چولستان کینال کا منصوبہ

اس نہر سے 120 کلومیٹر طویل ماروٹ کینال کو پانی مہیا کیا جائے گا۔

وفاقی حکومت کی غلط حکمت عملی کی بناء پر چولستان کینال کا مسئلہ سندھ اور پنجاب کے درمیان ایک تنازع کی شکل اختیار کر رہا ہے، اگر وفاقی حکومت نے چولستان کینال کے مسئلے کے حل پر فوری طور پر توجہ نہ دی تو یہ معاملہ کالا باغ ڈیم کی طرح ایک تنازع کی شکل اختیار کرجائے گا۔ سندھ کی حکومت، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اس منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل نہ ہونے والی تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ فنکشنل اور تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اس منصوبے کے خلاف احتجاجی تحریک منظم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

گزشتہ جولائی میں صدر آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں چولستان نہر پروجیکٹ کی منظوری دی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کے ہونے والے اجلاس میں حکومت سندھ کے نمایندے نے چولستان کینال منصوبے پر اعتراض کیا تھا مگر CDWP نے حکومت سندھ کے اعتراض کو مسترد کیا اور اس منصوبے کو Executive Committee of the national economic councilکو ریفرکیا گیا تھا۔

 سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کمیٹیوں میں اس منصوبے کے بارے میں جامع مؤقف پیش کیا تھا مگر ان کے مؤقف کو مسترد کردیا گیا۔ چولستان کینال دراصل دریائے ستلج کے سلیمانکی بیراج سے نکالی جائے گی، جو فورٹ عباس پر اختتام پذیر ہوگی۔ یہ نہر 176 کلومیٹر طویل ہوگی۔ اس نہر سے 120 کلومیٹر طویل ماروٹ کینال کو پانی مہیا کیا جائے گا۔ یہ پانی East Ward مشرق کی طرف منتقل ہوگا۔

اس نہر سے چولستان کی 452,000 ایکڑ زمین جو صحرائی علاقہ میں ہے سیراب ہوگی، اس علاقے میں پانی فراہم کرنے کے لیے 524 کلومیٹر ڈسٹری بیوٹرز اور چھوٹی چھوٹی نہریں تعمیر ہونگی۔ اس منصوبے پر 21 بلین روپے کی لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ 3 اپ اسٹریم دریا کو منسلک کر کے نہروں رسول قادرآباد، قادر آباد بلوکی اور بلوکی سلیمانگی کو بھی پانی ملے گا۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے جنوری 2024اجلاس میں جب اس منصوبے کو پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ دینے کا معاملہ آیا تو حکومت سندھ کے نمایندے نے یہ قانونی سوال اٹھایا کہ اتھارٹی اس نوعیت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتی مگر اتھارٹی کے اجلاس میں 1کے مقابلے میں 4 ووٹوں سے یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔

 سندھ حکومت کا موقف ہے کہ آئین کے تحت یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے سامنے جانا چاہیے۔ سول سوسائٹی کے فعال کارکن پانی کے مسئلے کے ماہر نصیر میمن کی تحقیق کے مطابق یہ منصوبہ دراصل سیلابی پانی کے لیے نہرکی تعمیر کے لیے تیار ہوا تھا مگر پھر اس منصوبے کو Perennial Canal میں تبدیل کردیا گیا۔ Perennial Canalکی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ ایسا منصوبہ جو کئی سال بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔

ماہرین اپنے آرٹیکل میں مسلسل یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب سیلابی پانی میسر نہیں ہوگا تو پھر اتنی خطیر رقم سے تیار ہونے والی نہر میں پانی کہاں سے آئے گا؟ یہ توقع کی جاتی ہے کہ سیلابی پانی نہ آنے کی صورت میں پنجاب میں سے کچھ پانی چولستان کینال کو منتقل کرے گا مگر جب پنجاب میں پانی کی قلت ہوگی تو پھرکیا ہوگا؟ اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ پلاننگ کمیشن نے حکومت پنجاب سے اس بارے میں تفصیلات مانگی تھیں تاکہ نئے کینال سسٹم میں پانی کی مقدارکا فارمولہ طے کیا جائے۔

