سفید انقلاب کا بانی

ڈیری سیکٹر میں بھارت کو پہلا مقام دلانے والے ورگھیش کورئین کی زندگی کا سفر ختم ہوا.

فوٹو: فائل

''سنو جینٹل مین! تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ گائے کا دودھ کیسے دوہا جاتا ہے اور تم مجھے لیکچر جھاڑ رہے ہو؟''

غضبناک ورگھیش کورئین پلاننگ کمیشن میں موجود ایک بیورو کریٹ پر چلایا، جو بعد میں حادثاتی طور پر ملک کا سیکریٹری خزانہ بھی بنا۔

یہ 1970ء کے آخری مہینوں کی بات ہے، جب ورگھیش امول برانڈ کی کچھ نئی مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کرانا چاہتا تھا۔ لیکن بیوروکریٹ موصوف اس کی کامیابی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ تاہم، جیسا کہ وہاں پر موجود لوگوں کا کہنا ہے، ورگھیش نے اپنی بات آسانی سے منوالی۔ یہ بیورو کریٹس سے نمٹنے کا اس کا مخصوص اسٹائل تھا۔ صرف بیورو کریٹس ہی نہیں، بلکہ سیاستدانوں سے بھی وہ اسی طرح ''ڈیل'' کیا کرتا تھا۔ اس کا بھی واقعہ سن لیجئے۔

آنند میں ڈیری کوآپریٹوز کے کامیاب تجربے کے بعد حکومت نے کورئین کو اسے تمام ملک میں رائج کرنے کی ذمے داری سونپی تھی۔ راجستھان کے وزیراعلیٰ برکت اللہ خان، آنند ماڈل کے مطابق کوآپریٹوز کو مکمل اختیارات دینے کے حامی نہیں تھے۔ اس نے کورئین کو بتایا کہ راجستھان کے کسان، گجرات کے کسانوں کی طرح باصلاحیت نہیں ہیں۔ اس لیے وہ بذات خود اس کو نہیں چلاسکیں گے۔ کورئین کا جواب تھا: ''اگر جودھ پور کے دیہی حلقے کے لوگ وزیراعلیٰ موصوف کو ممبر اسمبلی منتخب کرسکتے ہیں تو وہ یقینی طور پر دودھ کا اپنا چھوٹا سا کاروبار بھی سنبھال سکتے ہیں۔'' اور جیسا کہ ظاہر ہے، وزیراعلیٰ کو اس محکم دلیل سے اتفاق کرنا پڑا۔

اس قسم کا ایک واقعہ وزیراعظم کی سطح پر بھی پیش آیا تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کورئین پرانے کوآپریٹو قوانین میں تبدیلی کرانا چاہتا تھا، جن کی رو سے کوآپریٹوز کے رجسٹرار کو ''خدائی اختیارات'' حاصل تھے اور محکمے کا وزیر اس ''خدائی اختیارات'' کے حامل رجسٹرار کا بھی ''باس'' (Boss) ہوا کرتا تھا۔ جب یہ معاملہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے سامنے آیا تو اس نے بھی کورئین کے سامنے عام کسانوں کی استعداد پر سوال اٹھایا کہ وہ اپنے طور پر اس بڑے کاروبار کو کیسے سنبھال سکیں گے۔ کورئین کا جواب تھا: ''آپ اب ان انگریزوں کے لہجے میں بات کررہی ہیں، جن کا کہنا تھا کہ ہم آپ کو اس وقت آزاد کریں گے، جب آپ خود اس کیلئے تیار ہوں گے۔''

تو کورئین کا سیاستدانوں اور بیورو کریٹس سے نمٹنے کا یہ انداز ہوا کرتا تھا۔ تاہم غریب کسانوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے اس کا لب و لہجہ ہمیشہ ملائم ہوا کرتا تھا۔ وہ ان کی اہمیت اور کردار سے بخوبی آگاہ تھا اور دراصل ان کے حقوق کی جنگ ہی لڑرہا تھا۔

