باکو کانفرنس اور موسمیاتی چیلنجز
حکام نہایت ہی خوش ہیں شاداں و فرحاں ہیں، مطمئن ہیں، شکر بھی ادا کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ’’پاکستان نے آئی ایم ایف کو منا لیا‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ چند ہفتوں کی بات ہے جب یہ غلغلہ مچ رہا تھا کہ وہ آئیں گے، منی بجٹ کا کہیں گے تو حکام ایک تازہ تازہ جیسے عوام پر تازیانے کی طرح کا منی بجٹ لے کر آئیں گے۔ ہم تو پہلے ہی ستم زدہ ہیں، دل گرفتہ ہیں نہ فریاد کی شنوائی ہے نہ کوئی سنتا ہماری دہائی ہے۔
دہائی ہے الامان الحفیظ! یہ ہر ماہ بجلی کے گرتے ہوئے بم۔ اب تو گیس کے بلوں نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ پہلے شاید گزشتہ سال تک چند سو روپے میں گیس کا بل جس سے اس کا منہ بند کردیتے تھے۔ اب تو بجلی کی اونچی اڑان دیکھ کر ہزاروں روپے کا گیس کا بل آتا ہے جسے طوعاً وکرہاً ادا کردیا جاتا ہے لیکن اگلے ماہ پھر مزید بڑھ کر بل آ رہے ہیں، بس یوں سمجھیں کہ عوام کا گریبان پکڑ لیا ہے اور حکام نے بھی نظریں پھیر لی ہیں لیکن یقین جانیے ہمارے حکام اپنی شبانہ روز محنت شاقہ اور نہ جانے کس کس طرح سے ان کو راضی کر کے آئی ایم ایف کو منا لیا کہ اب منی بجٹ نہیں آئے گا لیکن ہوشیار باش! خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے کیونکہ کچھ معلوم نہیں دو ماہ بعد پھر آ جائیں۔
ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جاتے جاتے کوئی اور سخت بات کہہ جائیں۔ فی الحال عوام کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بھی نہ لگایا جائے گا۔ آئی ایم ایف ہو یا عالمی بینک یا دیگر ایسے عالمی مالیاتی امور سے متعلق ادارے وغیرہ یہ سب زیادہ تر صنعتی ممالک پر ہی مہربان ہوتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک خاص طور پر پاکستان کے لیے شکنجے تیار کرتے رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو قرض دیے جاتے ہیں جن پر سود لیا جاتا ہے اور بہت سے ترقی پذیر ممالک اپنی غربت کو دور کرنے کی خاطر قرض اور وہ بھی سخت شرائط پر لینے پر مجبور ہوتے ہیں، جس کا ایک ہی حل ہے کہ ان ملکوں کو اس طرح شرائط سے بھرپور قرض دینے کے بجائے ان کے مسائل حل کرنے کی خاطر غیر مشروط بلا سود قرض فراہم کیے جائیں۔
اس وقت دنیا کو موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کھربوں ڈالرکی ضرورت ہے۔ خاص طور پر پاکستان جوکہ موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ملک ہے، اس سال موسم گرما نے کراچی میں اپنی رہائش پکی کر لی ہے۔ ماہ مارچ سے گرمی کا آغاز ہوا جوکہ اب تک جاری ہے۔ غالباً ماہ دسمبر بھی گرم ہوگا۔ شہر میں جگہ جگہ درخت کٹتے چلے جا رہے ہیں، نہ درخت لگائے جا رہے ہیں نہ پودے لگائے جا رہے ہیں کہ وہ آگے چل کر تناور درخت بن جائیں۔وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 6.8 ٹریلین ڈالر درکار ہیں۔گزشتہ دنوں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز کانفرنس منعقد ہوئی۔ کوپ 29 سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو 2030 تک 6 ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے اجلاس کو بتایا کہ ماضی قریب میں پاکستان کو دو تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان دونوں سیلابوں کے تباہ کن اثرات سے اب تک باہر نہ نکل سکے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 2022 کے سیلاب سے 30 ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ اس موقع پر دنیا کے بہت سے ملکوں نے پاکستان کے لیے امداد کا وعدہ کیا جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بذات خود وزیر اعظم پاکستان کے ہمراہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔
لاکھوں افراد کو پانی میں گھرے ہوئے دیکھا اور اس موقع پر انھوں نے دنیا سے اپیل بھی کی تھی کہ وہ پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئیں، لیکن بعض ذرایع کا کہنا ہے کہ صرف 16 کروڑ ڈالرکی امداد مل سکی۔ پاکستان ہندوستان کی طرف سے اچانک ہی دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے کے سبب بھی سیلاب کی لپیٹ میں آ جاتا ہے جس سے بچنے کا علاج 76 برسوں میں بھی ہم نہ کرسکے۔
ان دنوں پورے پنجاب میں اسموگ کا زور ہے۔ پورے صوبے کو بارش کی اشد ضرورت ہے۔ جمعہ کو نماز استسقا کی ادائیگی سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا جس سے امید ہے کہ اسموگ کا یہ روگ ہماری جان چھوڑ دے گا، لیکن آبی دہشت گردی کی طرح یہ ہوائی دہشت گردی بھی ہندوستان کے صوبے جوکہ پنجاب سے ملحق ہیں ان کی طرف سے یہ فضائی آلودگی پاکستان وارد ہوئی ہے، جس کے بارے میں ہندوستان کو پاکستان کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔
بھارت نے تو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ساتھ پلانٹڈ ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ کی میزبانی میں پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ اس سلسلے میں نواز شریف ایک کوشش کر دیکھیں اور بھارت کو آگاہ کریں کہ آج کے دوررس کھیل کی بڑی اہمیت ہے ۔
کھیل کھیل ہوتا ہے اسے سیاست میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ کھیل کو کھیل کے میدان میں کھیلنا ہی سیاسی پختگی کو ظاہرکرتا ہے۔ نواز شریف پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور ایک پاکستانی رہنما ہیں، لہٰذا ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ بھارت سے درخواست کی جائے بلکہ بھارت کو کھیل کی اہمیت اور کھلاڑیوں کی پاکستان آمد کے مفید اثرات کو واضح کرسکتے ہیں۔