معاشی ترقی کے مثبت اشارئیے
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ایک سال پہلے چھائے ہوئے مایوسی کے بادل آج چھٹ چکے ہیں، صرف پاکستانی ہی پاکستان کو ’’بیل آؤٹ ‘‘ کے ذریعے معاشی استحکام لاسکتے ہیں۔ کراچی میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے مزید کہا کہ آج پاکستان کی معیشت کے تمام اشارئیے مثبت ہیں، مایوسی پھیلانے اور ڈیفالٹ کی باتیں کرنے والے لوگ آج کدھر ہیں؟ کیا ان کو جواب دہ نہیں ٹھہرانا چاہیے؟
جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں کمان سنبھالنے کے بعد سے پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کے لیے کوشاں ہیں، انھوں نے بزنس کمیونٹی کے سامنے جن صائب خیالات کا اظہارکیا ہے وہ لائق تحسین ہیں، درحقیقت یہ ڈاکٹرائن ایک ایسے وقت میں آیا، جب پاکستان کی معیشت ایسی گراؤٹ سے دوچار تھی جو رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ روپے کی قدرمیں آزادانہ کمی اورکمر توڑ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوچکا تھا کہ معیشت کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ یہی کہا جا رہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹر ہوجائے گا اور اندرونی کچھ قوتیں یہ چاہتی بھی تھیں کہ ملک ڈیفالٹر ہوجائے، لیکن آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے قوم کو امید دلائی اور واضح کیا تھا کہ انشاء اللہ پاکستان کو دنیا میں اس کا جائز مقام بھی ملے گا اور پاکستان اپنے جغرافیائی اور قدرتی وسائل کے باعث کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا، بلکہ مایوسی گناہ ہے اور پاکستان کا مستقبل بہت شاندار ہے۔ ان کے عزم و حوصلے کے باعث ہی ملک میں تمام طرح کی منفی قوتوں کو اب تک بدترین شکست ہوئی ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک میں سرمایہ کاری کے لیے ایپکس کمیٹیاں تشکیل دے کر اہم ترین فیصلوں میں وفاقی و صوبائی حکومت کی سطح پر سول ملٹری قیادت کے مشترکہ فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا، اقتصادی بحالی کی اشد ضرورت کے تحت تشکیل دی گئی کونسل کی نئی باڈی کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے اور توازن قائم کرتے ہوئے افسر شاہی کی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کو اقتصادی بحالی کے لیے نہایت اہم قرار دیا گیا ہے، اس کونسل کا ہدف ہے کہ ایسی تمام رکاوٹیں جو غیر ملکی سرمایہ کاری کے پاکستان آنے کی راہ میں حائل ہیں انھیں ختم کیا جائے، بلڈوزکردیا جائے اور نظر انداز کیا جائے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اقدام کے تحت بیرون ملک سے آنے والی 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور غیر ملکی ذخائر پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
بلاشبہ پاکستان بہت مختصر وقت میں نہ صرف ڈیفالٹ کے خطرات سے باہر آگیا بلکہ اب دنیا بھر سے پاکستان میں سرمایہ کاری آرہی ہے اور دنیا کے نامورکاروباری گروپ پاکستان میں دل کھول کر سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں۔ اب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اطمینان بخش سطح تک پہنچ چکے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مارک اپ کی شرح بائیس فی صد سے کم ہوکر اب پندرہ فی صد پرآگئی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ دسمبر تک اس میں بتدریج مناسب حد تک کمی ہوگی، جس سے کاروباری سرگرمیوں میں یقینی طور پر اضافہ ہوتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
آئی ٹی کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا، ترسیلات زر میں بھی بہتری آرہی ہے، ملک میں استحکام آہستہ آہستہ آتا ہے، اندرونی سرمایہ کار ملک میں انویسٹ کرتے ہیں تو بیرونی سرمایہ کاروں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث معیشت خطرناک زون سے نکل آئی ہے اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری بارے اعلانات اور اقدامات جاری ہیں، اس عمل میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیرکی کوششیں بھی شامل ہیں جنھوں نے مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطرکو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے 25 ستمبر کو 37 ماہ کے دوران سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری پر اتفاق کیا۔
پاکستان گزشتہ چھ ماہ سے معیشت کی تشکیلِ نو کے وعدے کے بدلے میں قرض کی یہ پیشکش حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش کر رہا تھا۔ آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری ایک اضافی فائدہ فراہم کرتی ہے، اس سے پاکستان کے لیے دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور یورپی ممالک سے قرض اورگرانٹس حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ دوسرا، سعودی عرب کے ایک سرمایہ کاری وفد نے پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا۔ اس وفد کو سعودی حکومت کی باضابطہ آشیر باد حاصل تھی اور اس کی سربراہی ایک وزیرکر رہے تھے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے سرمایہ کاروں نے 2.2 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کیے۔