کورئین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ، جیسا کہ مذکورہ بالا واقعات سے ظاہر ہوتا ہے، اس نے عام کسانوں کو منظم کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ خود اپنے ڈیری کے کاروبار کو چلا سکیں اور ڈیری کوآپریٹوز کے ذریعے اسے مارکیٹ تک پہنچائیں۔ اس طرح سے انھیں مڈل مین سے چھٹکارا مل گیا، جو ان کی محنت کا زیادہ حصہ خود وصول کیا کرتا تھا اور انھیں اپنی پیداوار کے عوض بہت کم معاوضہ ملتا تھا، جس کی وجہ سے وہ استحصال کا شکار ہوتے تھے۔ اب ذرا ورگھیش کورئین کے حالات زندگی اور کارناموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ورگھیش کورئین 26، نومبر 1921ء کو ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں مدارس یونیورسٹی سے BSc کی ڈگری حاصل کی اور اسی یونیورسٹی سے 1943ء میں مکینیکل انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ حکومت سے اسکالرشپ ملنے پر انھوں نے 1948ء میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی (امریکا) سے اعزاز کے ساتھ MSc مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ جمشید پور (بہار) میں واقع ٹاٹا آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی انسٹیٹیوٹ میں بھی انجینئرنگ کی خصوصی تعلیم حاصل کی۔ بنگلور میں قائم نیشنل ڈیری ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بھی اسپیشلائزیشن کیلئے ضروری تربیت مکمل کی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد کورئین کو مخصوص مدت کیلئے آنند (گجرات) میں ڈیری انجینئر کی حیثیت سے حکومتی پلانٹ میں ذمے داری سونپی گئی۔ کورئین نے وہاں مخصوص مدت تک کام کیا اور پھر ملازمت چھوڑ دی۔ لیکن ملازمت ترک کرنے کے باوجود اس نے آنند میں ہی اپنا قیام رکھا۔

پہلے پہل سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کورئین سے درخواست کی کہ وہ اس کے حلقے کے کسانوں کے مسائل حل کرنے میں معاونت کرے۔ سردار پٹیل کے بعد ایک اور پٹیل، تری بھون داس پٹیل، نے کورئین کو آنند میں روکے رکھا۔ دراصل سردار پٹیل کے کہنے پر اس نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ اپنے علاقے کے غریب کسانوں اور گوالوں کو طاقتور ملٹی نیشنل کمپنیوں (جیسے پولسن وغیرہ) کے چنگل سے آزاد کراکر دم لے گا۔ اس کے کہنے پر کورئین نے 1949ء میں آنند ملک یونین لمیٹڈ (Amul) میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس وقت کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ جو بیج آج بویا جارہا ہے، وہ ایک دن گھنا تناور درخت بن جائے گا جس کی شاخیں تمام ہندوستان جبکہ خوشبو پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔

امول نے بعدازاں کیرا ڈسٹرکٹ کوآپریٹو ملک پروڈیوسرز کی شکل اختیار کرلی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر گجرات کو آپریٹو ملک مارکیٹنگ فیڈریشن (GCMMF) کا روپ دھار لیا۔ لیکن اس کی مصنوعات کا برانڈنیم، امول ہی رہا، جوکہ سارے ہندوستان میں لوگوںکی زندگی کا جزو بن گئی ہے۔

امول کے کامیاب تجربے نے اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو متاثر کیا۔ اس نے کورئین سے درخواست کی کہ اس ماڈل کو پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔ اس ضمن میں 1965ء میں نیشنل ڈیری ڈویلپمنٹ بورڈ (NDDB) کا قیام عمل میں لایا گیا، جسے یہ ذمے داری سونپی گئی اور ڈاکٹر ورگھیش کورئین کو اس کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ اس بورڈ کے زیر نگرانی 1970ء میں ''آپریشن فلڈ'' (Operation Flood) کے نام سے ایک پروگرام ترتیب دیا گیا جس کے ذریعے آنند ماڈل کو پورے ملک میں نافذ کیا جانا تھا۔ اس پروگرام پر تین حصوں میں کام کیا گیا اور بالآخر 1996ء میں جاکراس کی تکمیل ہوئی۔


