موسمیاتی تبدیلی، درپیش چیلنجز

یہ تبدیلیاں عالمی ایشو ہے ان سے بچنے کے لیے پوری دنیا کو کردار ادا کرنا ہو گا

فوٹو : فائل

آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) کے 29 ویں اجلاس میں یورپی یونین، امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے 2035 تک سالانہ بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو 300 ارب ڈالر فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

بلاشبہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے امیر ممالک کی جانب سے کلائمٹ فنڈنگ میں اضافہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے آنے والی آفتوں کا سب سے زیادہ شکار غریب ممالک ہیں اور فنڈنگ کے لیے کیے جانے والے وعدوں کے باوجود امیر ممالک اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کر رہے ہیں۔

موسمی تبدیلیوں کے باعث یکے بعد دیگرے بحرانوں سے ورلڈ فوڈ مارکیٹ میں بحران، خطوں میں خوراک کی عدم دستیابی اور مقامی آبادیوں کی نقل مکانی جیسے مسائل پیدا ہوں گے جو مستقبل میں امن اور سلامتی کے لیے خطرات بن سکتے ہیں۔ انھی وجوہات کے سبب عالمی سطح پر سیکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ سادہ اور آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی متاثر ہوگی، قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا، معیشتیں شدید خسارے میں چلی جائیں گی، قدرتی آفات کے تسلسل سے مختلف خطوں اور علاقوں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔

یہ مہاجرین غریب ممالک سے ہجرت کرتے ہیں اور قریبی غریب ملکوں میں ہی جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے معاشروں میں وسائل کی کمی کے باعث مناسب ڈیٹا مرتب نہیں ہو پاتا، اسی وجہ سے مہاجرین کی آڑ میں ایسے عناصر بھی دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، جو بعد میں ان ممالک کی سیکیورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔ ماہرین متفق ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً پونے 8 کروڑ افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں، اگر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو کنٹرول اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ نہ روکا گیا تو مزید تقریباً 2 کروڑ لوگ بھوک کی وادی میں چلے جائیں گے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں (Greenhouse gases) کے اخراج میں اضافہ ہے جو ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسز زمین کی فضا میں موجود ایسی گیسز ہیں جو زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھاتی ہیں، جو چیز انھیں دیگر گیسوں سے ممتاز کرتی ہے، یہ ہے کہ وہ اس ہیٹ ریڈی ایشن کو جذب کر لیتی ہیں جو سیارہ خارج کرتا ہے۔

اس کے نتیجے میں گرین ہاؤس اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جن سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور یہی بڑھتا ہوا درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہے۔ انسان کی جانب سے تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال اور جنگلات کا تیزی سے کاٹا جانا ایسے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھ رہی ہے اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت بھی۔ یہ درجہ حرارت کس رفتار سے بڑھ رہا ہے اس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ اب تک دنیا کا مجموعی درجہ حرارت تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے، گو پاکستان کا کلائمیٹ چینج میں ایک فیصد بھی حصہ نہیں، لیکن ہم کلائمیٹ چینج سے ساتویں سب سے زیادہ متاثر ملک ہیں۔ پاکستان کو 2 سال قبل تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، 30 ارب ڈالر تخمینہ نقصان کی صورت میں برداشت کرنا پڑا ۔ درحقیقت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں میں شدت آتی جا رہی ہے، موسمی اثرات کی وجہ سے فصلوں کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں کلائمیٹ پر بڑی تیزی کے ساتھ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے۔ رواں برس، مارچ میں وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا تھا۔ اس موقعے پر وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی میں سب سے کم کردار ادا کرتے ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔‘‘

 ایک رپورٹ کے مطابق 2025تک آدھی سے زائد دنیا پانی کی قلت اور کسی حد تک خشک سالی کا شکار ہوجائے گی۔ ایسی ہی رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کلائمیٹ کنٹرول کے عالمی سطح پر انتظامات نہ کیے گئے تو 2045 تک دنیا پانی کی کمی کے باعث قحط کی لپیٹ میں آ جائے گی۔

