غزالی آنکھوں والی ثریا

ثریا نے تمام ٹاپ کے ہیروز کے ساتھ کام کیا، وہ بہت خوبصورت تھی، لیکن اس کا افیئر کسی کے ساتھ نہ چلا۔

fatimaqazi7@gmail.com

عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے میں یا ماضی میں نہ کوئی اداکار ہے جسے یاد کیا جائے نہ کوئی ادیب نہ گلوکار اور نہ ہی فلم ساز اور ہدایت کار۔ جب بھی کسی تابندہ ستارے کی یاد آتی ہے تو وہی غیر منقسم ہندوستان کی کوئی شخصیت، فلم سازوں میں دیکھیں تو اے آر کار دار، نتن بوس، ایس۔ایس داس ، وی شانتا رام، نرگس، نوتن،کامنی کوشل، دلیپ کمار، پریم ناتھ، راج کپور، مدھوبالا، ماسٹر غلام حیدر، خواجہ خورشید انور وغیرہ۔ انھی ستاروں میں ایک نام ہے ثریا کا۔ نہایت حسین اور رکھ رکھاؤ والی سپر اسٹار۔ جو جتنی خوبصورت تھی، اتنی ہی اس کی آواز دلکش تھی۔ اس زمانے میں بیشتر اداکار اور اداکارائیں فلم میں کام بھی کرتے تھے اور اپنے گانے بھی خود گاتے تھے، جیسے کے ایل سہگل،کامن دیوی، اوما دیوی، شیام، ہیمنت کمار وغیرہ۔

ثریا کا پورا نام ثریا جمال شیخ تھا۔ اس زمانے میں نام بدلنے کا بڑا رواج تھا جیسے مدھوبالا کا اصلی نام ممتاز جہاں بیگم دہلوی تھا، نمی کا نام نواب بانو، شیام کا اصل نام خورشید، میناکماری کا مہ جبیں، دلیپ کمار کا یوسف خان وغیرہ لیکن ثریا نے اپنا نام نہ بدلا۔ وہ 15 جون 1929 کو لاہور میں پیدا ہوئی، وہ ایک سال کی تھی کہ اس کے والدین بمبئی منتقل ہوگئے۔ ثریا کے ماموں ایم ظہور فلموں میں ولن بنا کرتے تھے اور ان کے تعلقات فلمی دنیا کے بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔

ثریا کو فلم میں لانے کا سہرا نرگس کی ماں جدن بائی کے سر ہے۔ انھوں نے سات سال کی ثریا کو فلم ’’میڈم فیشن‘‘ میں ایک رول دیا، یہ فلم 1936 میں ریلیز ہوئی۔ وہ بے بی ثریا کہلاتی تھی۔ اس کے بعد 1942 میں فلم ’’تمنا‘‘ میں ایک رول ملا۔ بمبے ٹاکیز کی روح رواں دیویکا رانی نے جب اسے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی اور فوری طور پر پانچ سال کے لیے پانچ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ اسے فلم ’’ہماری بات‘‘ میں اداکاری دکھانے کا موقعہ ملا۔ اس سے پہلے وہ فلم ’’ اسٹیشن ماسٹر‘‘ میں بھی کام کر چکی تھی۔

1942 میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں زیڈ۔اے بخاری، ڈائریکٹر تھے۔ ثریا آل انڈیا ریڈیو پرگانے گاتی تھی۔ بخاری صاحب نے موسیقار نوشاد کو ثریا کا ایک گانا سنوایا تو وہ بہت متاثر ہوئے اور اسے اے آر کاردار کی فلم ’’شاردا‘‘ میں گانے گوانے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کی ہیروئن مہتاب تھی جس کا اس زمانے میں طوطی بولتا تھا وہ اپنے وقت کی کامیاب ترین ہیروئن تھی۔ اسے جب پتا چلا کہ اس کے گانے تیرہ سال کی دبلی پتلی لڑکی گائے گی تو وہ ہچکچائی، لیکن جب موسیقار نوشاد کے کہنے پر ثریا کا گانا سنا تو وہ مسحور ہو کے رہ گئی۔

اسی سال نوشاد کی موسیقی میں ایک فلم ’’نئی دنیا‘‘ میں بھی ثریا کا گایا ہوا ایک گانا ’’بوٹ کروں میں پالش بابو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ ایک دن وہ اپنے ماموں کے ساتھ ایک فلم کی شوٹنگ دیکھنے گئی تو وہاں نانو بھائی وکیل فلم ’’ تاج محل‘‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ ان کی نظر جب بے حد خوبصورت تیرہ سالہ لڑکی پر پڑی تو حیرت زدہ رہ گئے اور اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ ممتاز محل کے بچپن کا رول ثریا ہی کو دیں گے۔ کے۔آصف ان دنوں فلم ’’پھول‘‘ بنا رہا تھا۔

