آسٹریلیا میں میرے خلاف دو شاٹ لیگ رکھے جاتے، میں فلک کرکے دونوں کے بیچ میں سے گیند نکال دیتا۔بائونسرکو صحیح طریقے سے کھیلنا بھی مشکل ہے اوراسے چھوڑنا بھی۔چھوڑنے میں یہ ہے کہ آپ اسے ڈر کر نہ چھوڑیںبلکہ حکمت عملی کے تحت کھیلنے سے گریز کریں۔اگر آپ ایسا کریں گے تو بولرکا حوصلہ پست ہوجائے گاکہ یہ تو بائونسر سے ڈر نہیں رہا، اگر آپ ڈریں گے تو وہ آپ پر حاوی ہوجائے گا۔یہ سب پریکٹس سے ہوگا۔سیمنٹ وکٹ پر نیا گیند تیز نکلتا ہے ، اس لیے میں نے آسٹریلیا جانے سے قبل سیمنٹ وکٹ پرنئے گیند سے پریکٹس کی اور پچ کی لمبائی 22 کے بجائے کم کرکے 20 قدم کر دی۔ آسٹریلیا میں مجھے گیند لگتا تواسے بھول کر میں اگلا گیند کھیلنے کی فکر کرتا۔رچی بینو نے بھی میری جرات مندی کی تعریف کی کہ بال لگنے کے باوجود میں گیند کے سامنے آکر کھیلتاتھا۔''

قاسم عمر کو اپنے زمانے کے سینئرز سے گلہ ہے کہ وہ نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی نہیں کرتے تھے۔ پاکستانی ڈریسنگ روم میں پہلی بار جانے کے اپنے تجربے کے بارے میں بتاتے ہیں ''بھارت کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں بارھواں کھلاڑی بنا تو ڈریسنگ روم میں جانے کا پہلی بار موقع ملا۔ ڈریسنگ روم میں جاکر مجھے عجیب سا لگا۔سب خاموش بیٹھے ہیں، کسی نے سلیقے سے برتائو نہیں کیا۔ سینئرز نے مجھے خاصا انڈر پریشر رکھا۔وہ چاہتے تھے کہ میں پرفارم نہ کرپائوں۔''قاسم عمر کا بیان کردہ تجربہ تو آپ نے پڑھ لیا،شعیب اختر نے اپنی خودنوشت "Controversially yours" میں بتایا کہ وہ جب پہلی بار ڈریسنگ روم گئے تو انھیں بھی کپتان اور سینئرز کی طرف سے مخاصمانہ رویے کا سامنا رہا۔ عمران خان کو بھی اپنی پہلی سیریز میں سینئرزکی جانب سے طنزاور استہزا کا نشانہ بننا پڑا، جس کا احوال انھوں نے اپنی کتاب"All Round View" میںبیان کیا ہے۔ان باتوں سے پتا یہی چلتا ہے کہ جونیئرز کی حوصلہ شکنی کی روایت قومی کرکٹ ٹیم میں بہت پرانی چلی آرہی ہے۔

قاسم عمر سے ہم نے پوچھا ''مان لیاآپ کے سینئرز تنگ کرتے ہوں گے لیکن کچھ تو ایسے ہوں گے جنھوں نے آپ کا حوصلہ بڑھایا'' اس سوال پر ان کاجواب تھا ''قادر بھائی، محسن بھائی اور سلیم ملک نے میرا بہت ساتھ دیا۔''جاوید میانداد ، انڈر19ء کے زمانے سے ساتھی تھے، ان کارویہ کیسا رہا؟''جاوید میانداد پرانے ساتھی تھے۔ انڈر 19میں ان کے ساتھ کھیلا۔کلب اور مقامی سطح پر ان سے جو اختلافات رہے ،ان کو کبھی انھوں نے بھلایا نہیں ۔میں جتنا عرصہ قومی ٹیم میں رہا، وہ مجھ سے ناراض رہے۔''قاسم عمرسمجھتے ہیں '' باقی ٹیموں کے مقابلے میں ہماری ٹیم میں یکجہتی نہیں۔ باقی ٹیموں میں کھلاڑیوں میں بھائیوں جیسا تعلق ہوتا ہے۔ہمارے ہاں تو سالہا سال ساتھ کھیلنے والے کرکٹر کبھی ایک دوسرے کے گھر بھی نہیں گئے ہوتے۔ مشکل میں ٹیم کے ساتھیوں نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ آدھے سے زیادہ ٹیم تو خوش ہوگئی۔اچھا پلیئر نکلنے پرخوش ہوتے ہیں۔