موسمیاتی تبدیلیاں بھی پانی میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں عالمی ایشو ہے ان سے بچنے کے لیے پوری دنیا کو کردار ادا کرنا ہو گا تاہم اس سے پہلے کہ پانی کی کمی کے باعث صورتحال قحط سالی تک پہنچ جائے۔ پاکستان کو فوری طور پر اقدامات کا آغاز کرنا ہوگا۔ بھارت سے اپنے حصے کے پانی کے حصول کے لیے پوری تیاری کے ساتھ متعلقہ عالمی فورمز سے رجوع کرنے کے ساتھ مجوزہ آبی ذخائر کی جلد تکمیل کرنا ہوگی۔ بڑے ذخائرکی تعمیر کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ان کی تعمیر جاری رہے، ان کے ساتھ چھوٹے ذخائر پر توجہ دی جائے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس کے مخالفین کو تعمیر پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر آبی قلت کے حوالے سے ممکنہ ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے بلا تاخیر تعمیر کے آغاز کی متقاضی ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سر اُبھارنے والی قدرتی آفات سے جو 10 ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات کس قدر واضح اور شدید ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران ملک کے درجہ حرارت میں سالانہ 0.63 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جب کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والے بحیرہ عرب کے ساحلوں پر پانی کی سطح سالانہ ایک ملی میٹر کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ موسمیات اور آب و ہوا کے ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ آنے والے برسوں میں ان اثرات کے تیزی سے بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ ان پیش گوئیوں کے مطابق موسمیاتی واقعات، ماحولیاتی انحطاط اور فضائی آلودگی، یہ تینوں عوامل مل کر 2050تک پاکستان کے جی ڈی پی میں 18 تا 20 فیصد تک کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات لوگوں کے طرزِ رہائش اور ان کے ذرایع معاش پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے عوامل میں حصے دار نہیں ہیں، نہ ہی ان کا ان تبدیلیوں میں کوئی براہ راست عمل دخل ہے۔ اس کے باوجود ان ممالک کو ان تبدیلیوں کے اثرات و نتائج کو تسلیم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ پاکستان اس وقت کر رہا ہے۔ پاکستان سمیت کئی خطوں میں تیز اور بے موسم کی بارشیں، ریکارڈ برف باری، ہوا میں نمی کے تناسب کا معمول سے زیادہ بڑھنا یا کم ہونا، کہیں زیادہ سردی پڑنا یا زیادہ گرمی پڑنا یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔

یونیسکیپ (The United Nations Economic and Social Commission for Asia and the Pacific) یعنی اقوام متحدہ کا اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان اپنے سالانہ جی ڈی پی کے نو فیصد سے ہاتھ دھو سکتا ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (The Intergovernmental Panel on Climate Change) اقوام متحدہ کا ایک بین الحکومتی ادارہ ہے، جس کا کام انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں سائنسی معلومات کو آگے بڑھانا ہے۔

اس ادارے نے خبردار کیا ہے کہ گرمی کی شدت اور بن موسم بارشوں نے پاکستان کی زرعی پیداوار کو شدید طور پر متاثر کیا ہے اور اس نوعیت کے موسمی واقعات کی تعداد مستقبل میں بڑھ سکتی ہے اور اگر یہ بڑھی تو پاکستان جو پہلے ہی غذائی تحفظ کے لحاظ سے شدید خطرے کا شکار ہے، مزید مسائل میں گھر جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے برسوں میں اہم غذائی اور نقد آور فصلوں جیسے گندم، گنا، چاول، مکئی اور کپاس کی کاشت میں نمایاں کمی کی پیشگوئی کر چکا ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمیں بے حد محتاط ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب ہم نہیں ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آ جانے کی وجہ سے ان سے بچنا ہم پر لازم ہو چکا ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کے لیے تو واویلا یقینا جاری رکھنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ہر فرد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنے حصے کا کردار بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمی معاملات کے ماہر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گاڑیوں اور مشینوں کا استعمال کم کرنا، پیدل چلنا، ورزش کرنا اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانا انفرادی سطح پر ایسے اقدامات ہیں، جن کے ہمارے ماحول اور موسموں پر مجموعی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

Load Next Story