سری لنکا کے نئے صدر کی جماعت نے پارلیمانی انتخابات میں بھی میدان مارلیا

صدر انورا کمارا ڈسانائیکے کو 42 فیصد ووٹ پڑے تھے تاہم ان کی جماعت نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی ہے

مارکسسٹ صدر کی جماعت نے 159 نشستیں حاصل کیں—فوٹو: اے پی

COLOMBO:

سری لنکا کے نئے مارکسسٹ صدر انورا کمارا ڈسانئیکے کی جماعت نے پارلیمنٹ کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔

غیرملکی خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے الیکشن کمیشن کے مطابق صدر انورا کمارا ڈسانائیکے کی جماعت نیشنل پیپلزپاور پارٹی نے 225 میں سے 159 نشستیں حاصل کرلی ہے۔

پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے مطابق نئے صدر کی جماعت کو عوام نے ملک کی معیشت بحال کرنے کے لیے زبردست مینڈیٹ دیا ہے۔

سری لنکا کے اپوزیشن لیڈر سجیتھ پریماداسا کی قیادت میں ساماگی جانا بالاویگایا یا یونائیٹڈ پیپلزپاور پارٹی 40 نسشستیں حاصل کرکے دوسری پوزیشن پر رہی۔

صدر انورا کمارا ڈسانائیکے کی جماعت کو حاصل فتح کے مارجن سے انہیں اپنا اصلاحاتی نظام نافذ کرنے کے لیے بہترین موقع ملا ہے اور مہم کے دوران ان کی جماعت نے دیگر جماعتوں پر انحصار کیے بغیر نیا آئین بنانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ سری لنکا کے پارلیمانی انتخابات ایک ایسے موقع پر منعقد ہوئے ہیں جب ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران کے بعد بحالی کی جانب گامزن ہے جبکہ 2022 میں ملک دیوالیہ ہوگیا تھا۔

قبل ازیں صدر انورا کمارا ڈسانائیکے 21 ستمبر کو منعقدہ صدارتی انتخاب میں کامیابی ہوئے تھے اور عوام نے سری لنکا کی پرانی سیاسی جماعتوں کو رد کردیا تھا جو ملک میں 1948 میں برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد حکومت کر رہی تھیں۔

انورا کمارا ڈسانائیکے کو صدارتی انتخاب میں کامیابی تو ملی تھی لیکن 42 فیصد ووٹ کی وجہ سے ان کی جماعت کی مقبولیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے تھے تاہم ان کی جماعت کو دو مہینے سے بھی کم وقت میں زبردست مقبولیت حاصل ہوگئی ہے۔

نیشنل پیپلزپاور پارٹی کو ضلع جافنا میں حیران کن کامیابی ملی ہے جہاں شمال میں نسل پرست تامل اکثریت ہے اور دیگر بڑی اقلیتوں کا مرکز ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جافنا میں غیرروایتی انداز میں پڑنے والے ووٹ سے قوم پرست تامل پارٹیوں کو زبردست دھچکا لگا ہے کیونکہ یہ جماعتیں آزادی کے بعد شمالی سری لنکا میں برتری لیے ہوئے تھیں۔

دوسری جانب تامل آبادی کے رجحان میں بھی بڑی تبدیلی آگئی ہے جو ماضی میں نسل پرست رہنماؤں کی قیادت پر اعتماد کرتی تھی اور ان میں اکثریت سنہالے رہنماؤں کی تھی۔

تامل علیحدگی پسندوں نے 1983 سے 2009 تک خانہ جنگی میں ملک کا بڑا جانی نقصان کیا تھا تاہم ان کی جنگ ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔

Load Next Story