داغدار جمہوریت اور جرائم پیشہ ارکانِ پارلیمنٹ
ساری دنیا میں بھارت کی بڑی دھوم ہے کہ یہ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
ساری دنیا میں بھارت کی بڑی دھوم ہے کہ یہ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت کی تعریف کرنے والے یہ راگ بھی الاپتے سنائی دیتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک، بھارت، میں کبھی فوجی حکومت نہیں آئی۔ درست لیکن ''دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت'' کا باطن کس قدر تاریک ہے اور اس کی پارلیمنٹ کے درجنوں ارکان کتنے بدعنوان اور داغی ہیں، اس کا بھانڈا بھارت ہی کے اخبارات پھوڑ رہے ہیں۔
نریندر مودی وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن ان کی تشدد پسند اور مسلمان دشمن پارٹی، بی جے پی، کے منتخب درجنوں ارکانِ اسمبلی جرائم پیشہ بھی ہیں، اس کا انکشاف بھی بھارتی میڈیا اور بھارت کی طاقتور این جی اوز کررہی ہیں۔ بھارت کی دو غیر سرکاری تنظیموں نے موجودہ بھارتی لوک سبھا یعنی بھارت کی قومی اسمبلی کے 53منتخب سیاستدانوں کی فہرست شایع کی ہے جو نہایت سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں اور ان کے خلاف کئی اعلیٰ بھارتی عدالتوں میں اب بھی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔
بھارت کے نامور قانون دان اور دانشور جناب اے جی نورانی نے بھی اپنے ایک حالیہ انگریزی آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ ان 53 سیاستدانوں میں 24ایسے ارکانِ اسمبلی ہیں جو ''بھارتیہ جنتا پارٹی'' کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے ہیں اور کریمنل کورٹس میں ان کے خلاف سنگین جرائم کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا بھی ہے تو انھی ملزم ارکانِ اسمبلی کو اطمینان ہے کہ انھیں پانچ سال تک تو کوئی بھی عدالت ڈس کوالیفائی نہیں کرسکے گی کیونکہ بھارتی قوانین کے تحت عدالتوں میں کسی بھی مقدمے کو دس سال تک آسانی کے ساتھ کھینچا جاسکتا ہے۔
گویا بھارتی جمہوریت کو داغدار کرنے میں کرپٹ بھارتی سیاستدان اور عدالتیں یکساں کردار ادا کررہی ہیں۔ اس سے قبل 19مئی 2014 کو ممتاز بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے بھی انکشاف کیا تھا کہ جو بھارتی سیاستدان منتخب ہوکر لوک سبھا میں بیٹھنے جارہے ہیں، ان میں ایک سو بارہ افراد ایسے ہیں جن کے خلاف مختلف بھارتی عدالتوں میں نہایت سخت الزامات کے تحت مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان مقدمات میں قتل، اقدامِ قتل، اغواکاری، عورتوں کی عصمت دری اور فرقہ وارانہ فسادات کروانے ایسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
بھارتی اخبارات ہی کی شایع شدہ رپورٹوں کی بنیاد پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ اگر بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے تو پھر حقائق کی بنیاد پر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ بھارتی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی بدعنوان اور داغدار پارلیمان ہے۔ بھارت ہی کے ایک نامور جریدے ''انڈیا ٹوڈے'' نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ دولتمند اور سرمایہ دار بھارتی سیاستدان اپنے ملک کے مؤثر اخبار نویسوں اور اینکر پرسنوں کو رشوت دے کر اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام اور ذلیل کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کی مبینہ کرپٹ پارلیمان اور منتخب بدعنوان ارکانِ پارلیمنٹ کے خلاف بھارت ہی کے ایک سابق چیف جسٹس، محمد ہدایت اللہ، کئی برس قبل کہہ چکے ہیں کہ اب تیزی سے بدلتے حالات میں کرپٹ سیاستدانوں کو لوک سبھا میں آنے سے روکنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے کئی بدنامِ زمانہ ارکان جس طرح بھاری اکثریت سے جیت کر لوک سبھا کے رکن بنے ہیں، تقریباً چار عشرے قبل جسٹس ہدایت اللہ کے کہے گئے یہ الفاظ آج پوری صحت کے ساتھ بھارتی پارلیمنٹ پر منطبق ہورہے ہیں۔ بھارت ہی کے ایک نامور بیوروکریٹ بی کے نہرو نے 1981 میں کہا تھا کہ آیندہ ایام میں بھارت کے دولتمند اور کرپٹ افراد ہی منتخب ہوکر رکنِ پارلیمنٹ بنا کریں گے۔ انھوں نے ایک بھارتی صوبے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تو تیس فیصد سے زائد ارکان اسمبلی قاتلوں اور اغواکاروں میں شامل ہیں۔
بھارت کے سابق چیف جسٹس جناب ہدایت اللہ نے برسوں قبل بھارتی سیاستدانوں کے بارے میں جو پیشگوئی کی تھی، وہ اپریل/مئی 2014 کے عام بھارتی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے دل دہلا دینے والی ایک اور رپورٹ شایع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بھارتی پارلیمنٹ، جہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہے، کے ارکان میں جس سیاستدان کے پاس کم سے کم سرمایہ ہے، اس کی مالیت بھی پندرہ کروڑ ہے۔ اگر ان دولتمند منتخب بھارتی سیاستدانوں کے کُل سرمائے کو اکٹھا کیا جائے تو یہ ساڑھے چھ ہزار کروڑ روپے بنتا ہے۔
ان کروڑ پتی بھارتی سیاستدانوں میں بی جے پی کے 237، کانگریس کے 35، تامل ناڈو کی آئی اے ڈی ایم پارٹی کے 29اور مغربی بنگال کے ترنمول کانگریس پارٹی کے اکیس ارکان شامل ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کا نہ صرف نہایت دولتمند طبقہ پہلی بار خود رکنِ پارلیمنٹ بنا ہے بلکہ بھارت کے ارب پتی تاجروں نے دانستہ اپنے چندے کی طاقت سے نریندر مودی اور بی جے پی کو جتوایا ہے تاکہ بھارت میں سرمایہ دار طبقات کے مفادات کو نہ صرف تحفظ دیا جائے بلکہ انھی کی پسندیدہ پالیسیاں بنائی جائیں۔
یہی وہ طبقہ ہے جو صوبہ گجرات میں مسلسل پندرہ برس نریندر مودی کی طاقت کا نہ صرف محور تھا بلکہ اسی طبقے نے نریندر مودی کو ایک کامیاب وزیراعلیٰ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی دولتمند اور کرپٹ طبقے کی پشت پناہی سے دنیا بھر میں نریندر مودی کی نام نہاد کامیاب معاشی پالیسیوں کی گونج سنائی دیتے رہی۔ یہاں تک کہ اسے ایک ''دیوتا'' بنا کر پیش کیا گیا کہ اب وہی پورے بھارت کو بنا اور سنوار سکتا ہے؛ چنانچہ اسی طاقتور لہر پر سوار ہو کر چائے فروش کا بیٹا، نریندر مودی، بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔
سوال یہ ہے کہ بھارت کے اس بدعنوان اور کرپٹ منتخب طبقے کی موجودگی میں بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو ''ہاں'' میں ہے کہ بھارتی جمہوریت کے فریم آف ورک میں رہتے ہوئے ایک غریب اور تہی دامن چائے فروش کا بیٹا ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گیا لیکن دوسری طرف اس سوال کا جواب ''ناں'' میں بھی ہے کہ بھارت کے اکثریتی طبقے میں احساسِ محرومی مزید پھیل رہا ہے اور دلی سے ناراضیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
