مولانا اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے ؟
26ویں آئینی ترمیم سے پہلے ایک موقع پر تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں ایسی بڑھ گئی تھیں کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ دونوں ایک ہو گئے ہیں کہ ابھی تک الگ جماعتیں ہیں۔ روزانہ تحریک انصاف کی قیادت مولانا کے گھر میں موجود ہوتی تھی۔
نمازیں مولانا کی امامت میں ادا کی جاتی تھیں۔ مولانا کا گھر تحریک انصاف کا دفتر ہی بنا ہوا تھا۔ دوسری طرف حکومت بھی مولانا کے گھر چکر لگا رہی تھی۔ لیکن تحریک انصاف کی موجودگی زیادہ واضح تھی۔ مولانا بھی تحریک انصاف کا مقدمہ لڑتے نظر آرہے تھے۔
حتیٰ کے بانی تحریک انصاف کی ملاقاتوں پر پابندی بھی مولانا نے ختم کروائی اور حکومت کو مجبور کیا کہ پہلے تحریک انصاف کی قیادت کی بانی تحریک انصاف سے ملاقا ت کروائی جائے پھر بات آگے چلے گی۔ دونوں جماعتوں کے درمیانی باہمی طور پراور بالخصوص مولانا کے لیے تحریک انصاف کے جذبات اور احساسات میں تبدیلی واضح تھی۔
لیکن 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یک دم یہ تمام محبتیں اور قربتیں ختم ہو گئیں۔ ادھر ترمیم منظور ہوئی اور ادھر دونوں کے درمیان فاصلے واپس بڑھنے لگے۔ ملاقاتیں ختم، رابطے ختم، بات چیت ختم۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے دونوں کے درمیان کبھی کوئی قربت تھی ہی نہیں۔ کہاں اکٹھے چلنے کے عزم ۔ کہاں رابطے ختم۔ کہاں ایک دوسرے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ دونوں کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔
ایسا کیا ہو گیا کہ اب کوئی ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ آپ دیکھیں تحریک انصاف نے 24 نومبر کے احتجاج کی کال دی ہے۔ تحریک انصاف اس کال میں شرکت کی رسمی دعوت بھی مولانا کو دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ نہ آئیں لیکن سیاست میں دعوت تو دی جاتی ہے۔ تا ہم اب ہمیں دونوں کے درمیان واضح سیاسی فاصلے نظر آرہے ہیں۔
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور دیگر چند رہنماؤں نے بھی کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے احتجاجی سیاست کرنی ہے تو اسے اپوزیشن کی جماعتوں کا ایک اتحاد بنانا چاہیے اور اس اتحاد کو لے کر احتجاجی سیاست کرنی چاہیے۔ لیکن تحریک انصاف اس وقت ایسے کسی مشورے کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ تو مولانا سے ملنے کے لیے تیار نہیں۔ پھر اتحاد کیسے بنے گا۔ دوسری طرف وہی مولانا جو کل تک تحریک انصاف کے موقف کی کھلم کھلا حمایت کر رہے تھے۔
اب ان کے 24نومبر کے احتجاج کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ ان کی رائے میں تحریک انصاف نے کال دیکر غلطی کی ہے۔ یہ کال دینے کا کوئی مناسب وقت نہیں تھا۔ بلکہ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف ماضی میں بھی اپنے احتجاج کو پر امن رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کی ناکامیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اس لیے انھیں اب احتجاج کی کال نہیں دینی چاہیے۔
مولانا اور ان کی جماعت گلہ کر رہی ہے کہ تحریک انصاف نے 24نومبر کی کال دینے سے پہلے ہم سے کوئی مشاورت ہی نہیں کی۔ جب ہم پارلیمان میں اکٹھے چل رہے ہیں تو باہر بھی اکٹھے چلنے کے لیے مشاورت تو ہونی چاہیے۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ خود ہی کال دے دیں اور ہم اس پر لبیک کہہ دیں۔ پہلے مشاورت ہونی چاہیے پھر آگے اکٹھے چلتے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف مشاورت تو دور کی بات دعوت دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔ یہ سب بہت جلدی ہوا ہے۔
