سائبر کرائم،جُرم کی دنیا کا نیابادشاہ…تسلیما لودھی
دنیا بھر میں بہت سے جرائم پیشہ عناصرموجود ہیں ،جس میں چوری،ڈکیتی،قتل،زیادتی،اغواء برائے تاوان،اسٹریٹ کرائم، کرپشن ،دھوکا دھی اور ایسے ہی کئی جرائم نمایاں ہیں۔ جیسے ہر چیز میں ترقیاتی پہلو آتے ہیں ویسے ہی اب جرائم پیشہ افراد بھی اپنے طور طریقوں کو بدلتے جا رہے ہیں ،ٹیکنالوجی جہاں اچھے کاموں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔
وہیں ٹیکنالوجی جُرم کرنے کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کر رہی ہے اور جو جُرم ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جا رہے ہیں انھیں سائبر کرائم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سائبر کرائم در اصل ہے کیا؟ سائبر کرائم عام طور پر ایسی سرگرمیوں کو کہا جاتا ہے جس میں کمپیوٹرز،موبائل یا دیگر نیٹ ورک کے ذریعے کسی کو شکار بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں انجام دی جائیں،یہ مجرمانہ سرگرمیاں صرف مالی نقصان ہی نہیں دیتی بلکہ انسان کو ذہنی اذیت کا شکار بنا کر جانی نقصان بھی پہنچانے سے گریز نہیں کرتیں،مختصراََ یہ کہ نیٹ ورکنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جانے والی کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو سائبر کرائم کہا جاتا ہے۔
سائبر کرائم بہت سے طریقوں سے کیا جاتا ہے جیسا کہ ہیکنگ (غیر قانونی طریقوں سے یا بنا اجازت کسی کے بھی پرسنل کمپیوٹر میں داخل ہونا) ،فشنگ(مختلف ویب سائٹ،جعلی ای میلز اور دیگر طور طریقوں سے مختلف لوگوں کی حساس معلومات حاصل کرنا،ڈیٹا چوری کرنا)،سائبر ہراسانی ( کسی بھی فرد کو موبائل فون یا ای میلز کے ذریعے بلیک میل کرنا اور اُسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا ) اور ایسے ہی کئی جرائم سائبر کرائم میں شامل ہیں۔
سائبر کرائم کا مسئلہ ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے 2005سے اب تک دنیا کے 34ممالک سائبر کرائم کا شکار ہو چکے ہیں، جس میں امریکا،کوریا، چین، انڈیا، جاپان، چائنا، جرمنی، برطانیہ، روس اور پاکستان جیسے کئی بڑے بڑے ممالک شامل ہیں۔ سائبر کرائمز کی وجہ سے دنیا بھر کو سالانہ 375 سے 575ارب ڈالرز کا نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عالمی سائبر کرائم کے مسائل کوحل کرنے کے لیے بہت سے قوانین بنائے جا رہے ہیں اور سائبر کرائمز پر قابو پانے کی کوششیں بھی جارہی ہیں۔
جیسے جیسے سائبر کرائم عالمی سطح پر پھیلتا جا رہا ہے تو ایسے کیسے ممکن تھا کہ پاکستان جیسا ملک سائبر کرائم کی زد میں نہ آتا،جیسے بہت سے بڑے ممالک سائبر کرائم کا شکار ہیں ویسے ہی پاکستان میں بھی سائبر کرائم کی جڑیں مضبوطی پکڑتی جا رہی ہیں۔ کہیں پر فون کالز یا میسجز کر کے پہلے اُنھیں انعام یا دیگر لالچ دیا جاتا ہے اور اگر وہ جھانسے میں نہیں آتے تو اُنھیں ایف آئی اے اور دیگر بڑے اداروں کے نام لے کر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور لوٹ لیا جاتا ہے۔
کہیں سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا گروپس کو ہیک کر کے مطلوبہ شخص کے رشتے داروں یا جاننے والوں سے پیسے لوٹے جاتے ہیں تو کہیں آن لائن سیل کے نام پر ایڈوانس پیمنٹ منگوا کر لوگوں سے رقم لوٹ کر بلاک کر دیا جاتا ہے۔ایسے ہی واقعات سننے میں آئے ہیں جس میں بینکنگ سیکٹر کے نمبرز سے کالز کر کے لوگوں کو پہلے اُن کے بارے میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں پھر اُن سے کسی بھی بہانے سے دیگر ضروری معلومات حاصل کر کے پورے پورے بینک اکاؤنٹس خالی کر دیے جاتے ہیں۔اے ٹی ایم کے ذریعے بھی ایسی ہی کئی وارداتیں دیکھنے اور سُننے میں آئی ہیں۔یہ تو وہ سائبر حملے ہیں جو چھوٹے پیمانے پہ ہیں اور ان کا شکار عام عوام ہو رہے ہیں۔