یہاں اقربا پروری ہے۔ پسندنا پسند کا مسئلہ ہے ۔ ''کرکٹ میں علاقائی اور صوبائی تعصب کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان سے محبت کا تقاضا ہے، ہر پاکستانی سے محبت کی جائے۔ لاہور سے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہوئے بتانے لگے '' مجھے پنجاب میں انڈر19کے زمانے سے پسند کیا جاتاتھا۔رکشے اور تانگے والے خاص طور پر میری بیٹنگ دیکھنے آتے۔مجھ پر پابندی ہٹوانے کے لیے جتنی کوشش پنجاب والوں نے کی، کسی اور نے نہیں کی۔پابندی ہٹنے کا جب بھی امکان پیدا ہوتا، عمران خان کا پریشر آجاتا، جس پر یار دوست کہتے، تسی پنگا ای عمران خان نال لِتا، اسی ہُن کی کریے(آپ نے پنگا ہی عمران خان سے لیا ہے، اب ہم کیاکریں)۔لاہور مجھے بہت پسند ہے۔لاہور کے بارے میں کہتے ہیں،جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔لاہور، لاہور ہے۔کرکٹر کا فیورٹ شہر ہے۔کھلاڑی کو اس سے انسیت ہوجاتی ہے۔ کیمپ لگا ہے، کئی کئی دن آپ یہاں رہ رہے ہیں۔ہم نے لاہور کا پرانا اور اچھا دور دیکھا ہے۔اس شہر کے بغیر آپ رہ نہیں سکتے۔لاہور کے بارے میں میرے جو جذبات ہیں، انھیں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔''

آسٹریلیا میں انھیں کرکٹ کھیل کر سب سے زیادہ مزا آیا، اس کی وجہ ایک تو ادھر حالات کا چیلنجنگ ہونا، دوسرے تماشائیوں کا مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو داد دینے میں بخل سے کام نہ لینا ہے۔ کہتے ہیں، پاکستان میں جاوید میانداد سے زیادہ ذہین کرکٹر نہیں دیکھا۔ ان کے خیال میں''جاوید میانداد کوایک سازش کے تحت دس ہزار رنز بنانے سے محروم رکھا گیا۔ انضمام الحق وہ آخری بیٹسمین تھے، جو دس ہزار رنز بناسکتے تھے، اب مستقبل میں کسی پاکستانی کھلاڑی کا یہ اعزاز حاصل کرنا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔کرکٹ میںجتنی تیزی آگئی ہے، پانچ ہزار رنز بنانے والا ہی بڑا بیٹسمین سمجھا جائے گا۔'' ان کے بقول،باقاعدہ کوچنگ کسی سے نہیں لی، بس دوسروں کو دیکھ دیکھ کر سیکھا۔پاکستان ٹیم کے لیے وہ غیر ملکی کوچ کے حق میں نہیں۔کرکٹ کی تباہی کا ذمے دار وہ بورڈ کے ایسے سربراہان کو قرار دیتے ہیں، جنھیں کرکٹ کی الف ب کا بھی پتا نہیں تھا۔

قاسم عمر کے خیال میں ''کرکٹ میں بہتری کے لیے نچلی سطح پر مضبوطی لانا ہوگی۔ ہمارے دور میں کلب کرکٹ کا بہت معیار تھا اور فرسٹ کلاس کرکٹر کو بھی بہت زیادہ رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا، آج دو چار کھلاڑیوں کوچھوڑ کر باقیوں کو تو لوگ مشکل سے پہچانیں گے۔کئی ایسے کھلاڑی ہیں، جنھیں غلط طور پر ٹیسٹ کیپ دی گئی۔ ''قاسم عمر بتاتے ہیں کہ ان کے گھروالوں نے کبھی کرکٹ کھیلنے سے منع نہیں کیا لیکن پڑھائی کے معاملے میں ڈھیل بھی نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کی بہت زیادہ مصروفیات کے باوجود وہ گریجویشن کرنے میں کامیاب رہے۔کسی زمانے میں پینٹ شرٹ پہننے کے شوقین قاسم عمراب شلوار قمیض ہی زیب تن کرتے ہیں۔

