سیاسی اتحاد اور دوریاں
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان سے کیے گئے معاہدوں پر عمل کر رہی ہے نہ حکومتی فیصلوں میں اعتماد میں لے رہی ہے، اپنے طور پر من مانے فیصلے کر رہی ہے، اسی لیے میں نے جوڈیشل کونسل سے علیحدگی اختیار کر لی ہے، ہمیں شکایات ضرور ہیں مگر ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔
بلاول بھٹو وہی ہیں کہ جو پی ڈی ایم حکومت میں رہ کر سولہ ماہ تک وزیر خارجہ کی حیثیت سے دنیا بھر کے دورے کرکے ذاتی امیج بناتے رہے اور ان کے وزیر اعظم دنیا بھر میں پاکستان کے لیے امداد اور قرضے لینے کے لیے شاہانہ دورے کرتے رہے اور وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول زرداری نے دنیا بھر کے دورے تو کیے مگر وہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تھے جس کی توقع تھی اور ملک مزید مقروض ہوگیا اور قرضوں کے لیے پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا اور ہمارے قریبی دوست ممالک کو بھی مشورہ دینا پڑا کہ اپنی پالیسیاں بدلیں اور خود بھی اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کی کوشش کریں۔
پی ڈی ایم حکومت کی مدت مکمل ہو کر عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی بلاول بھٹو نے مسلم لیگ (ن) سے ایسی دوری اختیار کی تھی جیسے وہ سولہ ماہ تک (ن) لیگ کے حلیف تھے ہی نہیں۔ انھوں نے (ن) لیگ کی سیاسی مخالفت شروع کردی تھی اور ان کی انتخابی مہم کا نشانہ صرف مسلم لیگ (ن) تھی اور پنجاب میں انھوں نے (ن) لیگ کے خلاف مہم بھرپور طور چلائی تھی۔
بلاول بھٹو نے (ن) لیگ پر شدید تنقید کی پالیسی تو اپنائی مگر خود لاہور سے بھی (ن) لیگ کے ہاتھوں ہار گئے تھے مگر نادیدہ قوتوں نے پی ٹی آئی کے مقابلے کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو پھر آپس میں ملنے پر مجبور کیا، جس کے نتیجے میں بلاول بھٹو کا وزیر اعظم بننے کا خواب تو پورا نہیں ہوا مگر آصف زرداری ملک کے دوسری مرتبہ صدر مملکت (ن) لیگ کی حمایت سے منتخب ہوگئے تھے اور میاں شہباز شریف نے بھی ریکارڈ بنا لیا کہ وہ تسلسل سے پی پی کی حمایت سے وزیر اعظم منتخب کرا لیے گئے تھے جو پہلے کسی کو حاصل نہیں ہوا کہ وہ نگران حکومت کے بعد پھر وزیر اعظم بنے تھے ۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مختلف نظریات اور اپنے اپنے منشور رکھنے والی پارٹیاں ضرور ہیں کہ جنھوں نے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑا۔ ایک دوسرے کی بھرپور مخالف رہیں مگر حالات کے جبر نے پھر ایک دوسرے سے مل کر حکومت بنانے پر مجبور کردیا ہے اور پی پی تحفظات اور شکایات کے باوجود حکومت کے ساتھ ہے۔
سیاسی پارٹیوں کے طور پر ماضی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے 1988 کے بعد باری باری جو وفاقی حکومتیں بنائی تھیں ان میں ایم کیو ایم، جے یو آئی ایف، ایک بار جماعت اسلامی اور بار بار چھوٹی جماعتیں مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ چٹھہ، اے ایس پی، مسلم لیگ (ف) و دیگر شامل تھیں اور نوابزادہ نصر اللہ خان بھی ایک بار بے نظیر حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے تھے اور مولانا فضل الرحمن نے بھی مسلم لیگ (ن) اور پی پی سے تعلقات اچھے رکھے اور جے یو آئی ان کی حکومتوں میں اور پی ڈی ایم حکومت میں شامل رہے مگر حالیہ حکومت سازی میں پی پی اور (ن) لیگ نے مولانا کے ساتھ سیاسی بے وفائی ضرور کی اور پی ٹی آئی مولانا کے قریب جانے میں کامیاب رہی جس کی ذمے دار دونوں حکومتی پارٹیاں ہیں اور مولانا اب بھی ان حکومتی پارٹیوں سے خوش نہیں ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے پہلی بار 2008 کے انتخابات کے بعد پی پی حکومت میں وزارتیں لی تھیں مگر ججز بحالی کے مسئلے پر وعدہ خلافی پر پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور صدر آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت کی مدت پوری کرا لی تھی۔
2018 میں پی ٹی آئی سے بالاتروں نے ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) کا اتحاد کرا کر حکومت بنوائی تھی جس کا سب سے زیادہ مسلم لیگ (ق) نے فائدہ اٹھایا تھا اور زیادہ نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم نے ایک وزارت پر قناعت کی تھی اور پھر جن کے کہنے پر (ق) لیگ اور ایم کیو ایم پی ٹی آئی حکومت میں آئی تھیں، انھی کے کہنے پر عدم اعتماد کے موقع پر پی ٹی آئی سے بے وفائی کر گئی تھیں۔
سیاسی بے وفائی میں پی ٹی آئی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی، اس نے اپنے اصولوں پر ہمیشہ سیاسی مفاد کو ترجیح دی۔ اپنی سیاسی دشمن ایم کیو ایم کو گلے لگایا مطلب نکلنے پر برا بنا دیا اور آئینی ترمیم رکوانے کے لیے پی ٹی آئی نے مولانا کو اپنا بڑا بنایا اور ناکام رہنے پر مولانا سے بھی آنکھیں پھیر لیں ۔ سیاسی بے وفائیاں ہر جماعت نے اپنے حلیفوں سے کیں اور اس سلسلے میں کسی کا کوئی اصول نہیں رہا۔ ایم کیو ایم تینوں بڑی حکومتوں میں شامل رہی اور کچھ بعید نہیں کہ مطلب کے لیے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مستقبل میں ایک نظر آئیں۔