سائبر حملوں نے تو پاکستان کی متعدد صنعتوں کو بھی متاثر کیا ہے ، جس میںبشمول بیشتر آئی ٹی کمپنیاں،صنعتی شعبے،مالیاتی شعبے،سرکاری اداروں اور ایسے ہی کئی دیگر اداروں سمیت پبلک سیکٹرز بھی شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں سائبر کرائم کے واقعات میں17فیصد اضافہ ہوا تھا۔جب کہ حالیہ سال میں سائبر کرائم کے حملوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تین سالوں میں تقریباً 390,000 سائبر کرائم کی شکایات درج ہوئیں ،جب کہ حالیہ سال میں 134,710 شکایات موصول ہوئی ہیں، جس میں 2024میں صنعتی شعبے پر سائبر حملوں میں11.8 فیصد اضافہ ہوا،آئی ٹی کمپنیوں پہ حملوں میں15.4، مالیاتی شعبوں کے حملوں میں14.9 ،جب کہ پبلک سیکٹرز پر سائبر حملوں میں 22.9 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سائبر کرائم کا شکار ہونے والے ممالک میں انٹرنیٹ کی رسائی تو بڑھتی جا رہی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عوام میں سائبر کی سیکیورٹی کے حوالے سے شعور کی کافی حد تک کمی ہے،سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے قوانین تو اب بنائے جا رہے ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد بہت کم کیا جاتا ہے،جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود سیکیورٹی کا نظام موجود نہیں ہے جب کہ کہیں سیکیورٹی کا نظام موجود ہے تو وہاں پاس ورڈز آسان کر دیے جاتے ہیں ،جنھیں توڑنا سائبر کرائمرز کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا،یہی وجہ ہے کہ سائبر کرائمز افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں سائبر کرائم کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ پاکستان میں سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (PECA) منظور کیا گیا ہے،جس کا نفاذ ایف آئی اے کے ذریعے ہوتا ہے۔ایف آئی اے کے پاس سائبر کرائم ونگ بھی موجود ہے،اسی قانون کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے مختلف سائبر کرائم کی سزائیں اور جرمانے بھی مقرر کیے جاتے ہیں۔
جیسے عالمی سطح پر سائبر کرائم سے بچنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ویسے ہی پاکستان میں بھی سائبر کرائم کرنے والوں کے خلاف قانون سازی کی ضرورت ہے اور سائبر کرائم سے بچاؤ کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
سائبر کرائم ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، حکومت اور عوام کی مشترکہ کوشش سے اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ جیسا کہ سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے عوام میں شعور اُجاگر کیا جائے کہ سوشل میڈیا سمیت دیگر مقامات پر اپنی ذاتی معلومات کو پوشیدہ رکھیںتا کہ سائبر حملوں سے بچا جا سکے۔سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے مزید ٹرینڈ فورسز تیار کی جائیں۔
سائبر سیکیورٹی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ موبائل فون کے سافٹ وئیرز کو اپڈیٹ رکھا جائے تا کہ سیکیورٹی پیچز مل سکیں۔پاکستان میں صرف پبلک سیکٹر کو ہی سائبر حملوں سے بچانے یا آگہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ہر شعبے میں سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے ایک الگ سائبر ونگ کی ضرورت ہے۔