پی وی ڈی پی: شجرکاری اور خوشحالی کےلیے کوشاں
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمیٹ چینج) اب پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے، جس کےلیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب پاکستان اقوامِ متحدہ کے وضع کردہ پائیدار ترقی کے اہداف (سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز) سے بھی دور ہے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شہری افراد اپنے روزگار کےلیے دکان یا دفتر جاتے ہیں لیکن دیہات میں رہنے والی 70 فیصد آبادی براہِ راست اپنے ماحول یعنی دریا، کھیت یا سبزے میں جاکر اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب ہو یا خشک سالی، یہی لوگ شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں تنویر عارف ڈومینک اسٹیفن تھرپارکر میں گزشتہ تین عشروں سے ماحولیاتی، سماجی اور معاشرتی بہتری کےلیے سرگرم عمل ہیں۔ دونوں ماہرین مختلف تنظیموں اور پروگرامز کی کامیابی کے بعد اب پارٹیسپیٹری ولیج ڈیولپمنٹ پروگرام (پی وی ڈی پی) سے وابستہ ہیں جو تھرپارکر کے دوردراز علاقوں میں بسنے والے پسماندہ افراد کی زندگی بہتر بنانے کےلیے کوشاں ہے۔
زمین کو ٹھنڈا کرو
پی وی ڈی پی نے اب ’’ارض کو سرد کرو‘‘ (کول دی ارتھ) نامی پروگرام کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس کا مقصد ایک جانب تو بڑے پیمانے پر شجرکاری کو فروغ دے کر غربت میں کمی اور ماحول کو بہتر بنانا ہے تو دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے بڑے اہداف حاصل کرنا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ تنظیم اس سے قبل سندھ کے دیہاتوں میں کئی اہم کام کرچکی ہے جن کا تعلق صاف پانی کی فراہمی، زراعت، غربت کے خاتمے، صحت و صفائی اور روزگار جیسے پروگرام شامل ہیں۔ اس کی ایک مثال جھڈو میں مویشیوں کی ویکسین کا چوتھا مرحلہ بھی ہے جسے حال ہی میں ادارے نے کامیابی سے مکمل کیا ہے۔
14 نومبر کو کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں ’’کول دی ارتھ‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے تنویر عارف نے بتایا کہ وہ کارپوریٹ، شہریوں اور عام افراد کے تعاون سے سماجی شرکت سے تھرپارکر میں شجرکاری کا مشن شروع کرچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں پی وی ڈی پی ہر طرح کا تعاون کرتی ہے جن میں مقامی بہتر درخت کی فراہمی اور تکنیکی معاونت شامل ہے۔ یوں پاکستان کو سرسبز و شاداب بنانے میں یہ پروگرام ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس سادہ لیکن انتہائی قابلِ عمل منصوبے کے تحت مثلاً ایک گھرانہ یا دیہات درختوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، جس کا دورانیہ تین برس تک ہوسکتا ہے۔ اس کےلیے انہیں مالی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس طرح ایک جانب شجرکاری اور دوسری جانب انتہائی غریب عوام کو مالی مدد میسر آتی ہے۔
اس طرح پاکستان میں مختلف فیکٹریاں اور ادارے اپنی سماجی ذمے داریوں یا سی ایس آر کے تحت اس اہم پروگرام میں شامل ہوکر شجرکاری میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پی وی ڈی پی ان کے لگائے گئے اشجار کی جی پی ایس نشاندہی، تصاویر اور تازہ صورتحال سے اگاہ کرے گی، جبکہ اس کے تکنیکی ماہرین، کاربن آف سیٹ سرٹیفکیٹ بھی جاری کریں گے جس کے تحت یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ درختوں کی فلاں تعداد سے ماحول کی بہتری، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے۔ سائنسی بنیادوں پر تیار کیا گیا یہ سرٹیفکیٹ بعد میں مختلف امور کےلیے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ خواہ ایک درخت ہو یا ایک لاکھ، ان کی افزائش کےلیے رقم عطیہ کرنے والے افراد اور ادارے پورے مرحلے کو انتہائی شفافیت سے دیکھ سکتے ہیں۔
مرحلہ وار کول دی ارتھ پروگرام کا اطلاق پورے صوبہ سندھ میں کیا جائے گا جن میں مخلتف کارپوریٹ، عام افراد، طلبا و طالبات اور حکومت سندھ کے مجاز ادارے اور سب سے بڑھ کر مقامی افراد کو شامل کیا جائے گا۔
اس اہم تقریب میں پی وی ڈی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈومینک اسٹیفن، سندھ ایرڈ زون ریسرچ سینٹر کے ڈاکٹر عطا اللہ خان، پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے ڈاکٹر ذاکر حسین ڈاہری، اینگرو فاؤنڈیشن سے وابستہ فواد سومرو، نیشنل فورم آف انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ سے وابستہ نعیم قریشی، نے اپنےتجربات بیان کیے اور پائیدار ترقی کے ضمن میں قابل قدر و قابل عمل آرا سے نوازا۔
سامعین میں صحافت، جامعات، تحقیقی اداروں، شجرکاری کے ماہرین اور دیگر افراد نے سوالات کے ذریعے اپنی اہم رائے سے نوازا اور قیمتی تجاویز بھی دیں۔ اس موقع پر تنویر عارف نے بتایا کہ شجرکاری کے اہم کام میں دلچسپی لینے والے افراد اور ادارے ان کی ویب سائٹ سے نہ صرف اہم معلومات حاصل کرسکتے ہیں بلکہ آن لائن رہتے ہوئے شجرکاری کے مشن میں اپنا عملی کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