1998ء میں 33 سال ریکارڈ مدت تک اس عہدے پر کام کرنے کے بعد اس نے NDDB سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ 2006ء میں اسے گجرات کوآپریٹو ملک مارکیٹنگ فیڈریشن (GCMMF) کی چیئرمین شپ بھی چھوڑنا پڑی۔ جس کا وہ 1973ء میں چیئرمین بنا تھا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ 12 میں سے 11 بورڈ ارکان اس کے خلاف ہوگئے تھے۔ اس مخالفت کی سیاسی وجوہات بھی بتائی جاتی ہیں کہ BJP گجرات میں کوآپریٹوز پر اپنا کنٹرول رکھنا چاہتی تھی، جن کا وہاں اچھا خاصا ووٹ بینک ہے ، اور اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کورئین تھا۔ جی سی ایم ایم ایف دودھ مصنوعات بنانے والی غیر سرکاری تنظیم ہے۔ اس تنظیم میں گیارہ ہزار سے زیادہ دیہات کے بیس لاکھ کسان ممبر شامل ہیں۔

ہندوستان میں آئی ٹی (IT) انڈسٹری کی حیران کن پیش رفت سے پہلے، سب سے بڑی کامیابی ڈیری سیکٹر میں گردانی جاتی تھی۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان کو غیر ملکی ڈیری مصنوعات پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اس کے بعد ڈیری کے شعبے میں نہ صرف اس نے خود کفالت حاصل کی بلکہ دوسرے ممالک کو بھی خشک دودھ اور ڈیری کی دیگر مصنوعات ایکسپورٹ کرنے لگا۔ ہندوستان کی سالانہ دودھ کی پیداوار 1970ء میں 20 ملین ٹن تھی جوکہ 1990ء میں 80 ملین ٹن تک بڑھ گئی اور آج کل اس کی مقدار تقریباً 122 ملین ٹن سالانہ ہے جوکہ دنیا میں دودھ کی مجموعی پیداوار کا 17 فیصد ہے۔

اس خیرہ کن کامیابی کے پیچھے ایک شخص کا وژن اور برسوں تک جاری رہنے والی محنت شافہ شامل ہے جس کو دنیا ورگھیش کورئین کے نام سے جانتی ہے۔ ان کا حال ہی میں 9ستمبر 2012ء کو 90 سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔ انھیں ہندوستان میں ''سفید انقلاب کا بانی'' اور ''ہندوستان کا گوالا'' (Milk man of india) کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

کورئین کے کارناموں اور بھارت کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے پیش نظر حکومت ہند نے انھیں پدم شری، پدم بھوشن اور پدم و بھوشن جیسے اعلیٰ شہری اعزازات دیئے ہیں۔ ڈیری انڈسٹری کیلئے ان کی ناقابل فراموش خدمات کی وجہ سے انھیں مختلف تنظیموں سے بین الاقوامی اعزازات بھی ملے ہیں۔

آخر میں یہ دلچسپ بات بھی سن لیں کہ ''ہندوستان کا گوالا'' (Milk man of india) کے نام سے مشہور ورگھیش کورئین خود دودھ نہیں پیتے تھے اور ان کا کہنا تھا :''مجھے یہ پسند نہیں ہے۔''

امول برانڈ کیسے کامیاب ہوا؟

امول برانڈ کی بے مثال کامیابی پر لوگ مجھ سے اکثر کہتے ہیں کہ میں اس کی کامیابی کی وجوہات اور تاریخ پر روشنی ڈالوں۔ میں اس کی طویل تاریخ میں سے ایسی کچھ وجوہات کا کھوج لگانے کی کوشش کرتا ہوں، جس کی وجہ سے ''امول'' کو نہ صرف شہروں بلکہ قصبوں اور ہمارے دیہی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر شناخت اور احترام ملا ہے۔اس کا آسان، لیکن غلط، جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی بڑے اچھے طریقے سے تشہیر کی گئی ہے۔ یقینی طور پر امول کو برانڈ کے طور پر لوگوں کی نظروں میں لانے کیلئے تشہری مہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ''Taste of India'' (ہندوستان کا ذائقہ) بڑا ہی جاندار فقرہ ہے۔ لیکن یہ تمام کامیابی صرف تشہیر کے رہین منت نہیں ہے۔صارفین کے استعمال کی ایک عام مگر کامیاب پروڈکٹ کو روزانہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ خریدتے ہیں۔ یہاں اس کے برانڈ نیم کو ایک معاہدے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ برانڈ کی طرف سے صارف کو یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اس سے اس کی ضروریات پوری ہوجائیں گی بلکہ اس کو اپنی توقعات سے بڑھ کر ملے گا۔ جبکہ بیچنے والا اسے یہ بھی یقین دلاتا ہے کہ یہ چیز اسے مناسب قیمت میں فروخت کی جارہی ہے۔

