بلوچستان میں امن، وقت کی اہم ضرورت
نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع آپریشن کی منظوری دیدی۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق دہشت گرد تنظیمیں بیرونی دشمن طاقتوں کے ایما پر عدم تحفظ پیدا کر کے پاکستان کی معاشی ترقی متاثر کرنے کے لیے معصوم شہریوں اور غیرملکیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ وزیراعظم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت کی کہ تمام مجوزہ اقدامات کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھائیں اور ان پر بروقت عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
بلوچستان ہمیشہ ہر حکومت کی اولین ترجیح رہا ہے اور بلوچ عوام کے حقیقی تحفظات کو دور کرنے کے لیے ہر موقعے پر مخلصانہ کوششیں کی گئی ہیں، کوششوں کی تفصیلات سب کے علم میں ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلوچستان کے امن و استحکام کی طرف اہم پیش رفت اگلے ایک جامع آپریشن کی منظوری کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے یعنی یہ واضح ہوچکا ہے کہ پاکستان کی قیادت کبھی بلوچستان کی علیحدگی کے مطالبے پر کان نہیں دھرے گی۔
حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں دہشت گردی کے حملے بڑھے ہیں، ان حملوں میں سیکیورٹی چیک پوسٹوں، فوجی قافلوں اور کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خاص طور پر سی پیک منصوبے سے وابستہ لوگوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، یہ حملے نہ صرف صوبے کی صورتحال کو غیر مستحکم کر رہے ہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ ہماری سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کیے ہیں، جن میں کئی خوارج کو ہلاک کیا گیا ہے، لیکن امن و امان کی مکمل بحالی ابھیتک ایک بڑا چیلنج ہے، لہٰذا اس تناظر میں موجودہ فیصلہ صائب ہے۔
بلوچستان کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں غربت اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ قدرتی وسائل جیسے کہ گیس، معدنیات اور سمندری وسائل کے باوجود، مقامی آبادی کو ان کے فوائد کم ہی ملتے ہیں، بلوچستان کی سماجی بناوٹ میں قبائلی نظام کا گہرا اثر ہے۔ بلوچ، پشتون اور دیگر نسلی گروہوں کے درمیان تقسیم موجود ہے، جو بعض اوقات سیاسی اور سماجی تنازعات کا باعث بنتی ہے۔
بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہی ہے، حالیہ دہشت گردی کی لہر نے اس صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں قوم پرست گروہوں کے ساتھ ساتھ طالبان اور داعش جیسے شدت پسند گروہ بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بس کے مسافروں کے قتل کے واقعات ایک سنگین مسئلہ ہیں، جو نہ صرف انسانی زندگی کے ضیاع کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ امن و امان کی صورتحال کی خرابی کو بھی عیاں کرتے ہیں، ایسے واقعات عام طور پر دہشت گردی، فرقہ واریت، یا قوم پرستی کے پس منظر میں ہوتے ہیں۔
ان میں دہشت گردی کے واقعات شامل ہوتے ہیں، جہاں دہشت گرد تنظیمیں بسوں کو نشانہ بناتی ہیں تاکہ خوف و ہراس پھیلایا جا سکے اور مقامی لوگوں یا حکومت کو چیلنج کیا جا سکے۔ بعض اوقات فرقہ وارانہ یا نسلی اختلافات کی بنا پر بھی بس کے مسافروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جہاں حملہ آور مخصوص فرقے یا قوم کو ہدف بناتے ہیں۔ بلوچستان میں بسوں کے مسافروں کے قتل کے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام متعلقہ اداروں، مقامی کمیونٹی، اور حکومت کو مشترکہ طور پر کام کرنا ہو گا تاکہ امن و امان کی بحالی اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
بلوچستان میں امن و امان کی عمومی خرابی کی وجہ سے دہشت گرد گروہ زیادہ آزادانہ حرکت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عام شہری بھی متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت اب اس سلسلے میں موجودہ حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی اور مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں کام کر رہی ہے ۔ بلوچستان میں بد امنی اور مسلح علیحدگی پسند تنظیموں کے حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان حملوں کی زد میں اب سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور چینی شہریوں کے علاوہ عام شہری بھی آنے لگے ہیں جب کہ ان حملوں کا دائرہ کار اب بلوچستان سے نکل کر پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی پھیلتا نظر آتا ہے۔
گزشتہ برس بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ دیکھا گیا گو کہ اِس سال کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن یہ حالیہ کارروائی بدترین مانی جا رہی ہے۔ آج سے دس سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کے ذمے دار یہ تینوں گروہ ہیں۔ ابھی اِسی مہینے بلوچستان کے علاقے دکی میں مقامی کوئلے کی کانوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا تھا جس میں 21 کان کن شہید جب کہ سات زخمی ہو گئے تھے۔
