’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘؛ آنکھوں دیکھا حال

فیسٹیول میں خواجہ سرا کمیونٹی کا مثبت چہرہ سامنے لانے کےلیے بہترین کوشش کی گئی

گزشتہ ہفتہ (9 نومبر) کی سہ پہر قائداعظم ہاؤس کے سامنے ایک الگ قسم کی ہلچل اور گہماگہمی تھی۔ درجنوں افراد اپنی شناخت پر نازاں اور خود کو منوانے کےلیے ریلی کی صورت قائداعظم ہاؤس سے فیریئر ہال کی جانب رواں دواں تھے۔ یہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے کارکنان نہیں تھے بلکہ شہر قائد کے باسی ایک الگ ہی قسم کے اجتماع کو دیکھ رہے تھے۔

ہاں یہ تو معاشرے کے وہی ٹھکرائے ہوئے، کچلے ہوئے لوگ تھے جنھیں زندگی کے ہر مرحلے پر تضحیک اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لوگوں نے انھیں ایک عجوبہ اور کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ لیکن آج یہی ٹھکرائے ہوئے لوگ اپنی اصل شناخت کے ساتھ شہر قائد کے مرکزی راستوں پر فخر سے سر اٹھائے اور نعرے لگاتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور وہ اپنی دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ یہ باور کروا رہے تھے کہ معاشرہ ان کے ساتھ کتنی ہی بے حسی کا مظاہرہ کرے لیکن وہ اپنی مثبت سوچ اور معاشرے کے دیگر افراد کی طرح اپنی صلاحیتوں سے بالآخر معاشرے میں خود کو منوا کر رہیں گے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: اپنی شناخت کےلیے سرگرداں خواجہ سرا کمیونٹی کا ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘

جی ہاں یہ ٹھکرائے ہوئے لوگ کوئی اور نہیں بلکہ تیسری جنس کے نمائندے تھے، جنھیں معاشرے میں مختلف تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن آج وہ ان ہی ناموں کو اپنی شناخت بنائے ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘ منا رہے تھے۔ خواجہ سراؤں کےلیے شہر قائد میں اس جشن کا اہتمام اس کمیونٹی سے متعلقہ مختلف این جی اوز اور اداروں کی سربراہی میں ہورہا تھا لیکن سب سے آگے ٹرانس جینڈرز کے حقوق کےلیے کوشاں ’’سب رنگ سوسائٹی‘‘ تھی، جس کی روح رواں کامی چوہدری اور پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل نے اس فیسٹیول کے بہترین انتظامات اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے۔ فیسٹیول کی صدر حنا پٹھانی اور ٹرانس سماجی رہنما بندیا رعنا بھی ساتھ تھیں۔

شہر قائد میں یہ دوسرا موقع تھا جب ہیجڑا فیسٹیول منعقد کیا جارہا تھا۔ گزشتہ سال بھی ٹرانس جینڈرز نے پہلی بار اپنی شناخت اور حقوق کے لیے کراچی پریس کلب میں اس فیسٹیول کا انعقاد کیا تھا اور اس سال قائداعظم ہاؤس سے فیریئر ہال تک ریلی نکالنے کے ساتھ فیریئر ہال میں ہی ایک زبردست فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا تھا۔ قائداعظم ہاؤس سے جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو عام شہری حیرانی سے انھیں دیکھ رہے تھے۔ کچھ آنکھوں میں یقیناً اب بھی ناپسندیدگی اور حقارت کے تاثرات تھے، لیکن شاید ہمارا معاشرہ اب معتدل مزاج ہوتا جارہا ہے، کیونکہ اکثریت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو اس طبقے کو بھی اب اپنی طرح ہی انسان سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ خواجہ سراؤں کی خوشی میں خوش تھے اور اپنی مسکراہٹوں سے ان کی پذیرائی کررہے تھے۔

اپنے مخصوص نعروں اور ناچتے گاتے ہوئے جب یہ قافلہ فیریئر ہال پہنچا تو معاشرے کے دیگر افراد بھی ان کے ساتھ شامل ہوچکے تھے۔ فیریئر ہال کے ایک کونے میں ایک بڑا پنڈال لگایا گیا تھا، جہاں اسٹیج کے ساتھ شرکا کو باعزت طریقے سے بٹھانے کےلیے کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ قنات کے ساتھ مختلف اسٹالز بھی لگائے گئے تھے جن میں مختلف مصنوعات اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کی جارہی تھیں۔ پنڈال میں صرف خواجہ سرا کمیونٹی ہی نہیں تھی بلکہ مختلف فیملیز بھی آئی ہوئی تھیں۔ اور یہی پیغام تو فیسٹیول سے پہلے کامی چوہدری اور ڈاکٹر سارہ گل ہر پلیٹ فارم پر دیتے آئی تھیں کہ ہم آپ کی ہر خوشی میں شامل ہوتے ہیں، آیئے اس فیسٹیول میں آپ ہمارے ساتھ ہماری خوشی میں شامل ہویئے۔ اس فیسٹیول کا ایجنڈا بھی روایتی طور پر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ہی نہیں تھا بلکہ یہ کمیونٹی کے لوگوں کو شہر کے بیچ ایک ایسا مقام فراہم کرنا تھا جہاں وہ بھی اپنے لیے خوشی کا ایک تہوار مناسکیں۔ اور یقیناً خواجہ سرا کمیونٹی اپنے اس فیسٹیول کے انعقاد میں کامیاب ٹھہری تھی کیونکہ نہ صرف کمیونٹی بلکہ معاشرے کے دیگر افراد بھی اس خوشی میں برابر کے شریک تھے اور پروگرام سے محظوظ ہورہے تھے۔

اسٹیج پر ڈاکٹر سارہ گل کی چہکتی ہوئی آواز حاضرین کو مستقل جوش دلا رہی تھی۔ اس جشن میں مختلف پروگرام رکھے گئے تھے۔ پروگرام کی ابتدا میں ہی روحیلہ عرف سینوریٹا نے ’’مست قلندر‘‘ پر اپنے دھمال سے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ پروگرام میں خواجہ سرا کمیونٹی کے کئی نامور فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ استاد غلام نے سندھ کے لوک گیتوں پر اور تھر کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی بہترین پرفارمنس سے شرکا کے دل جیت لیے۔ مختلف ٹیبلوز اور ڈراموں کے ذریعے خواجہ سرا کمیونٹی کو معاشرے میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل سے آگاہ کیا گیا۔ کلاسیکل رقص سے شرکا کو لبھایا گیا اور کمیونٹی کے سرکردہ افراد نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے بعد جو مقام حاصل کیا ہے ان سے عام لوگوں کو روشناس کرایا گیا۔

فیسٹیول میں خواجہ سرا کمیونٹی کا مثبت چہرہ سامنے لانے کےلیے بہترین کوشش کی گئی۔ اس پروگرام میں ان تمام خواجہ سراؤں نے بھی شرکت کی جو تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور فنوں لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کی خدمت کررہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

Load Next Story