اگر امول ایک کامیاب برانڈ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی پچاس سالہ تاریخ میں، اپنے صارف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کا ہمیشہ پاس رکھا ہے اور اس کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوگئے ہوتے تو اسے بھی دوسرے ہزاروں برانڈز کے ساتھ اب تک تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا گیا ہوتا۔ ایک برانڈ کو ہمیشہ اپنے صارف کی توقعات پر پورا اترنا ہوتا ہے۔ اگر آپ اس میں ایک دفعہ بھی ناکام ہوتے ہیں تو برانڈ کی قدرو قیمت گھٹ جاتی ہے۔لوگ کسی برانڈ کو کیونکر خریدنا پسند کرتے ہیں؟اس کی پہلی وجہ تو معیار ہے۔ کوئی برانڈ اس وقت تک اپنی جگہ نہیں بناسکتا، جب تک یہ صارفین کی توقعات پر پورا نہ اترے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ثابت نہ ہو۔ سادہ سی بات یہ کہ معیار پر کوئی سمجھوتا نہیںہوسکتا۔

دوسرے یہ کہ آپ جو چیز صارف کو فراہم کرتے ہیں، اس کے مطابق قیمت وصول کریں۔ ہمیں فخر ہے کہ جہاں ہم اپنے لیے نفع کماتے ہیں، وہاں اپنے صارف کا بھی کسی صورت استحصال نہیں ہونے دیتے۔ مشکل حالات میں جب ہماری مصنوعات کی پیداوار کم ہوگئی تھی، تب بھی ہم نے عام روایت کے برعکس قیمتیں بڑھانے کی مزاحمت کی تھی، تاکہ دکاندار عام صارف سے زیادہ قیمت وصول کرکے اپنی کمائی کا ذریعہ نہ بنا لیں۔(2001ء میں ''Markets in Motion'' کے موضوع پر ڈاکٹر ورگھین کورئین کی تقریرسے اقتباس'')

ہندوستان کی منظم ڈیری انڈسٹری کی انقلابی ترقی میں سب سے بڑا حصہ اس کی ٹیکنالوجی کی پیشرفت کا ہے، جس کی مدد سے بھینس کے دودھ سے خشک پاوڈر کا حصول ممکن بنایا گیا۔ اس وقت عام طور پر صرف گائے کے دودھ کو خشک کرکے محفوظ کیا جاتا تھا اور بھینس کے دودھ کو خشک کرنا تمام ماہرین کے نزدیک ناقابل عمل سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ بھینس کے دودھ میں چکنائی، گائے کے دودھ کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے موسم سرما کے دوران جب دودھ کی طلب کم ہوتی تھی تو دودھ کا ذخیرہ کرنا اور ان سے دیگر مصنوعات تیار کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ سے اضافی دودھ ضایع ہوجاتا تھا اور گوالوں کو نقصان پہنچتا تھا۔ یہ مسٹر ایچ ایم ڈالیا تھے، جنہوں نے اس پر کام کیا اور اس کا حصول ممکن بنایا۔

ڈالیا کے متعلق ورگھیش کورئین کا کہنا ہے ''میرا کام زیادہ تر مارکیٹنگ، بیرونی معاملات، سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگوں سے معاملہ کرنا ہوتا تھا۔ اندرونی اور ڈیری سے متعلق تمام تکنیکی معاملات ڈالیا دیکھا کرتے تھے۔''

ڈالیا کو پاوڈر پلانٹس اور طریقہ کار کو سمجھنے کیلئے ڈنمارک بھیجا گیا، جہاں انھوں نے اپنی ضرورت کے مطابق موزوں پلانٹس کا انتخاب کیا اور اس طرح اکتوبر 1955ء میں کیرالہ میں بھینس کے دودھ کو خشک کرنے کا پہلا پلانٹ لگایا گیا۔ تاہم آج کے دور میں بھینس کے دودھ کو خشک کرنا، بلکہ اس سے پنیر اور بچوں کیلئے غذا تیار کرنا،کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
Load Next Story