یہ احساس بڑھ اور پھیل کر بھارت کی یک جہتی میں دراڑیں ڈالنے کا موجب بھی بنے گا۔ نریندر مودی اور ان کے ارب پتی مگر بدعنوان اور جرائم پیشہ ساتھی کب تک لوک سبھا میں رہ کر بھارت کو اکٹھا رکھنے میں کامیاب رہ سکیں گے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے یہ داغدار ممبر ہی بھارت اکائی کو بکھیرنے میں عمل انگیز کا کام کریں گے۔ بھارت کی شمالی ریاستوں میں یہ عمل تو شروع بھی ہوچکا ہے۔
نریندر مودی وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن ان کی تشدد پسند اور مسلمان دشمن پارٹی، بی جے پی، کے منتخب درجنوں ارکانِ اسمبلی جرائم پیشہ بھی ہیں، اس کا انکشاف بھی بھارتی میڈیا اور بھارت کی طاقتور این جی اوز کررہی ہیں۔ بھارت کی دو غیر سرکاری تنظیموں نے موجودہ بھارتی لوک سبھا یعنی بھارت کی قومی اسمبلی کے 53منتخب سیاستدانوں کی فہرست شایع کی ہے جو نہایت سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں اور ان کے خلاف کئی اعلیٰ بھارتی عدالتوں میں اب بھی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔
بھارت کے نامور قانون دان اور دانشور جناب اے جی نورانی نے بھی اپنے ایک حالیہ انگریزی آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ ان 53 سیاستدانوں میں 24ایسے ارکانِ اسمبلی ہیں جو ''بھارتیہ جنتا پارٹی'' کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر آئے ہیں اور کریمنل کورٹس میں ان کے خلاف سنگین جرائم کے تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا بھی ہے تو انھی ملزم ارکانِ اسمبلی کو اطمینان ہے کہ انھیں پانچ سال تک تو کوئی بھی عدالت ڈس کوالیفائی نہیں کرسکے گی کیونکہ بھارتی قوانین کے تحت عدالتوں میں کسی بھی مقدمے کو دس سال تک آسانی کے ساتھ کھینچا جاسکتا ہے۔
گویا بھارتی جمہوریت کو داغدار کرنے میں کرپٹ بھارتی سیاستدان اور عدالتیں یکساں کردار ادا کررہی ہیں۔ اس سے قبل 19مئی 2014 کو ممتاز بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے بھی انکشاف کیا تھا کہ جو بھارتی سیاستدان منتخب ہوکر لوک سبھا میں بیٹھنے جارہے ہیں، ان میں ایک سو بارہ افراد ایسے ہیں جن کے خلاف مختلف بھارتی عدالتوں میں نہایت سخت الزامات کے تحت مقدمات زیرسماعت ہیں۔ ان مقدمات میں قتل، اقدامِ قتل، اغواکاری، عورتوں کی عصمت دری اور فرقہ وارانہ فسادات کروانے ایسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
بھارتی اخبارات ہی کی شایع شدہ رپورٹوں کی بنیاد پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ اگر بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے تو پھر حقائق کی بنیاد پر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ بھارتی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی بدعنوان اور داغدار پارلیمان ہے۔ بھارت ہی کے ایک نامور جریدے ''انڈیا ٹوڈے'' نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ دولتمند اور سرمایہ دار بھارتی سیاستدان اپنے ملک کے مؤثر اخبار نویسوں اور اینکر پرسنوں کو رشوت دے کر اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام اور ذلیل کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کی مبینہ کرپٹ پارلیمان اور منتخب بدعنوان ارکانِ پارلیمنٹ کے خلاف بھارت ہی کے ایک سابق چیف جسٹس، محمد ہدایت اللہ، کئی برس قبل کہہ چکے ہیں کہ اب تیزی سے بدلتے حالات میں کرپٹ سیاستدانوں کو لوک سبھا میں آنے سے روکنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے کئی بدنامِ زمانہ ارکان جس طرح بھاری اکثریت سے جیت کر لوک سبھا کے رکن بنے ہیں، تقریباً چار عشرے قبل جسٹس ہدایت اللہ کے کہے گئے یہ الفاظ آج پوری صحت کے ساتھ بھارتی پارلیمنٹ پر منطبق ہورہے ہیں۔ بھارت ہی کے ایک نامور بیوروکریٹ بی کے نہرو نے 1981 میں کہا تھا کہ آیندہ ایام میں بھارت کے دولتمند اور کرپٹ افراد ہی منتخب ہوکر رکنِ پارلیمنٹ بنا کریں گے۔ انھوں نے ایک بھارتی صوبے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تو تیس فیصد سے زائد ارکان اسمبلی قاتلوں اور اغواکاروں میں شامل ہیں۔
بھارت کے سابق چیف جسٹس جناب ہدایت اللہ نے برسوں قبل بھارتی سیاستدانوں کے بارے میں جو پیشگوئی کی تھی، وہ اپریل/مئی 2014 کے عام بھارتی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے دل دہلا دینے والی ایک اور رپورٹ شایع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بھارتی پارلیمنٹ، جہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہے، کے ارکان میں جس سیاستدان کے پاس کم سے کم سرمایہ ہے، اس کی مالیت بھی پندرہ کروڑ ہے۔ اگر ان دولتمند منتخب بھارتی سیاستدانوں کے کُل سرمائے کو اکٹھا کیا جائے تو یہ ساڑھے چھ ہزار کروڑ روپے بنتا ہے۔
ان کروڑ پتی بھارتی سیاستدانوں میں بی جے پی کے 237، کانگریس کے 35، تامل ناڈو کی آئی اے ڈی ایم پارٹی کے 29اور مغربی بنگال کے ترنمول کانگریس پارٹی کے اکیس ارکان شامل ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کا نہ صرف نہایت دولتمند طبقہ پہلی بار خود رکنِ پارلیمنٹ بنا ہے بلکہ بھارت کے ارب پتی تاجروں نے دانستہ اپنے چندے کی طاقت سے نریندر مودی اور بی جے پی کو جتوایا ہے تاکہ بھارت میں سرمایہ دار طبقات کے مفادات کو نہ صرف تحفظ دیا جائے بلکہ انھی کی پسندیدہ پالیسیاں بنائی جائیں۔
یہی وہ طبقہ ہے جو صوبہ گجرات میں مسلسل پندرہ برس نریندر مودی کی طاقت کا نہ صرف محور تھا بلکہ اسی طبقے نے نریندر مودی کو ایک کامیاب وزیراعلیٰ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی دولتمند اور کرپٹ طبقے کی پشت پناہی سے دنیا بھر میں نریندر مودی کی نام نہاد کامیاب معاشی پالیسیوں کی گونج سنائی دیتے رہی۔ یہاں تک کہ اسے ایک ''دیوتا'' بنا کر پیش کیا گیا کہ اب وہی پورے بھارت کو بنا اور سنوار سکتا ہے؛ چنانچہ اسی طاقتور لہر پر سوار ہو کر چائے فروش کا بیٹا، نریندر مودی، بھارت کا وزیراعظم بن گیا۔
سوال یہ ہے کہ بھارت کے اس بدعنوان اور کرپٹ منتخب طبقے کی موجودگی میں بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا ایک جواب تو ''ہاں'' میں ہے کہ بھارتی جمہوریت کے فریم آف ورک میں رہتے ہوئے ایک غریب اور تہی دامن چائے فروش کا بیٹا ملک کا چیف ایگزیکٹو بن گیا لیکن دوسری طرف اس سوال کا جواب ''ناں'' میں بھی ہے کہ بھارت کے اکثریتی طبقے میں احساسِ محرومی مزید پھیل رہا ہے اور دلی سے ناراضیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
یہ احساس بڑھ اور پھیل کر بھارت کی یک جہتی میں دراڑیں ڈالنے کا موجب بھی بنے گا۔ نریندر مودی اور ان کے ارب پتی مگر بدعنوان اور جرائم پیشہ ساتھی کب تک لوک سبھا میں رہ کر بھارت کو اکٹھا رکھنے میں کامیاب رہ سکیں گے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے یہ داغدار ممبر ہی بھارت اکائی کو بکھیرنے میں عمل انگیز کا کام کریں گے۔ بھارت کی شمالی ریاستوں میں یہ عمل تو شروع بھی ہوچکا ہے۔