ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی

جناب ٹرمپ اس سے پہلے امریکا کے47ویں صدر رہے

gfhlb169@gmail.com

جناب ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت ِ صدارت کے لیے امریکی صدر منتخب ہو چکے ہیں۔6نومبر 2024 کو ہونے والے انتخابات میں وہ اپنے مدِ مقابل کمالا دیوی ہیرس کو واضح برتری کے ساتھ شکست دے کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے کے اہل ٹھہرے ہیں۔ صدر بائیڈن کی مدتِ صدارت20جنوری کو ختم ہو جائے گی اور اسی روز جناب ٹرمپ عہدۂ صدارت کا حلف اٹھائیں گے۔

جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ دوسری اور آخری مدتِ صدارت ہوگی کیونکہ امریکا میں کوئی بھی رہنما دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں رہ سکتا۔ٹرمپ دونوں مرتبہ خاتون صدارتی امیدواروں کو ہرا کر صدر بنے۔ پہلی مرتبہ انھوں نے ہیلری کلنٹن کو ہرایا اور اب کی بار کمالا ہیرس کو ہرا کر میدان مار لیا۔یوں اب تک کوئی بھی خاتون امریکی صدر نہیں بن سکی۔کمالا ہیرس حادثاتی طور پر صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔صدر بائیڈن دوسری ٹرم کے لیے امیدوار تھے لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ دست بردار ہو گئے اور بوجوہ نائب صدر کمالا دیوی ہیرس صدارتی دوڑ میں شامل ہو گئیں۔ ان کو الیکشن مہم چلانے کا پورا موقع نہیں ملا۔

کمالا ہیرس کا سیاسی کیریئر وقتی طور پر فلیٹ ہو چکا ہے۔چونکہ وہ ابھی 60برس کی ہیں اور کبھی امریکی صدر نہیں بنیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ آیندہ کسی الیکشن میں ان کو صدارتی امیدوار بننے کا موقع میسر آئے لیکن فی الحال وہ نائب صدر کی حیثیت سے اپنے سیاسی کیریئر کی معراج پر ہیں اور 20جنوری2025کو اس عہدہ سے فارغ ہو جائیں گی۔وہ 20اکتوبر1964کو اوک لینڈ کیلیفورنیا میں پیدا ہوئیں۔

کمالا بارہ برس کی عمر میں مانٹریال چلی گئیں جہاں انھوں نے اسکول اور کالج میں فرسٹ ایئر تک تعلیم حاصل کی۔پھر انھوں نے Howardیونیورسٹی اور یونورسٹی آف کیلی فورنیا کے Law اسکول میں تعلیم پائی۔اپنے عملی کیریئر کے ابتدائی سالوں میں کمالا ایلامیڈا کاؤنٹی کی ڈپٹی اور پھر سان فرانسسکو کاؤنٹی کی اسسٹنٹ ڈسٹرک اٹارنی رہیں۔2004 سے2011 کے دوران وہ دو مرتبہ سان فرنسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی بنیں۔ان کی والدہ مدراس چنائے انڈیا اور ان کے والد جمیکا سے امریکا آئے۔کمالا 20جنوری 2021سے امریکا کی نائب صدر ہیں۔ان کو موجودہ صدارتی انتخاب میں شہری ووٹ کثرت سے ملے۔جناب ڈونلڈ ٹرمپ جون 1946میں ایک ایسے اسکاٹش خاندان میں پیدا ہوئے جو رئیل اسٹیٹ کا کام کرتا تھا۔ویسے تو جناب ٹرمپ کی امریکا کے کئی شہروں میں رہائش گاہیں ہیں لیکن Mar a  Lagoمیں ان کا گھر 8لاکھ مربع فٹ پر محیط ہے جس میں 125 کے قریب خواب گاہیں ہیں۔

وہ اس رہائش میں کبھی کبھی سستانے کے لیے جاتے ہیں جب کہ عام دنوں میں وہ نیویارک میں واقع ٹرمپ ٹاور کی بالائی منازل میں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ٹرمپ صاحب کا ایک گھر استنبول اور ایک پانامہ میں بھی ہے۔وہ زیادہ تر اپنے ذاتی جہاز میں سفر کرتے ہیں۔یوں جناب ٹرمپ امریکا کے امیر ترین صدر ہیں۔جناب ٹرمپ پر 34مقدمات چل رہے ہیں۔ایک مقدمے کا فیصلہ انتخابات سے پہلے ہونا تھا لیکن فاضل جج نے یہ کہا کہ صدارتی انتخابات قریب ہیں اور مقدمے کے فیصلے سے انتخابات پر اثر پڑ سکتا ہے اس لیے مقدمے کے فیصلے کی کاروائی 26نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔توقع ہے کہ اب یہ فیصلہ 26نومبر کو سنا دیا جائے گا۔یہ ایک انتہائی دلچسپ صورتحال ہو گی۔اگر نو منتخب صدر کو سزا ہو گئی تو کیا وہ وائٹ ہاؤس کے بجائے جیل جائیں گے یا پھر ان کی سزا پر عملدرآمد چار سال کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا۔صدر کا حلف لینے کے بعد وہ اپنے آپ کو معاف بھی کر سکتے ہوں گے۔جناب ٹرمپ اس سے پہلے امریکا کے47ویں صدر رہے اور اب وہ امریکا کے 49صدر بننے جا رہے ہیں۔امریکی انتخابی نظام میں صدر چار سال کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل وار کو صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوتی ہے ۔

صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتا ہے،انتخابات میں 538الیکٹرز منتخب ہوتے ہیں۔صدارتی دوڑ میں شامل جو امیدوار بھی 270یا اس سے زیادہ الیکٹورل ووٹ لے جائے منتخب قرار پاتا ہے۔گنتی کے عمل کے دوران جونہی اطلاع ملی کہ جناب ٹرمپ کو مطلوبہ 270سے زیادہ الیکٹورل ووٹ مل چکے ہیں،ان کی مدِ مقابل کمالا ہیرس نے ٹرمپ کو فون کر کے فتح کی مبارکباد دی اور اپنی شکست کا اعتراف کیا۔یہ بہت اچھی روایت ہے۔ساری دنیا کی طرح کورونا وبا کے بعد امریکا میں بھی روزمرہ زندگی سے متعلقہ اشیا اور گیس کی قیمتیں بڑھی ہیں۔مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی میں بے شمار مشکلات پیدا کی ہیں۔اسی مہنگائی نے ڈیموکریٹک پارٹی کو غیر مقبول کیا اور بڑا نقصان پہنچایا۔ٹرمپ کی کامیابی میں دنیا کے امیر ترین شخص ایلان مسک کا بھی بہت ہاتھ ہے۔چونکہ ایلان مسک بہت زیادہ امیر ہیں،اس لیے مسک نے ٹرمپ کی کامیابی کے لیے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا اور132ملین ڈالر خرچ کیے۔

انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعد ٹرمپ فیملی کی جو تصویر میڈیا میں وائرل ہوئی اس میں ٹرمپ فیملی ایلان مسک فیملی کے ساتھ خوشیاں مناتی نظر آئی،جب کہ کوئی اور امریکی یا غیر ملکی ٹرمپ فیملی کی خوشیوں میں شامل نہیں تھا۔اس سے مسک فیملی کی آنے والے دنوں میں اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ایک تو جناب ٹرمپ خود بہت صاحبِ دولت و ثروت ہیں اور اس پر جناب ایلان مسک جیسے امیر کبیر افراد کا ٹرمپ کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہانا یقینی جیت کا سبب بنا ہو گا۔جناب ٹرمپ کو امریکی دیہاتی علاقوں سے بہت پذیرائی ملی۔اسی طرح شہروں کے مضافاتی علاقوں سے بھی لوگوں نے ٹرمپ کو بہت ووٹ دیے۔سفید فاموں کی اکثریت،مردوں کی اکثریت،درمیانی انکم گروپ کے افراد اور مسلم ووٹ ٹرمپ کو پڑا ہے ۔

انتخابات سے پہلے ہونے والے سرویز میں لگتا نہیں تھا کہ جناب ٹرمپ اس قوت کے ساتھ آئیں گے لیکن آخر میں تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور یہ مقابلہ یک طرفہ ٹھہرا۔جناب ٹرمپ نے اپنی وکٹری اسپیچ میں اعلان کیا کہ وہ کوئی نئی جنگ نہیں چاہتے اور یہ کہ وہ غزہ اور یوکرین وغیرہ کی جنگوں کو بند کروائیں گے۔غزہ کی جنگ بند کروانا ان کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔بائیڈن نے جنگ میں اسرائیل کی بہت مدد کی لیکن ساتھ ہی کچھ وارننگز بھی دیں۔ٹرمپ اپنے یہودی son-in law جیرڈ کشنر کی وجہ سے اسرائیل کے بڑے حامی ہیں۔ان کے پچھلے دور میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل ہوا۔یوں لگتا ہے کہ فلسطینیوں خاص کر حماس کی مشکلات میں اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

ٹرمپ اسرائیل کی حمایت میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔وہ نیتن یاہو کی اس کوشش کے حامی ہوں گے کہ حماس کا مکمل خاتمہ ہو۔ٹرمپ پہلے ہی ابراہم اکارڈ کی شکل میںکچھ مسلمان ملکوں کو مجبور کر چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے اچھے تعلقات قائم کریں۔ایسا ہو بھی چکا ہے۔ٹرمپ ایران کے خلاف بھی اسرائیل کی ہر مدد کو آئے گا۔ایران کے لیے ٹرمپ کی مدت صدارت مشکلات سے بھرپور ہو گی،البتہ ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کروا سکتے ہیں اور روس کے صدر پیوٹن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہیں۔

یہ جنگ اگر بند ہوتی ہے تو یورپ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ٹرمپ چین کے خلاف کئی اقدامات اُٹھا سکتے ہیں۔پچھلی مدتِ صدارت میں انھوں نے بہت سی چینی کمپنیوں پر پابندی لگائی تھی اور چینی برآمدات پر ٹیرف میں اضافہ کیا تھا۔ٹرمپ اب پھر چین کے خلاف جھپٹیں گے اور اس کے لیے وہ انڈیا کی مدد چاہیں گے۔ وزیرِ اعظم مودی بھی جناب ٹرمپ کے مزید قریب ہونے کی خواہش کریں گے۔پاکستان اس وقت امریکا کے لیے غیر اہم ہے۔

Load Next Story