حالیہ حملے کی ذمے داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے، کراچی میں چینی باشندوں پر حملے میں بھی یہی جماعت ملوث تھی، اسے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا تھا، لیکن ایک بار پھر دہشت گردی نے زور پکڑ لیا۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے، اب تو دہشت گرد سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں، حکومت معاشی حالات میں بہتری لانے کی کوشش کر رہی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کھینچنے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہے لیکن اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔
ملک میں آپریشن عزم استحکام جاری ہے، دہشت گردی کے جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے لیے سب کو مل کر کھڑے ہونا ہوگا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کی ضرورت ہے تاکہ امن قائم کیا جا سکے۔ موجودہ بین الاقوامی سیاسی منظر نامے کے پیش نظر بلوچستان کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ امریکا کا افغانستان کو چھوڑنے اور افغان طالبان کو ملک پر حکومت کرنے کے طور پر چھوڑنے کا بظاہر شکست خوردہ فیصلہ، کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مسابقتی طاقتوں کو دھوکا دینے کے لیے ایک دانستہ چال تھی، جس سے اس خطے میں اس کی دخل اندازی کم دکھائی دے اور وہ خفیہ انداز میں گوادر بندرگاہ کے ذریعے چین کو ہمالیہ کو عبور کرنے اور مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی کے منصوبے کو روکا جا سکے۔ بلوچستان کے معاملات میں بیرونی مداخلتوں کا حقیقی اور دیرپا حل حکومت پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
طاقت کے بھرپور استعمال کا فیصلہ کرنے سے پہلے گہرائی اور خلوص سے صورتحال کا مطالعہ کرے۔ اول، سب سے پہلے بلوچستان کو باقی صوبوں کے برابر لانے کے لیے تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر کرنا ہوگا۔ دوم، معاشی اور سماجی تفاوتوں اور سرداروں، نوابوں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کی جانب سے ناقابل تسخیر اختیارات کے بے دریغ اور بے جا استعمال کو ختم کرنا ہوگا اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنانا ہوگا۔ سوم، مقامی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی اور منافع بشمول قدرتی معدنیات کے ذخائر اور دیگر وسائل کو صوبے کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کرنا ہو گا۔ چوتھا، روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور تربیت اور بھرتی کے لیے مقامی لوگوں کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
پانچ، صوبے میں حق رائے دہی سے محروم طبقے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ شہری اور سیاسی زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ان کی اہمیت کا احساس ہو سکے۔ مقامی اور قومی حکومت دونوں کے انتخابی نظام میں اصلاحات کو ترجیحی طور پر انجام دیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان مردوں اور عورتوں کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں اپنے مقامی معاملات کو چلانے اور انتظام کو فعال کرنے پر اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔ تخریبی سرگرمیوں میں ملوث بیرونی اور اندرونی عناصر کے حربوں مقابلہ معتبر، پائیدار اور پرکشش سماجی، سیاسی اصلاحات سے بلوچستان میں امن کی بحالی کو بہت آگے لے جا سکتی ہے ۔ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی اس کے قدرتی وسائل کی ترقی اور سی پیک سے جڑی ہوئی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ CPEC اقتصادی بااختیار بنانے کا سفر وقت کی ضرورت ہے۔ اس کی ترقی سے علاقائی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ بظاہر سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی منصوبہ ہے لیکن حقیقی معنوں میں یہ نہ صرف وسطی ایشیائی ممالک بلکہ دنیا کے 60 ممالک کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ بلاشبہ بلوچ نوجوان اپنی قابل ذکر سرزمین کو استحکام اور ترقی کی روشنی میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اس کی اجتماعی کوشش نہ صرف مخالفین کے عزائم کو ناکام بنائے گی بلکہ بلوچستان اور پاکستان کے تمام باسیوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی راہ بھی ہموار کرے گی۔ آج بھی سانحہ اے پی ایس کے بعد والے جذبے کی ضرورت ہے، جب تمام سیاسی و عسکری قیادت متحد ہوکر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جُت گئی تھی، سب کو مل کر عزم کرنا ہو گا کہ ملک میں امن قائم کریں گے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ہر انسانی جان قیمتی ہے اور اس کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے، دہشت گردی کے خلاف ہر صورت زیرو ٹالرینس پالیسی ہی ہونی چاہیے۔