وش رنگ

لیاری ہی نے سب سے پہلی بلوچی فلم ھمل و ماہ گنج، سینیما کو دی۔ جس کے بطن سے نام ور فنکار پیدا ہوئے

کراچی میں جاری ’’عوامی تھیٹر فیسٹیول‘‘کے پانچویں روز بلوچی اسٹیج ڈرامہ ’’وش رنگ‘‘ کے ستاروں میں ابیعہ پیاری، دانش بلوچ، د شکیل مراد، زرین آسکانی، جاوید اقبال، عطاء گل، عطاء دیدگ، وقاص بلوچ، یاسین بلوچ، ندیم ملیری، اور لال محمد آسکانی شامل تھے۔

ڈرامہ ’’وش رنگ‘‘ جس کے معنی ’’خوبصورت‘‘ ہے، ڈرامہ کی کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ہیرو، کو کہیں ملازمت مل جاتی ہے اور وہ یہ خوش خبری اپنے والد کو سناتا ہے والد خوش ہوکر کہتا ہے کہ اب میں تمہارے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈ کر اس سے تمہاری شادی کرادوں گا۔

ہیرو کہتا ہے کہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے لڑکی میں پہلے ہی پسند کرچکا ہوں۔والد کہتا ہے کون ہے وہ؟ ہیرو کہتا ہے کہ وہ کالج میں میرے ساتھ پڑھتی تھی جہاں ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے یعنی محبت کرتے تھے۔ والد کہتا ہے کہ ایک دن مجھے اس سے ملاؤ۔ ہیرو کہتا ہے ایک دن کیوں بلکہ آج اور ابھی ملاتا ہوں۔

ہیرو اپنے والد کے ہمراہ اس کا رشتہ لینے اس کے گھر پہنچتا ہے، وش رنگ کی خوبصورتی دیکھ کر ہیرو کا باپ خود شادی کا خواہش مند ہوجاتا ہے، اس بات پر دونوں میں تکرار شروع ہوتی ہے اور بات پولیس تھانے تک جا پہنچتی ہے، تھانیدار بھی وش رنگ کے حسن سے متاثر ہو کر کہتا ہے کہ وہ اس سے شادی کرے گا، یہاں ان کی آپس میں توں توں میں میں ہوجاتی ہے اور فیصلہ کرنے کے لیے وہ وزیر کے پاس جاتے ہیں جہاں وہ اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں مگر وزیر وش رنگ کو دیکھتے ہی کہتا ہے کہ یہ تو اس کی منگیتر ہے، یہاں بھی ان کی آپس میں تکرار ہوجاتی ہے اور کوئی فیصلہ نہ ہو پانے پر، یہ سب امیر شہر کے پاس جاتے ہیں، جو وش رنگ کو دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ اس کی چوتھی بیوی ہے جو بہت عرصہ پہلے اس سے بچھڑ گئی تھی، یہاں بھی ان سب کی آپس میں خوب تکرار ہوتی ہے۔

ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وش رنگ ان کی ہے،وش رنگ سے میری شادی ہونی چاہیے۔ وش رنگ یہ سارا ماجرا دیکھ کر کہتی ہے کہ وہ دوڑے گی اور جو اسے پہلے پکڑ لے گا، وہ اسی کی ہو جائے گی، یہ سب لوگ وش رنگ کے پیچھے دوڑتے ہیں، لیکن دوڑتے دوڑتے یہ سب ایک کنویں میں گر جاتے ہیں، وش رنگ یہ منظر دیکھ کر کہتی ہے کہ دراصل وہ ایک خوبصورت دنیا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے سب دوڑ رہے ہیں لیکن یہ خوبصورت دنیا آخر تک ان کے ہاتھ نہیں آتی. 

