ملک میں 58 فیصد غیرقانونی سگریٹ کی فروخت کا انکشاف، ٹیکس چوری 300 ارب تک پہنچ گئی
تقریب سے خطاب میں وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ اگر سگریٹ سیکٹر سے یہ دو سے تین سو ارب روپے کا اضافی ٹیکس آجائے تو دودھ کے ڈبے اور تنخواہ دار طبقے پر بھی عائد کردہ اضافی ٹیکس واپس ہوجائے گا وزیر اعظم شہباز شریف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا بوجھ کم کرنا چاہتے ہیں، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک محدود ہو چکی ہے، رواں مالی سال 35 سو ارب روپے کے ٹیکسز لگائے گئے، گزشتہ 70 سال سے قائم سسٹم کے تحت ملک نہیں چل سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاوٴنٹ خسارہ 18 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا جسے کنٹرول کیا گیا، ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے کیلئے آمدن میں اضافہ اور ٹیکس چوری روکنا ہوگی، ہم اقدامات کررہے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ثابت ہو، گزشتہ ادوار میں ڈالر کی قلت کے باعث یومیہ ڈالر کی قیمتوں میں اتار چڑھاوٴ ہوتا رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف بی آر نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو نافذ کرنے میں انتھک محنت کی ہے، ایف بی آر کو ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے ٹیکس چوروں کو پکڑنا ہوگا، ایف بی آر انفورسمنٹ بہتر بنانے کیلئے وسائل فراہمی کی سمری منظور کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 264 برانڈز ہیں جبکہ ایف بی آر کے پاس 154 برانڈ رجسٹرڈ ہیں اور ان سگریٹ ساز کمپنیوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو ہیں، جن پانچ کمپنیوں نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم لاگو نہیں کیا تھا ان کمپنیوں کو سیل کردیا گیا تھا جو کہ ابھی تک سیل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم انیس بیس سال سے لاگو کرنے کی کوششیں کررہے تھے بالآخر 2021ء میں یہ سسٹم لاگو کردیا گیا، سگریٹ سیکٹر کے بعد فرٹیلائزر، شوگر اور سمینٹ سمیت چار مزید شعبوں میں بھی نافذ کردیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں سگریٹ فروخت کرنے کے ساڑھے سات لاکھ آؤٹ لیٹس ہیں لہذا ان کی مانیٹرنگ اور چیکنگ کیلئے بھاری افرادی قوت بھرتی نہیں کی جاسکتی البتہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان کی مانیٹرنگ کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈیجیٹائزیشن کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جعلی سگریٹ مینوفیکچرنگ پر قابو پالیا گیا ہے جس کا اظہار آئی پی او آر کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے جہاں تک اسمگلنگ کا تعلق ہے اور نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ کا تعلق ہے تو ان کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں جلد قانون لایا جارہا ہے جس میں اسمگل شدہ و نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ فروخت کرنے والے آوٹ لیٹس سیل کرنے اور ان پر بھاری جرمانے عائد کرنے کے اختیارات دیئے جارہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی اتھارٹیز و ایجنسیوں کو بھی کاروائی کے اختیارات دیئے جارہے ہیں جس کے تحت ملک بھر میں پولیس اسٹیشنز بھی اسمگل شدہ و نان ڈیوٹی پیڈ سگریٹ بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کرسکیں گے اور توقع ہے کہ اکتیس دسمبر تک یہ قانون لاگو ہوجائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سگریٹ کا پیکٹ کم از کم 80 روپے میں فروخت ہورہا ہے، 197 برانڈز کا سگریٹ کم از کم قیمت سے نیچے فروخت ہورہا ہے، 166 اسمگلڈ سگریٹ کے برانڈز مارکیٹ میں فروخت ہورہے ہیں تمباکو کے شعبے میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں 2021 میں تین دیگر شعبوں کے ساتھ شروع ہوئیں جن میں سیمنٹ، کھاد اور چینی کے شعبے شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2022ء سے ٹریک اینڈ ٹریس کی مہر کے بغیر سگریٹ کا پیک فروخت کرنا غیر قانونی ہے تاہم حتمی تاریخ گزرنے کے بعد سیاس سسٹم پر عمل درآمد صرف ایک خواب ہی رہا ہے، آئی پی او آر نے پنجاب اور سندھ کے 11 شہروں میں مارکیٹ پر تحقیق کی جس میں 18 مارکیٹوں میں 40 پرچون فروشوں (retailers) کی دکانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس میں کل 720 دکانیں شامل تھیں،اس تحقیق کے دو مقاصد تھے؛ فروخت کے وقت ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پر عمل درآمد کی صورت حال کا پتا لگانا اور سگریٹ کے لیے کم از کم طے شدہ قانونی قیمت(ایم ایل پی) پر عمل درآمد کا جائزہ لینا جو ایف بی آر کی طرف سے لازمی ہے۔
مزید یہ کہ وہ دیگر طے شدہ قانونی تقاضوں پر بھی عمل درآمد نہیں کر رہے تھے۔ 19 برانڈ تمام طے شدہ قانونی تقاضوں کے مطابق عمل درآمد کرتے پائے گئے مگر وہ کم از کم طے شدہ قانونی قیمت سے زیادہ قیمت پر فروخت کر رہے تھے۔
کلیدی مقررین میں ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے پروجیکٹ ڈائریکٹر محمد ظہیر قریشی بھی شامل تھے جنہوں نے اس سسٹم کے نفاذ کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بتایا۔ تقریب کی صدارت علی پرویز ملک، رکن قومی اسمبلی اور وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات نے کی جنہوں نے تمام شعبوں میں اس سسٹم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے عزم پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مذکورہ سسٹم کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بہتر ریگولیٹری اقدامات کی ضرورت ہے، اس سسٹم پر عمل درآمد کو بڑھانے کے لیے دی گئی سفارشات میں تجویز کیا گیا ہے کہ عدم تعمیل والے برانڈ تک رسائی کو روکنے کے لیے پرچون فروشوں کی سطح پر نفاذ کو مضبوط بنایا جائے جبکہ خلاف ورزیوں کے لیے سزاوٴں میں اضافہ کیا جائے صارفین کو تعمیل شدہ مصنوعات کی خریداری کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے عوامی آگاہی کی مہمات کا آغاز کیا جائے۔