ان کے بقول ، ماضی میں یہ ایسا لباس تھا، جس کو وہ سوتے وقت پہننا بھی پسند نہ کرتے۔ وہ سالہا سال سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ 58 ممالک دیکھ چکے ہیں لیکن ان کے خیال میں '' پاکستان جیسا کوئی اور ملک نہیں۔اس کی مٹی میں ایسی بات ہے کہ میں سال میں دو بار یہاں ضرور آتا ہوں۔ میری شناخت، اسی کی وجہ سے ہے۔'' قاسم عمر کی77ء میں شادی ہوئی، جو ارینج تھی۔تین بچے ہیں۔ وہ نانا اور دادا بن چکے ہیں۔والدہ ان کے ساتھ انگلینڈ میں رہتی ہیں۔

چند کھلاڑی منشیات استعمال کرتے اور گلوزمیں ڈال کر بیرون ملک بھی لے جاتے:

میں نے یہ بیان دیا تھا کہ چند انٹرنیشنل کھلاڑی منشیات استعمال کرتے ہیںاور اپنے گلوز میں ڈال کر باہر لے جاتے ہیں۔ میں نے اس چیزکو غلط سمجھا، اورکہا کہ جس طرح اتھلیٹکس میں ڈوپ ٹیسٹ ہوتا ہے، کرکٹ میںبھی ہونا چاہیے۔ میں نے بعض پاکستانی کھلاڑیوں کو چرس استعمال کرتے، اور باہر کے چندکھلاڑیوں کودیتے، خود دیکھا۔میں نے ان کھلاڑیوں سے پوچھاکہ وہ منشیات کیوں استعمال کرتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ اس سے ، جنسی قوت بڑھتی ہے۔اسٹیمنا بنتا ہے۔رات کو جاگنے کا اثر نہیں ہوتا۔آدمی اگر چار پانچ بجے سوئے تو صبح ٹیسٹ میچ کیسے کھیلے گا؟ اس لیے وہ خود کو کھیلنے کے قابل بنانے کے لیے منشیات استعمال کرتے ہیں ۔کرکٹ کے حلقوں میں سب کو پتا تھا، میں سچ بول رہا ہوں۔ یہ بات چھپی نہیں تھی۔سب جانتے تھے، کون کیا کرتا ہے۔

اس وقت تو میری بات نہیں مانی گئی لیکن 1993 ء میںویسٹ انڈیز میں منشیات استعمال کرتے، ہمارے چار کھلاڑی پکڑے گئے ، پانچواں کھلاڑی بھی پکڑاجاتا ، لیکن جب چھاپہ پڑا وہ سڑک کے پارکیسٹ لینے گیا تھا۔یہ فائل ابھی بند نہیں ہوئی۔ اس وقت ہم نے ویسٹ انڈین بورڈکو بلیک میل کیا کہ اگر ہمارے کھلاڑی جیل گئے یا انھیں عدالت میں لے جایاگیا تو ہم دورہ منسوخ کردیں گے۔ دورہ منسوخ ہونا ، ویسٹ انڈین بورڈ کے لیے مالی اعتبار سے تباہ کن ہوتا اور ان کا دیوالہ نکل جاتا، اس وجہ سے چاروں پاکستانی کھلاڑی بچ گئے۔میں نے جب کھلاڑیوں پر منشیات استعمال کرنے کی بات کی تھی تو کسی کھلاڑی کا نام نہیں لیا تھا۔میں اپنی بات پر آج بھی قائم ہوں۔عمران خان اس معاملے میں اتنے زیادہ ٹچی کیوں ہوئے، اس سے اندازہ لگالیں کہ میں درست کہہ رہا تھا۔

عمران خان کی انوالومنٹ نہ ہوتی تو وہ بورڈ سے کہتے کہ تھوڑی بہت جو سزا بنتی ہے ، دے کر مجھے معاف کردیں۔لیکن انھوں نے مجھ پر پابندی لگوانے کے لیے ،حکومت اور بورڈ پر دبائو ڈالااوراپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔مجھے سزا بیان کی وجہ سے نہیں ،عمران خان کو خوش کرنے کے لیے دی گئی۔ثبوت میرے پاس تھے، اگر نہیں تھے تو مجھے یہ لوگ عدالت لے جاتے۔ انکوائری کراتے مگر مجھ پر سات سال کی پابندی لگادی گئی ، جو ایک طرح سے تاحیات پابندی ہوتی ہے۔مجھے کسی نے استعمال نہیں کیا ۔