کنویں میں گرے یہ سب لوگ التجا کرتے ہیں ، فریاد کرتے ہیں کہ انھیں کنویں سے باہر نکالا جائے اور وعدہ کرتے ہیں کہ آیندہ نیک بن جائیں گے، لیکن وش رنگ یعنی دنیا انھیں یاد دلاتی ہے کہ اب وقت ختم ہو چکا ہے؛ جب وہ کنویں سے باہر تھے تو ان کے پاس خود کو سدھارنے کا موقع تھا، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ صرف اس وش رنگ خوبصورت دنیا کو پانے کی ہی کوشش کی، بلآخر کنویں میں گرے سب لوگ ڈوب کر مر جاتے ہیں اور وش رنگ بے اعتنائی سے مسکراتی ہوئی غائب ہو جاتی ہے اس طرح یہ ڈرامہ اختتام پذیر ہوتا ہے۔

یہ اسٹیج ڈرامہ اصلاحی اور سبق آموز ہے جسے طنز و مزاح کے روپ میں کمال مہارت سے یہ پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا ایک دھوکا ہے جسے پانے کے لیے بے مقصد اس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔مدتوں بعد ایک معیاری اسٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا ہے۔ جسے شائقین کی بڑی تعداد نے دیکھا اور اس کی کہانی کو بہت پسند کیا! تالیوں کی گونج میں فنکاروں کو خوب داد دی گئی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس اسٹیج ڈرامہ کے زیادہ تر فنکاروں کا یہ پہلا اسٹیج ڈرامہ تھا مگر انھوں نے کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ پہلی بار اسٹیج کررہے تھے۔ اس ڈرامہ کے ہیرو شکیل مراد نے راقم کو بتایا کہ جب یہ ڈرامہ اسٹیج کیا جارہا تھا تو اس وقت اس ڈرامے کی ہیروئین ربیعہ پیاری کی والدہ علیل تھیں اور خود ربیعہ دانت کی تکلیف میں مبتلا تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ ڈرامہ کیا جو ان کی فن سے محبت کا ثبوت ہے اگر وہ ایسا نہ کرتی تو یہ ڈرامہ اسٹیج نہ ہو پاتااور بڑا نقصان ہوتا۔وش رنگ تمام فنکاروں کی فنکارانہ صلاحیتوں اور ہدایتکاری کا ثمر ہے۔ ان تمام فنکاروں کا تعلق شہر کراچی کے قدیمی علاقہ لیاری سے ہے۔

لیاری وہ زر خیز مٹی ہے جہاں قدرتی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں نہ فن کی کوئی اکیڈمی ہے اور نہ کسی کھیل کا اسکول اس کے باوجود یہاں لاتعداد فنکار اور اسپورٹس مین پیدا ہوتے رہے ہیں، جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں ملک گیر اور بین الاقوامی سطح پر نام کمایا اور ملک و قوم کا نام روشن کیا۔

لیاری ہی نے سب سے پہلی بلوچی فلم ھمل و ماہ گنج، سینیما کو دی۔جس کے بطن سے نام ور فنکار پیدا ہوئے جن میں انور اقبال، نور محمد لاشاری، نادر شاہ عادل، محمود ماسی، اے آر بلوچ، حسین مداری اور دیگر فنکاروں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں نام پیدا کیا۔مگر بد نصیبی سے اس فلم کو پردہ سیمیں کی زینت بنانے سے روک دیا گیا، جس سے بلوچی ثقافت کی فروغ کو نقصان پہنچا اور کہیں فنکاروں کے فن کو زنگ لگ گیا.