سعودی عرب بلوچستان میں ریکوڈک کے منصوبے میں بھی کچھ سرمایہ کاری کرنے پر مائل ہے۔ تیسرا، 15‘ 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہانِ حکومت کی کانفرنس نے عالمی اور علاقائی سطح پر پاکستان کے امیج کو بڑھانے میں مدد کی۔ بے یقینی اور شش و پنج کے اس پر آشوب وقت میں پاکستان امید اور خود انحصاری کے ایک روشن مینار کی طرح ابھرا ہے۔ اس دورانیے کی ایک اہم ترین پیش رفت ان پالیسیوں کو ازسر نو مرتب کرنے کی حکمت عملی رہی جن کا ہدف بیرونی سرمایہ کاری کو لانا اور ملک میں کاروبارکے لیے ماحول کو سازگار بنانا تھا۔ اسپیشل انوسٹمنٹ فیسی لی ٹیشن کونسل یا ایس آئی ایف سی کا قیام اور پاکستان انوسٹمنٹ پالیسی 2023 کو متعارف کرانا دراصل پاکستان کی معاشی ترقی کے سفر کے اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔
بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے جاری کیے گئے ان منصوبوں نے ملک بھر میں شہرت اور قبولیت حاصل کی۔ ان اقدامات اور پالیسیوں کا نفاذ دراصل معاشی بحالی کی فوری ضرورت کا ردعمل تھا اور اس سارے عمل کا مرکزی ہدف یہ تھا کہ افسر شاہی اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ان مسائل و مشکلات پر قابو پایا جا سکے جو براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔
ان معاشی پالیسیوں کا مقصد، بین الصوبائی روابط و تعاون کو بڑھا کر، ہر طرح کے شعبے جیسے کہ زراعت و انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا تھا۔کڑی اقتصادی و مالیاتی نگرانی اور اقدامات کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن موجودہ امید افزا صورت حال کی ایک دوسری وجہ پاکستانی برآمدات کی منڈی میں ہر سال آنے والا بہتری اور تیزی کا رجحان اور حالات و واقعات بھی ہیں۔
پاکستان کو ڈیجیٹل کرنے کے سلسلے میں حکومت کے عزم کا اظہار ’’ ڈیجیٹل پاکستان‘‘ جیسے منصوبوں کے لائحہ عمل کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی طاقت اور صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مرتب کیا گیا یہ لائحہ عمل حکومت کی ان کوششوں اور اہداف کو ظاہرکرتا ہے جن کے تحت سن 2030ء تک متعدد پالیسیوں کے نفاذ اور اقدامات کے ذریعے معیشت کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ 759 ارب ڈالرکا ہدف پورا کر لے۔
ایرانی صدر نے پاکستان کے ساتھ تجارت کے حجم کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کا ارادہ ظاہرکیا ہے اور اس باہمی تعاون و اشتراک کے لیے آٹھ مختلف معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط بھی کردیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دوران ایک اور خوش آیند امر یہ ہوا کہ پاکستان اور چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے طور پر پانچ نئے منصوبوں کے لیے اپنی کاوشیں تیز کردی ہیں۔
ان منصوبوں اور ایسی پیش رفت سے پاکستانی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لائحہ عمل کا بھرپور نقشہ سامنے آتا ہے۔ اس عرصے کے دوران ملنے والی ایک اور خوش خبری یہ بھی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان، پہلے کے تیار بڑے معاہدے کے دوسرے اورآخری جائزے کے لیے جو 9 ماہ سے موجود تھا، اتفاق ہوا۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں معاشی نظم و ضبط اور اقتصادی اصلاحات کے لیے پاکستان کے عزم کو مزید تقویت ملے گی جس سے ملکی معیشت کے لیے استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔
پاکستان کی معاشی بہتری میں سب سے اہم کردار اور عزم و حوصلہ آرمی چیف جنرل عاصم منیرکا ہے جنھوں نے بدترین معاشی حالات میں نہ صرف قوم کو حوصلہ دیا بلکہ عملی طور پر یہ سب کچھ ممکن بنانے میں اپنی انتھک محنت جاری رکھی۔ اس سلسلے میں چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت تمام دوست ممالک نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے میں اپنا بھرپور تعاون و مدد پیش کی۔
پاکستان دنیا کو یہ بات باورکرانے میں کامیاب ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک کو امداد کی نہیں بلکہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور پاکستان کی سول و ملٹری قیادت ایک پیج پر رہ کر غیر ملکی سرمایہ کاری کے مکمل تحفظ کو اولین ترجیح رکھے ہوئے ہے۔ امیدکی جا رہی ہے کہ سیاسی استحکام کی منزل بھی قریب ہے جس کے بعد پاکستان کی ترقی کی رفتار میں مزید تیزی دیکھنے میں آئے گی۔ وطن عزیزکا مستقبل روشن اور امید افزا ہے جس میں عوام کے لیے ترقی، خوشحالی اور استحکام کی یقین دہانی ہے۔