نصیر میمن نے ایک تحقیقی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ حقیقی منصوبے کے تحت پانی کا زیادہ بہاؤ جون سے اگست کے مہینوں میں ہوتا ہے۔ ماہرین اس سوال پر خاص طور پر زور دیتے ہیں کہ کلائمنٹ چینج کے دور میں یہ پیشگوئی کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ بھارت پاکستان کے دریاؤں میں سیلاب کب آئے گا۔ پلاننگ کمیشن کو بھی اسی طرح کے اعتراضات ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ سال آنے والے سیلابی ریلے کا خاص طور پر ذکر ہوتا ہے۔گزشتہ اگست میں بھارت میں شدید بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں 10 سے 14 اگست کے درمیان بھارت سے پانی کا بہت بڑا ریلہ دریائے ستلج میں داخل ہوا جس سے دو ڈیموں دریائے ستلج پر تعمیر ہونے والا ہکاڑا ڈیم اور دریائے بیاس پر تعمیر ہونے والا پونج ڈیم میں پانی کا لیول خطرے کے تمام نشانات کو عبور کرگیا اور ان ڈیموں سے 80 ہزار سے ایک لاکھ کیوسک پانی سرحد عبورکرکے پاکستانی علاقے میں داخل ہوا، جس کی وجہ سے قصور اور اوکاڑہ سے لے کر پاک پتن، لودھراں، بہاولنگر، وہاڑی اور بہاولپور تک کے علاقوں میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔

ماہرین نے ستلج، بیاس اور راوی کے اخراج سے ہونے والے پانی کے اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دریائے سندھ میں پانی کی مقدار بتدریج کم ہو رہی ہے۔ ماہرین نے اس خدشے کا اظہارکیا ہے کہ اگر چولستان کینال کا منصوبہ فعال ہوگا تو دریائے سندھ میں پانی کی سطح اس حد تک گر سکتی ہے کہ دریا میں ہر طرف ریت کے ٹیلوں کا جال بن جائے جس کے نتیجے میں انڈس ڈیلٹا میں پانی کی کمی کراچی تک کے علاقے کو متاثر کرے گی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی سے نہ صرف Indus Delta Ecosystem شدید متاثر ہوگا بلکہ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دریائے سندھ میں ہر سال ہونے والی پانی کی کمی کا سب سے پہلا اثرکوٹری بیراج پر پڑے گا۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پانی کی کمی کی بناء پر دریائے سندھ میں ریت کی سطح بڑھ رہی ہے مگر کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ دریائے سندھ میں ریت کی سطح بڑھنے کی ایک وجہ پانی کی کمی ہے۔

 پانی کا مسئلہ پاکستان بننے کے ساتھ پیدا نہیں ہوا تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب انگریز دور میں نہری نظام قائم ہوا تو دریائے سندھ میں پانی کی کمی کا مسئلہ شروع ہوا تھا۔ جب سندھ بمبئی میں شامل تھا تو بمبئی کی حکومت کے گورنر جنرل سے درخواست کی تھی کہ پنجاب سے سندھ سے آنے والے پانی کی مقدارکم ہوگئی ہے، اس بناء پر دہلی کی حکومت سندھ کا پانی دلوانے کے لیے فوری احکامات جاری کرے۔

 پاکستان بننے کے بعد اس مسئلے نے ایک نئی شکل اختیار کر لی۔ 1955میں سندھ، سرحد، بلوچستان اور پنجاب کو ضم کرکے ایک صوبہ مغربی پاکستان قائم کیا گیا تو دارالحکومت لاہور بنایا گیا۔ ون یونٹ کے دور میں پانی کا محکمہ بھی لاہور منتقل ہوا۔ اس کے ساتھ واپڈا کے ادارے کی طاقت بڑھ گئی۔ ایوب خان نے دریائے سندھ پر دو ڈیم منگلا اور تربیلا تعمیرکیے۔

ایوب خان کی حکومت نے 1960میں بھارت سے سندھ طاس منصوبہ پر دستخط کیے، یوں جو دریا پاکستان کے حصہ میں آئے ان پر ڈیموں کی تعمیر سے سندھ کا پانی کم ہوگیا۔ جب میاں نواز شریف پہلی دفعہ وزیر اعظم بنے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق نے پنجاب، پختون خوا اور بلوچستان کے ساتھ پانی کے لیے فارمولے پر دستخط کیے یہ ’’ارسا‘‘ ایکٹ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے سے سندھ کو وافر مقدار میں پانی ملنے لگا۔

 سول سوسائٹی کے اراکین کا کہنا ہے کہ چولستان کینال منصوبے پر عمل درآمد ہوا تو کراچی کو پانی کی فراہمی متاثر ہوگی۔ کراچی شہر جہاں پہلے ہی پانی کا بحران ہے، اس میں مزید شدت آئے گی۔ جب بحیرۂ عرب میں دریا کا پانی وافر مقدار میں نہیں جائے گا تو سمندری مخلوق مرجائے گی اور ہزاروں میل پر پھیلے ہوئے ساحل پر سمندرکا پانی قبضہ کر لے گا جس سے نہ صرف لاکھوں افراد متاثر ہونگے بلکہ پورا علاقہ خشک سالی کا شکار ہوجائے گا۔

 صدر آصف علی زرداری کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور ایسا فارمولہ تیار ہونا چاہیے کہ چولستان کے صحرائی لوگ بھی پیاسے نہ رہیں اور سندھ بھی اس سے متاثر نہ ہو۔

Load Next Story