اس نے اس فلم میں کام کرنے کے لیے ثریا کو چالیس ہزار روپے کی پیشکش کی جو کہ اس زمانے میں بہت ہی بڑی رقم تھی، لیکن ثریا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ ایک معاہدے میں بندھی ہوئی ہے اور بمبے ٹاکیز کے علاوہ کسی اور فلم میں کام نہیں کر سکتی۔ کے آصف نے جب زیادہ زور دیا تو وہ دیویکارانی کے پاس گئی اور اس سے درخواست کی کہ وہ اسے اس معاہدے سے آزاد کر دے۔ دیویکا رانی بہت بڑے دل کی عورت تھی اس نے ثریا کو معاہدے سے آزاد کر دیا اور چودہ سال کی عمر میں اس نے پرتھوی راج کپور کے مقابل ہیروئن کا رول فلم ’’اشارہ‘‘ میں کیا۔

کے ایل سہگل جوکہ اپنے عروج پر تھا اس نے ایک ریہرسل کے دوران ثریا کا گانا سنا تو بہت متاثر ہوا اور فلم ’’تدبیر‘‘ میں اس نے ثریا کو بطور ہیروئن لینے کی سفارش کردی۔ سہگل کے ساتھ ثریا نے دو اور فلمیں کیں جو ’’عمرخیام‘‘ اور ’’پروانہ‘‘ تھیں۔ دونوں فلمیں بہت کامیاب رہیں۔ فلم ’’پروانہ‘‘ کا یہ گیت بہت مقبول ہوا:

جب تم ہی نہیں اپنے دنیا ہی بیگانی ہے

الفت جسے کہتے ہیں ایک جھوٹی کہانی ہے

ثریا کا اصل عروج محبوب خان کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ سے ہوا۔ اس فلم میں سریندر اور نور جہاں بھی تھے۔ سنگیت نوشاد کا تھا۔ اس فلم کے گانوں نے دھوم مچا دی تھی۔ آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں۔ موسیقی کے شیدائی آج بھی ثریا کے گانے شوق سے سنتے ہیں۔

سوچا تھا کیا،کیا ہو گیا

اپنا جسے سمجھے تھے ہم

افسوس وہ اپنا نہ ہوا

٭……٭

من لیتا ہے انگڑائی، جیون پہ جوانی چھائی

٭……٭

اڑن کھٹولے پہ اڑ جاؤں، تیرے ہاتھ نہ آؤں

٭……٭

ثریا نے تمام ٹاپ کے ہیروز کے ساتھ کام کیا، وہ بہت خوبصورت تھی، لیکن اس کا افیئر کسی کے ساتھ نہ چلا۔ البتہ وہ دیوآنند کو چاہتی تھی اور دیو آنند اس کو۔ لیکن ثریا کی نانی بادشاہ بیگم کا بڑا سخت کنٹرول تھا ثریا پر۔ دیوآنند نے کلپنا کارتک سے شادی کر لی لیکن ثریا نے کسی کو بھی دل میں نہ بسایا۔ نہ ہی اس نے شادی کی۔

ثریا برطانوی فلم اداکار گریگوری پیک کی بڑی مداح تھی جس نے فلم ’’رومن ہالیڈے‘‘ میں کام کیا تھا وہ بھی ثریا پر فریفتہ تھا۔ اس نے ثریا کو شادی کی پیشکش کی جسے اس نے ٹھکرا دیا۔ اس نے فلم ’’درد‘‘ میں سائیڈ ہیروئن کا رول کیا، پھر 1947 میں آئی ’’درد‘‘ جس میں وہ رحمان کے ساتھ ہیروئن آئی۔ اس کے بعد آئی ’’پیار کی جیت‘‘ اس میں بھی وہ رحمان کی ہیروئن تھی۔ فلم ’’ بڑی بہن ‘‘ بھی ثریا کی لازوال فلم تھی۔

تیرے نینوں نے چوری کیا میرا چھوٹا سا جیا

…٭…

وہ پاس رہیں یا دور رہیں نظروں میں سمائے رہتے ہیں

اتنا تو بتا دے کوئی ہمیں کیا پیار اسی کو کہتے ہیں

ثریا کے کام کو لوگوں نے بہت سراہا اسے میلوڈی کوئن کا خطاب بھی ملا۔ فلم ’’مرزا غالب‘‘ میں اس کا کام کمال کا تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اس فلم کی بہت تعریف کی اور اس فلم کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اداکار رحمان اور ہدایت کار ایم صادق اس سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے دل کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے۔ وہ اتنی مقبول تھی کہ اس کے گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہوا کرتا تھا۔

چاہنے والے اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار رہتے تھے۔ اس کی فلمیں ہمیشہ کامیاب رہتی تھیں۔ شمع، پروانہ، مالک، خوبصورت، معشوقہ، دیوانہ، ریشم، راجپوت اور مرزا غالب لوگوں کو ہمیشہ یاد رہیں گی۔ ثریا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ تھی۔

آخری ایام میں وہ اکیلی ہوگئی تھی۔ نانی اور ماموں پاکستان چلے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ماں باپ تھے لیکن یکے بعد دیگرے دونوں کا انتقال ہوگیا۔ اپنی زندگی کے آخری تیس سالوں میں وکیل ہیمنت ٹھاکر کی فیملی کے ساتھ رہی۔ 31 جنوری 2005 کو ثریا نے زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے چاہنے والوں کو اداس چھوڑ گئی۔

Load Next Story