میں مان لیتا ہوں کہ مجھے بیان نہیں دینا چاہیے تھا لیکن مجھے اتنی بڑی سزا کیوں دی گئی؟مجھ پر چھے ماہ کی پابندی بھی تو لگ سکتی تھی۔جرمانہ کیا جاسکتا تھا۔خان صاحب اگر اتنے بڑے کھلاڑی اور انسان تھے تو وہ مجھے پاکستان کے نام پرمعاف کردیتے، کون سا پہاڑ ٹوٹ جاتا۔ان کی وجہ سے میرا کرکٹ کیرئیر تباہ ہوگیا۔میری مسلم کمرشل بینک کی بارہ سال کی نوکری چلی گئی۔ مجھے حسیب احسن نے وہ خط دکھایا ، جس میں عمران خان نے جنرل ضیاء سے میری شکایت کی، جس پر بورڈ نے ایکشن لیا۔میں نے ضیاء الحق کو خط لکھا تو مجھے جواب ملا کہ ان کا اس معاملے سے تعلق نہیں۔جنرل صاحب کے عمران خان سے بہت اچھے تعلقات تھے۔جنرل صاحب چاہتے تھے، وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی حکومت کا حصہ بن جائیں۔جنرل صاحب سے جب بھی ٹیم کی ملاقات ہوتی ،وہ عمران سے کہتے کہ انھیں کرکٹ کے بعد سیاست میں آجانا چاہیے۔

جنرل صاحب کی غیرموجودگی میں، عمران خان کہتے: 'میں تو شریف سا آدمی ہوںمیرا اس ڈرٹی سیاست سے کیا تعلق۔'وہ سیاست میں آئے تومیں حیران ہوا کہ پہلے تو وہ کچھ اور کہتے تھے اور اب یہ سیاست میں آگئے ہیں ، یہ تو دہرا معیار ہے۔ میں نے بورڈ سے معافی مانگی تو جواب ملا، ہم کچھ نہیں کرسکتے، آپ عمران خان کو راضی کرلیں۔مطلب یہ کہ وہ اتنی اتھارٹی رکھتے ہیں کہ وہ جیسا چاہیں گے، ویسا ہی ہوگا۔بیان دینے کی وجہ سے مجھ پر پابندی نہیں لگی، اس کے بعد دورۂ بھارت پر جانے سے میں نے خود انکارکردیاتھا کہ جو شخص اتنا بدتمیز ہے کہ مس فیلڈنگ پر گالی دیتا ہے ، وہ جب تک ریٹائر نہیں ہوجاتا، میں قومی ٹیم میں نہیں کھیلوں گا۔

عمران خان نے 87ء میں ریٹائرمنٹ لے لی تھی ،لیکن بعد میں انھیں احساس ہوا کہ ابھی ان میں کافی کرکٹ باقی ہے، تو انھیں ٹیم میں واپسی کا خیال آیا ، اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے دوستوں کے ذریعے مظاہرے بھی کرائے ، جن میں عمران خان سے کرکٹ میں واپسی کا مطالبہ کیا جاتا۔ضیاء الحق نے بعد میں عمران خان سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینے کو کہا تو وہ مان گئے اورساتھ میں شرط رکھی کہ مجھ پر پابندی عائد کی جائے۔اس پر پھر میرے خلاف کارروائی ہوئی۔عمران خان اب تو کہتے ہیں کہ تحریک انصاف لیکن اگر وہ انصاف پر یقین رکھتے تو میرا معاملہ بورڈ کے سپرد کردیتے۔انھیں اپنا پاوراستعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔صدر کو خاص طور پر میرے خلاف ایکشن کے لیے زوردیا۔صدر کو اس چھوٹے سے معاملے میں ملوث کرنا غلط تھا۔

مجھے عدالت میں لے جایا جائے تو ادھر بھی ثابت کرنے کو تیار ہوں کہ کون سے کھلاڑی ملوث رہے،اس دور کے چند کھلاڑی ایسے ہیں، جن کے بارے میں میرا یقین ہے کہ وہ کم ازکم قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ نہیں بولیں گے۔کھلاڑی چرس لے کر جاتے تھے ، یہ سب کو پتا ہے۔یونس احمد اور سرفراز نواز نے بھی بعد میں میرے موقف کو صحیح قرار دیا۔ بالفرض محال، اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ میں نے غلط کہا تھا ، تب بھی اتنی سزا تو نہیں بنتی تھی۔خان صاحب کا فیملی بیک گرائونڈاچھا ہے۔پڑھے لکھے آدمی ہیں۔