حال ہی میں 24نومبر کے سلسلہ میں ایک ٹوئٹر سپیس میں تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم سے جب مولانا اور ان کی جماعت کے ساتھ چلنے کے حوالے سے سوال ہوا تو انھوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے سارے مرحلے میں مولانا نے نہایت کامیابی سے تحریک انصاف کو استعمال کیا ہے۔
مولانا نے آخر میں ترمیم کے حق میں ووٹ بھی ڈال دیا اور ہم سے اپنی امامت میں نمازیں بھی پڑھوا لی ہیں۔ اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ مولانا نے حکومتی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے تو مولانا کے پیچھے نمازیں پڑھنے کی ضرورت ہی کیا تھا۔اتنے چکر لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ آج دیکھیں تو تحریک انصاف کو اس سارے عمل کا سیاسی طور پر نقصان ہوا ۔ ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لیکن مولانا ہم سے بہت کچھ لے گئے۔شیخ وقاص اکرم کا اس ٹوئٹر سپیس میں موقف تھا کہ مولانا نے ہم سے کلین چٹ لے لی ہے۔
ہم نے کئی سالوں میں ان کے خلاف الزام تراشی کر کے انھیں سیاسی نقصان پہنچایا تھا مولانا نے ہم سے وہ سب ختم کروا لیا ہے۔ وہ کلین چٹ لے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنا امیج بہتر کر لیا ہے۔ تحریک انصاف نے مولانا کے حوالے سے سیاسی موقف کو ختم کر دیا ہے۔
انھوں نے حکومت کا کام کیا ہے اور ہمیں استعمال کیا ہے۔ اگر پہلے دن یہ معلوم ہوتا کہ وہ آخر میں حکومتی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈال دیں گے تو ہم شاید اتنے ٹریپ میں نہ آتے۔ لیکن ہمیں ایسا لگا کہ وہ ترمیم پاس نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن حقیقت میں ہم سیاسی کھیل نہ سمجھ سکے۔ اس لیے ہم نے اب ان کے ساتھ زیادہ نہ چلنے کا فیصلہ کیا ہے پارلیمان میں کہیں ناگزیر ہوا تو دیکھیں گے لیکن اگر وہ تحریک انصاف کے موقف کی حمائت کریں۔ ان کے کسی موقف کی کسی صورت حمائت نہیں کی جا سکتی۔
ایسی ہی گفتگو اب جے یو آئی (ف) والے بھی کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں اگر ہم حکومت کا مسودہ مسترد نہ کرتے تو یہ سب آج ملٹری کورٹس میں ہوتے۔ ہم نے ان کو بانی تحریک انصاف کو ملٹری کورٹس سے بچایا ہے۔ لیکن یہ ہمارے شکر گزار نہیں۔ پہلا ابتدائی مسودہ اگر ہم منظور کر لیتے تو یہ آج کہاں ہوتے۔ احتجاج کی کال دینے کی پوزیشن میں بھی نہ ہوتے۔ کل تک جب ہم حکومتی مسودہ مسترد کر رہے تھے تو ہمارے ہاتھ چوم رہے تھے۔ شکریہ ادا کرتے تھک نہیں رہے تھے۔
اب انھوں نے آنکھیں بدل لی ہیں۔ مولانا کا موقف ہے کہ ہر موقع پر ان کو اعتماد میں لیا ہے۔آخری دن تک ان کے ساتھ کھڑے رہے اور حکومت کو بار بار مسودہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا اور اب انھوں نے آنکھیں بدل لی ہیں۔ جے یو آئی کا تو کوئی رہنما ملٹری کورٹس میں نہیں جا رہا تھا۔ انھوں نے جانا تھا، ان کو بچایا ہے۔ بہر حال مولانا نے ٹھیک کہا ہے کہ ان کے سب جماعتوں کے ساتھ اختلاف رہتے ہیں۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم سمیت سب سے اختلاف ہیں لیکن تحریک انصاف سے تلخی تھی۔
وہ کہتے ہیں میں نے تلخی ختم کی ہے، اختلاف باقی ہے، بس تلخی ختم کر دی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو تحریک انصاف کو تو تلخی کے علاوہ اختلاف کرنا آتا ہی نہیں۔ ان کے اختلاف میں تلخی نہ ہو تو وہ اختلاف لگتا ہی نہیں۔ وہ سیاسی اختلاف رکھتے ہی نہیں۔ اس لیے تحریک انصاف یہی تو رو رہی ہے کہ تلخی ختم ہوگئی تو اختلاف کیسے کریں ۔اب ہم مولانا کے خلاف الزام تراشی کیسے کریں۔ ورنہ 26ویں ترمیم کو ووٹ دینے کے بعد ہم نے توالزام تراشی کا طوفان لے آنا تھا۔
اب ہمارے منہ سے لفظ نہیں نکل رہا۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ مولانا نے ہمیں وہاں لیجا کر مارا جہاں ہم پانی بھی مانگنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سیاسی شطرنج کے کھیل میں تحریک انصاف نے اپنی چالیں چلیں اور مولانا نے اپنی۔اس کھیل میں تحریک انصاف کو شہ ہو گئی اور مولانا جیت گئے۔اب شکوہ کیسا۔