پاکستانی نظام اورمعاشرے کے ’’ محسن‘‘
اپنی مملکت عزیز کے موجودہ قابل رشک ، قابل فخر اورقابل صد مسرت واطمینان معاشرے اورنظام کو موجودہ اعلیٰ مقام تک پہنچانے میں یوں تو بہت سارے اکابرین شامل ہیں، طرح طرح کی حکومتیں ملوث ہیں اوربھانت بھانت کے جادوگر شریک ہیں لیکن اپنے معاشرے اورنظام کی تعمیر میں چند خاص ہستیوں کاکنٹری بیوشن بہت زیادہ ہے، تبھی تو یہ نظام اورمعاشرہ موجودہ ’’مثالی مقام‘‘ تک پہنچا ہے کہ عوام جو کالانعام بھی ہیں چین کی بانسریاں، شہنائیاں اورڈھول تاشے بجارہے ہیں۔
شیر اوربکری ایک ہی بوتل میں اپنااپنا اسٹرا ڈال کر منرل واٹر پی رہے ہیں، لوگ سونا چاندی اورہیرے جواہراچھال اچھال کرجوگنگ کررے ہیں ،مطلب یہ انصاف ہر ہر دہلیز پر ڈھیروں ڈھیر پڑا ہوا ہے ،عدل منوں اور ٹنوں کے حساب سے دستیاب ہے اورقانون کے ہاتھ ہرمقام پر مصروف کار ہیں، مختصر لفظوں میں بیان کیا جائے تو ہرطرف امن ہی امن اورشانتی ہی شانتی ہے ، گویا جس فردوس گم گشتہ کے لیے اپنا قافلہ چلا تھا وہاں خیروخیریت سے پہنچ کر نماز شکرانہ اداکررہا ہے ۔
اگر فردوس برروئے زمین است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است
اوریہ سب کچھ جن بابرکت ہستیوں کی وجہ سے ہمیں نصیب ہوا ہے، ان میں تین ہستیاں خاص طورپر قابل ستائش ہیں ۔ سب سے پہلے نمبر پر جناب فخر ایشیاء قائد عوام شہید جمہوریت حضرت بھٹو عرف روٹی کپڑا مکان کا نام نامی واسمی گرامی آتا ہے ۔
زبان پہ بارخدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے
حضرت نے اس کھیت میں جو ترقی دادہ فصل بوئی تھی اورجو تب سے اب تک مسلسل لہلہارہی ہے، اس کے اجزائے ترکیبی میں اسلام جمع جمہوریت جمع سوشلزم کوٹ کوٹ کر ڈالا گیا ہے ، آپ شاید سوچ رہے ہیں کہ ان تین مختلف اورمتضاد اشیا کوکیسے یکجا گیا ہے تو کسی حکیم سے کشتہ جات بنانے کی ترکیب معلوم کرلیں ، اس کشتے کو آپ اطرافل یعنی تری پھل بھی کہہ سکتے ہیں اورعلاج بالضد بھی ۔
حکیم موصوف نے صرف یہ یہی نہیں کیا ہے بلکہ اس کھیت کاجو بنجر اوربیکار حصہ تھا ،اسے بھی کاٹ کر دور سمندر پار پھینک دیا تھا۔ مختصر یوں کہیے کہ اس نے اس نظام اورمعاشرے کو جیالوں کی صورت میں جو تحفہ عطا کیا ہوا ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کا جزولاینفک بن چکا ہے ۔
دوسرا نام مرد حق حضرت ضیاء الحق عرف نوے روز میں الیکشن کا وعدہ کرنے والے کا ہے۔ موصوف نے دراصل محمود غزنوی عرف بت شکن کاایجاد کردہ نظام اپنایا یاحضرت اورنگزیب عالمگیر عرف ٹوپیاں سینے والی سرکار کو آئیڈل بنایا ہے، مطلب یہ کہ جسے چاہا اپنا بنا لیا اور جسے چاہا عبرت بنا دیا ، سب کچھ کرنے کے باوجود مرد حق کہلوایا۔
اوراب اس گل سرسبد، بے مثل وبے مثال اورہرہرلحظ سے محسن قوم جس کے لیے مرشد نے کہا ہے ۔
ورق تمام ہوا اورمدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
جناب عمرآن ،عالیشان، سچستان پاکستان ، عرف تبدیلی عرف سونامی عرف نیا پاکستان عرف ریاست مدینہ عرف صادق وامین کاذکرخیر ۔
زمانہ عہد میں اس کے ہے محوآرائش
بنیں گے اورستارے اب آسمان کے لیے
بلکہ عرفیتوں کاسلسلہ یہیں پر نہیں رکتا، آگے بہت دورتک چلا گیا جن میں سے ایک عرفیت سنگ پارس کی بھی ہے یعنی جو اس کے قریب ہوگیا، وہ سونا بن گیا بلکہ سونے کی کان بن گیا۔
اس کے عہد زریں میں ہم نے دیکھا کہ گلی کوچوں میں پرانی موٹر سائیکلوں پر خوار ہونے والے ہماشما راتوں رات کروڑ پتی بلکہ کچھ تو اربوں پتی ہوگئے یعنی گوگیوں، بوگیوں اور ہم غلام تو نہیں ہیں، پکارنے والوں کا ایک لشکر جرار تیار ہوگیا، ہم نے ایک مرتبہ کسی بزرگ، دانا، دانشور سے ایک مرتبہ پوچھا کہ آخر’’ بھٹو‘‘ اور ’’امران‘‘ کے پاس ایسی کونسی گیڈرسنگھی ہے کہ نہ کوئی نظریہ، نہ کوئی کارنامہ اور نہ کوئی پروگرام و جہدوجدہ لیکن لوگ جوق درجوق ان کی طرف دوڑ پڑے ۔ اس دانادانشور نے کہا کہ ان دونوں نے معاشرے کے ایک خاص طبقے اورخاص قسم کے لوگوں کو باورکرایا کہ ہم بھی ’’تمہارے جیسے ہیں‘‘ ۔مزید تشریح چاہی تو بولے، شارٹ کٹ کے راہی ۔۔۔اورولی را ولی می شناسد۔
بہرحال اس عظیم الشان ہستی نے وطن عزیز کے نظام اورمعاشرے کو جو کچھ دیا ہے، وہ ناقابل فراموش بھی ہے اورناقابل تبدیلی بھی یعنی اس کا دیا ہوا ’’فیض‘‘ تو اب ’’جاری رہے گا‘‘ کے ضمن میں آتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نظام اورمعاشرے کی رگ وپے میں سرایت کرچکا ہے اورکسی بھی تدبیر سے اب وہ معاشرے اورنظام کی رگوں سے نکلنے والا نہیں ۔