ان جیسے کھلاڑی دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔چاہے میں غلط بھی تھا، مجھے بلاکرکہتے کہ 'قاسم! تم نے یہ کیا حرکت کی ہے۔ تم کو شرم آنی چاہیے۔ اس سے ملک کا امیج ڈائون ہوتا ہے۔تو بھئی!میں تمھیں معاف کرتا ہوں۔منیر حسین کے کہنے پر بھی، انھوں نے مجھے معاف نہیں کیا۔ معاف کرنے کے بجائے الٹا شرط لگادی کہ وہ اس وقت کھیلیں گے، جب مجھ پر پابندی لگائی جائے گی ۔بورڈ مجھے سزا دیتا تب تو ٹھیک تھا لیکن مجھے صرف ایک شخص نے سزا دی۔ دوسرے میں نے میچ فکسنگ کے خلاف بات کی تھی، لیکن بورڈ نے توجہ نہ دی، اور پھریہ مسئلہ بار بار سراٹھاتا رہا اور اب تین کھلاڑیوں نے جیل بھی کاٹ لی ہے۔

ڈسکوپارٹیوں کا رَسیا مذہب کی طرف کیسے آیا؟

ہدایت، اللہ کے ہاتھ میں ہے۔1962ء میں کینیا سے کراچی آئے تو ہمارے گھر میں ڈسکو ہوتاتھا، جو کراچی میں عجوبہ سمجھاجاتا۔عیسائی اسکول میں داخل ہوا۔انگریز پڑوسی تھے۔مجھے بینسن، ایڈی اور مائیکل کے نام سے پکاراجاتا۔کرکٹ کے علاوہ میری زندگی، نائٹ کلب، کسینو، شراب خانوں اورڈسکو میں گزرتی۔انگریزی اندازکا لباس پہنتا۔ ہمارے گھر میں بوڑھی عورت کیتھرین آتی تھی، جو ہمارے بچوں کا خیال رکھتی۔وہ ہمارے گھر گوشت کھاتی تو ہمیشہ کہتی کہ اسے حلال گوشت کا ذائقہ بہت پسند ہے۔میں سوچتاکہ حلال گوشت کے بارے میں ایسا کیوں کہتی ہے۔میں نے ایک بار اس سے پوچھا تو وہ بتانے لگی،کہ تم مسلمان لوگ اللہ کے حکم کے مطابق، اس کے نام پر جانور قربان کرتے ہو، اس سے ذائقہ آجاتا ہے۔ میں ان دنوں اپنے گھر میں شراب خانہ(بار) بنانے کی سوچ رہا تھا، باقاعدہ تیاری اور ڈیزائننگ تک کرلی تھی۔

اب جب میں نے اس عورت کے خیالات سنے تو سوچا کہ ایک ایسی عورت جو کفر میں پلی بڑھی ہے، وہ حلال اور حرام میں فرق کرسکتی ہے تو میری بطور مسلمان کیا ڈیوٹی ہے۔میں اس زمانے میںمیں شراب خانے ، ڈسکو اورعورتوں میں جاتا تھا۔یہ 26سال پہلے کی بات میں بتارہا ہوں۔اب میں نے غوروفکر کیااور اسلام کا مطالعہ شروع کردیا ۔جوں جوں پڑھتا گیا، حقانیت مجھ پر واضح ہوتی گئی۔دین کی ہدایت کی وجہ سے میں بہت سی برائیوں سے بچ گیا۔اسلام نے شراب کو ام الخبائث کہا ہے اور میں گھر میں شراب خانہ بنانے جارہا تھا، جو کتنی برائیوں کا ذریعہ بنتا۔ایسی جگہوں پر تو قتل تک ہوجاتے ہیں۔موسیقی کامیں ایسارسیا تھا کہ آئوٹ ہونے کے بعد ڈریسنگ روم میں بھی واک مین لگا کر گانے سنتا رہتا۔انہی دنوں جب میرے اندر تبدیلی پیدا ہورہی تھی،ایک انگریز دوست سے ملاقات ہوئی ، اس نے بتایا کہ روزہ رکھنااسے کس قدراچھا لگتاہے۔

