دنیا میں تازہ پانی کے ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی کا انکشاف
امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ دنیا کے تازہ پانی کے اہم ذخائر میں گزشتہ دہائی سے اچانک کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔
دنیا بھر میں اربوں لوگ پینے اور توانائی بنانے کے لیے تازہ پانی کے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر 70 فی صد پانی ذراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کم از کم 10 فی صد جانور تازہ پانی کے ماحول میں زندہ رہتے ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل سائنس دانوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومت مؤثر اقدامات نہ کر سکیں تو پانی کے ذرائع میں کمی 2050 تک ان ماحول کی مستقبل کی آبادی میں نصف حد تک کمی لے آئے گی۔
تازہ پانی میں واقع ہونے والی کمی اس جانب اشارہ ہیں کہ زمین کے برِاعظم ایک مسلسل خشک دور میں داخل ہو چکے ہیں۔
سائنس دانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ناسا-جرمن گریویٹی ریکوری اینڈ کلائمیٹ ایکسپیریمنٹ سیٹلائیٹس کا استعمال کرتے ہوئے اس کمی کی نشان دہی کی۔
مشاہدات سے جمع ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں مئی 2014 میں اچانک کمی کے شواہد ملے۔ 2015 سے گزشتہ برس تک کی پیمائشوں سے یہ بات سامنے آئی کہ زمین پر تازہ پانی کی اوسط مقدار 2002 سے 2014 کے درمیان اوسط مقدار سے 290 مکعب میل کم تھی۔
ناسا گوڈرڈ میٹرولوجسٹ مائیکل بوزیلووچ کا کہنا تھا کہ آسمان سے شدید مقدار میں پانی آنے (بارش یا برفباری کی صورت) کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ پانی جذب ہونے اور زیر زمین پانی کا ذخیرہ بڑھانے کے بجائے، بہہ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گرم ہوتا درجہ حرارت پانی کو سطح سے بھانپ بنا کر اڑانے اور ایٹماسفیئر کے پانی کو رکھنے کی صلاحیت دونوں کو بڑھا دیتا ہے جو کہ خشک سالی کی شدت اور توات میں اضافہ کرتے ہیں۔