سیکیورٹی جائزہ، نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس آج ہو گا
نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کا اجلاس آج منگل کو ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف اجلاس کی صدارت کریں گے۔
اجلاس میں ملکی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی آئی ایس آئی، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان، تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اہم وفاقی وزرا سمیت اعلیٰ سول اور عسکری قیادت شریک ہوگی۔
اجلاس میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر کے تناظر میں سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔
اعلیٰ حکام امن و امان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے اور اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ کس طرح وفاقی اور صوبائی حکام کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کے طریقہ کار کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر نئی کثیر جہتی انسداد دہشت گردی کی ملک گیر مہم ’’ آپریشن عزم استحکام‘‘ کے تحت سکیورٹی کی بگڑی صورت حال سے نمٹنے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
حیرت انگیز طور پر یہ اجلاس 24 نومبر سے اسلام آباد میں شروع ہونے والے PTIکے اعلان کردہ احتجاج اور کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے خودکش دھماکے سے عین قبل منعقد کیا جا رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اپیکس کمیٹی کا اجلاس پیر کو ہونا تھا لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کی طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اسے دوبارہ شیڈول کر دیا گیا۔
پیشرفت سے واقف کچھ عہدیداروں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم بہتر محسوس کرتے ہیں تو میٹنگ منگل کو ہونے کا امکان ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ پیر کی شام تک بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور انہوں نے معاشی امور پر بھی اجلاس بھی کیا ہے۔
پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2024 کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ان حملوں میں عام شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت 757 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مرکوز ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 کی تیسری سہ ماہی میں گزشتہ ادوار کے مقابلے تشدد میں 90 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
2021 میں افغانستان میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 97 فیصد ہلاکتیں کے پی اور بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ 92 فیصد واقعات انہیں دونوں صوبوں میں ہوئے۔