کراچی کے ایک بڑے بزنس مین، جو چمڑے کا کاروبارکرتے تھے ، انھوں نے مجھے بتایاکہ چین والے انھیں زیادہ کاروبار اس لیے دیتے ہیں کہ حلال جانورکاچمڑا زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔ان ساری باتوں نے میری اندر تبدیلی لانے میں کردار ادا کیا۔میں آج اپنے ان دشمنوں کو دعا دیتاہوں ، جنھوں نے مجھے ٹیم سے نکالااور مجھے ہدایت ملی۔مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ میں کسی مولوی کے بیان یا کرکٹ کے سیٹ بیک کی وجہ سے تو دین کی طرف نہیں گیا ،اس پر میرا جواب ہوتا ہے ، میں اسلام کا مطالعہ کرکے دین کی طرف آیا۔

تبلیغی جماعت کا انتخاب کیوں ؟

میں نے مختلف مسلکوں کو قریب سے جاکر دیکھا۔سبھی تبلیغ والوں کی برائی کرتے، لیکن میں ان کے قریب گیا تو ان کی سوچ نے مجھے متاثر کیا۔تبلیغ کا کام بہت اچھا لگا۔خود نیکی کرو، دوسروں کو اس کی طرف بلائو،اس سے اچھا کام اور کیا ہوسکتا ہے۔تبلیغی جماعت کی سب سے بڑی خوبی ،کسی مسلک کونہ چھیڑنا ، کسی کی برائی نہ کرنا ہے۔یہاں دل آزاری سے گریز کیا جاتا ہے،کسی سے نفرت نہیں سکھائی جاتی۔89ء میں تبلیغی جماعت سے تعلق قائم ہوا۔

غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے تو داڑھی ٹوپی کا کیا فائدہ؟

تبلیغی جماعت میں کچھ ایسے عناصر گھس آئے ہیں، جنھوں نے تبلیغ کے کام کو خراب کیا اور شخصیت پرستی میں پڑ گئے۔مثلاً جب سعید انور، جنید جمشید ،انضمام ، یوسف اور ثقلین مشتاق نہیں آئے تھے تو تبلیغ والے مجھے ہر جگہ لے کر گھومتے تھے۔ان کے آنے کے بعد مجھے سائیڈ لائن کردیا گیا۔یعنی مطلب نکل جائے تو اگلے کو پکڑو۔ہمارے بزرگوں کی تربیت ایسی نہیں۔مولانا وہاب،مولانا احسان اور مولانا جمشیدجیسے لوگوں نے فاقے کئے ، اور بڑی محنت سے تبلیغ کا کام کیا۔وہ رو رو کر کہتے تھے ، اگر آپ میں اخلاص نہیں ،اگر آپ نے اللہ کے لیے نہیں کیا اور شخصیت پرستی کی تو یہ اللہ رسول کا کام نہیں ہوگا ، ابلیس کا کام ہوگا۔

سعید انور آگئے تو قاسم عمر کو بھول گئے، جنید جمشید آگئے تو قاسم عمر کو بھول گئے،یہ سوچ غلط ہے۔ یہ مجھے پکڑ کر بڑے بڑوں کے گھر لے جاتے، سعید اور جنیدآگئے تو مجھے نظرانداز کردیا، اور بھول گئے، آفریدی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، تبلیغ میںشخصیت پرستی نہیں ہے۔ جس قسم کا رویہ میرے ساتھ روا رکھاگیا، میں بزرگوں سے کہتا ہوں کہ ایسے تبلیغیوں کو جماعت سے نکال دیں۔میرے ساتھ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے، وہ اپنی اولادوں میں دیکھ کر جائیں گے۔ استعمال کرلیا، اب فائدہ کا نہیں رہا،کام کانھیں رہاتو نظرانداز کردیا۔ معین العتیق(پانچ ون ڈے میچوں میں پاکستان ٹیم میں شامل رہے) اور ذوالقرنین (سابق ٹیسٹ کرکٹر)کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔سب کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔

سلیبرٹیز نے اپنی ٹولی بنالی ہے۔ امیروں کی ٹولی الگ ہے، جوغریبوں سے نہیں ملتے،صرف امیروں سے ملتے ہیں۔بزنس مینوں کی ٹولی الگ ہے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے، سب سے بڑا جہاد حاکم کے سامنے سچ بولنا ہے۔سچ نہیں بولنا تو اسلام سے کیا تعلق۔اسلام تو یہ ہے کہ مظلوم کو انصاف دلائیں۔ اگر ہم غلط کو غلط نہیں کہہ سکتے تو داڑھی ٹوپی کا کوئی فائدہ نہیں۔اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا تو یہ اللہ اوراس کے درمیان معاملہ ہے۔اگر کوئی حقوق العباد میں اچھا ہے تواس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔میرا اخلاق اچھا نہیں تو داڑھی ٹوپی کاکیا فائدہ؟صرف نمازیں آپ کو جنت میں لے کر نہیں جائیں گی۔