مگر باہمت فنکار اپنے جنون میں مگن ہو کر فن کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔پھر ایک وقت وی سی آر اور مووی کیمرہ کا آیا جس سے ایک بار پھر بلوچی فنکاروں نے اپنا فنی سفر نئے انداز سے شروع کیا وڈیو کیسٹ پر مبنی بلوچی گیت مالا۔ بلوچی طنز و مزاح پر مبنی خاکے بمع بلوچی گانوں کی وڈیو کیسٹ بنانی شروع کردی اور بلوچی وڈیو کیسٹ فلمیں بناء اس طرح بلوچی فن و ثقافت کو فروغ حاصل ہوتا رہا۔

موجودہ دور جو کہ انٹر نیٹ کا دور کہلاتا ہے لیاری اور لیاری سے باہر کے بلوچی فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار اس پلیٹ فارم سے بھرپور انداز سے کیا جو جاری و ساری ہے سوشل میڈیا کے لیے فلمیں بنائی گئیں۔حال ہی میں لیاری کے نوجوانوں نے دو بلوچی سینما فلمیں بنائیں جو ریلیز بھی ہوئیں۔ اس طرح لیاری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ لیاری بلوچی فلم انڈسٹری ہے۔

یہاں میں جان بوجھ کر لیاری اور لیاری سے باہرکے کسی بلوچی فنکار کا نام لیتے ہوئے اجتناب کررہا ہوں کہ بلوچی فنکاروں کی ایک طویل فہرست ہے مضمون میں جگہ کی کمی بھی درپیش ہے اور اگر کسی کا نام سہوا رہ گیا تو اچھی بات نہیں ہوگی۔

الغرض یہ کہ بلوچی فنکاروں جس میں اداکار،اداکارائیں،موسیقار، گلوکار،ہدایتکار،کہانی نویس، فلمساز اور ٹیکنیشن بھی شامل ہیں ان سب نے مل کر بلوچی فن و ثقافت کی فروغ کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہے اور دے رہے ہیں وہ ناقابل فراموش ہے کیوں کہ یہ سب پیدائشی فنکار ہیں جو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں انھوں نے کسی فن کی اکیڈمی سے تربیت حاصل نہیں کی ہاں چند ایک سینئیر بلوچی فنکار ایسے ہیں جنھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ پہلے اپنی پیدائشی فنی صلاحیتوں سے کیا مگر بعد میں انھوں نے باقاعدہ فنی اکیڈمیوں سے تربیت حاصل کی ان ناموں میں دو نام سر فہرست ہیں ایک دانش بلوچ اور دوسرا ولی رئیس ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ کامیاب بھی یہی ہوئے ہیں۔ باقی بھی کامیاب ہورہے ہیں۔ شکیل مراد نوعمری میں بلوچی وڈیو کیسٹ فلموں میں وارد ہوئے لیکن بہت جلد اپنی جداگانہ انداز سے معروف ہوگئے ۔ وقار بلوچ بلوچی وڈیو کیسٹ فلموں کے پہلے سپر اسٹار کا لقب پاچکے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھرم رکھا ہے۔ دانش بلوچ،بلوچی فنی دنیا کے علاؤہ اردو فنی دنیا میں بھی نام رکھتے ہیں وہ متعدد ٹی وی ڈراموں میں کام کر چکے ہیں۔

ان فنکاروں کے نام ضمنی طور پر لیے گئے ہیں اس لیے وہ فنکار دل میں نہ لائیں جن کا ذکر رہ گیا ہے موقع ملا آیندہ کوئی ایسا مضمون لکھوں گا جس میں تمام بلوچی فنکاروں کے نام کا ذکر کرنا آسان ہوں۔ یہاں یہ بات باعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت کے تحت لیاری میں لیاری کے فنکاروں کے لیے آرٹس کونسل اور ڈھائی سو نشستوں والا ہال زیر تعمیر ہے جہاں لیاری کے فنکاروں کو انر جی ملے گی اور وہ مزید بہتر سے بہتر انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا کریں گے۔ ڈرامہ کمیٹی کے ذمے داران قابل تحسین ہیں جنھوں نے بلوچی اسٹیج ڈرامہ وش رنگ کو کراچی میں اسٹیج کرنے کا بھر پور موقع فراہم کیا جہاں بلوچی فنکاروں کے ساتھ ساتھ بلوچی فن و ثقافت کو بھی اعلیٰ سطح پر فروغ حاصل کرنے کا موقع ملا۔

Load Next Story