رنگ اس سے زیادہ اورکیاکالا ہوگا:

قادر بھائی کے رویے نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا۔وہ ہنسی مذاق کرتے تھے لیکن شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔وہ جونیئر کی عزت کرتے اور سنیئر کوئی غلط بات کہتا تو سخت رویہ اپناتے۔ سلیکٹر اگر ناانصافی کرتے تو اس پر بھی وہ آواز اٹھاتے۔ وہ سلیکٹر بنے تو میں نے پیش گوئی کردی تھی کہ وہ چھے ماہ سے زیادہ چیف سلیکٹر نہیں رہیں گے، اور پھر ایسا ہی ہوا۔کیوں کہ وہ یس مین نہیں ہیں۔سچ بولتے ہیں۔چیف سلیکٹر کے عہدے سے انھوں نے استعفا دیا تومیں نے انھیں فون کیا اور کہا کہ قادربھائی!کیوں پھر میرا کہنا درست ثابت ہوگیا ۔میرا جن سابق کھلاڑیوں سے ملنے کو جی چاہتا ہے ، ان میں قادر بھائی سرفہرست ہیں۔لاہور میں انہی سے میرا ملنا رہا۔

میں ان سے ملنے گیا تو وہ مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے، اور میرے لیے دروازہ کھولا، یہ میرے لیے بڑی عزت کی بات ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ وہ انسان ہے جو زرداری تو چھوڑیں کبھی اوباما کے لیے بھی دروازہ نہ کھولے۔وہ عظیم انسان اور کرکٹر ہیں۔شین وارن اور کمبلے یا جو دوسرے لیگ اسپنر ہیں، انھیں قادر بھائی کا شکر گزار ہونا چاہیے،جنھوں نے لیگ اسپن بولنگ کے ختم ہوتے آرٹ کو زندہ کردیا۔قادر بھائی سے ملنے گیا تو انھوں نے مجھے یاد دلایا کہ ایک بار فیصل آباد میںشدید گرمی میں ، میں بغیرٹوپی کی فیلڈنگ کررہا تھا، قادر بھائی نے مجھے کہا کہ سر پر ٹوپی یا ہیٹ پہن لو، رنگ کالا ہوجائے گا، جس پرمیں نے جواب دیاکہ' قادر بھائی!اس سے زیادہ اور کیا کالا ہوگا۔'

کیپلر ویسلزکی اسپورٹس مین اسپرٹ:

ایڈیلیڈ میں 52کے اسکور پرکیپلر ویسلز نے میرا کیچ پکڑااور امپائر نے آئوٹ دے دیا۔میں نے گیند کو ویسلز کے ہاتھ میں جانے سے قبل زمین پر لگتے دیکھ لیا تھا لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کیوں کہ فیصلہ تو امپائرنے کرناتھا ، جو اس نے کردیا۔ لیکن کمال بات یہ ہے کہ کیپلر ویسلز نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، خود ہی امپائر کو آگاہ کردیا کہ وہ کیچ پکڑنے میں کامیاب نہیں رہا۔اس کے بعد میں سنچری کرنے میں کامیاب ہوگیا۔سنچری بنانے کے بعد میں خاص طور سے ہاتھ ملانے کیپلر ویسلزکے پاس گیا اوراس کا شکریہ ادا کیا ۔کیوں کہ وہ اگر اس وقت دیانت داری نہ دکھاتا تو میں یقینا سنچری سے محروم رہتا۔

شوقین مزاج روم میٹ:

آسٹریلیا میںبرسبین ٹیسٹ کے دوران ایک سینئر جو میرا روم میٹ تھا، ساڑھے گیارہ بجے رات ، ایک جوان لڑکی لے کر کمرے میں آگیا۔ مجھے سوتے سے جگا کر کہنے لگاکہ میں کمرے سے باہر چلاجائوں۔میں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ کہنے لگا کہ سب جونیئر جاتے ہیں، مجھے صرف آدھا گھنٹہ چاہیے۔میں نے دونوں پر نظر دوڑائی اور پھر غصے سے کہا کہ مجھے یہ آدھے گھنٹے کی کہانی لگتی نہیں۔ پھر کہنے لگا کہ میں لابی میں چلا جائوں ، جس پر میں نے اسے کہا کہ میں لابی کے بجائے، منیجر کے کمرے میں جاکر انھیں بتاتا ہوں اور ساتھ میں پریس کو بھی تمھاری حرکتوں سے آگاہ کروں گا، اس پر وہ مجھے گالیاں دیتا ہوا نکل گیا۔اس سینئر کھلاڑی نے مجھے بعد میں بہت تنگ کیا۔ٹیم سے نکلوانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔

مارنے سے روکنا زیادہ مشکل ہے:

فیلڈنگ میںدلچسپی سے پتاچلتاہے، کھلاڑی کتنا پروفیشنل ہے۔کھیل میں اس کا انوالومنٹ کتنا ہے۔ہماری فیلڈنگ کل بھی خراب تھی اور آج بھی ایسا ہے۔کھلاڑی مس فیلڈنگ سے ڈرتے ہیں۔انھیں خوف رہتاہے کہ کیچ ڈراپ ہونے پر ہارنے کی ذمے داری ان پر ڈالی جاسکتی ہے۔اس وجہ سے وہ کئی بار جان بوجھ کر کوشش نہیں کرتے۔فیلڈنگ بہتر بنانے کے لیے اس چکر سے نکلنا ہوگا کہ فلاں کی وجہ سے میچ ہار گئے،اس سے فیلڈروں پر دبائو کم ہوگا۔ٹریننگ اور کوچ اپنی جگہ ، لیکن شوق کے بغیرآپ اچھے فیلڈر نہیں بن سکتے۔ فیلڈنگ میں ڈیرک رینڈل اور ویوین رچرڈ پسند تھے۔ پاکستان میں جاوید میانداد، شعیب محمد، سلیم ملک اور اعجاز احمد اچھے فیلڈر تھے۔

ظہیر عباس اور جیف بائیکاٹ میرے فیورٹ بیٹسمین رہے۔ ظہیر عباس اسٹروک پلئیر کی حیثیت سے پسند تھے۔ بائیکاٹ کو میں مضبوط دفاع کی وجہ سے پسند کرتا تھا۔دفاع مضبوط نہیں ہے تو آپ اچھے بولر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔بیٹنگ میں روکنا ، مارنے کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔دفاع اچھا ہوجائے تو مارنا خود بخود آجائے گا۔پاکستان کی طرف سے عظمت رانا کے زیادہ نہ کھیلنے کا افسوس ہے۔بائیں ہاتھ کا ایسا کھلاڑی نہیں دیکھا۔پریکٹس وہ کبھی نہیں کرتا تھا، لیکن میچ میں پہلا گیند یوں کھیلتا، جیسے پچاس رنز بناچکا ہے۔شفیق پاپاکا بھی افسوس ہے کہ اتنا اچھا کھلاڑی صرف ایک ٹیسٹ کھیل سکا۔سلیم پرویز بہت اچھا بیٹسمین تھا مگر ٹیسٹ کرکٹر بھی نہ بن سکا۔
بھٹو صاحب نے متاثرکیا

بھٹو صاحب نے بہت متاثر کیا۔انھوں نے روٹی ، کپڑا اور مکان کی بات کی، اوروہ دے دیتے لیکن کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ہمارے حکمرانوں میں وہ سب سے مقبول رہے۔ ڈیپارٹمنٹس سے کہا کہ وہ کرکٹرز کو ملازمت دیں۔پہلے وزیر اعظم تھے ، جنھوں نے شلوار قمیض پہنی اور عوام میں اسے عام کیا۔انٹر کانٹی نینٹل میں توشلوار قمیض پہن کر جایا نہیں جاسکتا تھا۔پڑھے لکھے اور کرشماتی شخصیت تھی۔افسوس بہت ہوا کہ ہمارے سربراہ کو پھانسی دی گئی۔عوام کے لیے وہ بہت کچھ کرلیتے لیکن ان کی پارٹی نے ساتھ نہیں دیا، عوام نے ساتھ نہیں دیا۔بھٹوکے علاوہ محمد علی کلے اور نیلسن منڈیلا پسند ہیں۔
Load Next Story