2016ء میں مودی سرکار کو للکارنے والی شہلا رشید
2016ء میں دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار کو کیمپس میں مبینہ طور پر کچھ نعرے لگنے کے بعد بغاوت کے مقدمے میں گرفتاری کا سامنا ہوا تو ان کی کابینہ کی نائب صدر شہلا رشید تھیں، جنھوں نے کنہیا کمار کی گرفتاری کے بعد بھرپور طریقے سے طلبہ یونین کی قائم مقام صدر کی ذمہ داری نبھائی اور یہیں سے کنہیا کمار اور شہلا رشید کی شہرت ہندوستان بھر سے نکل کر دیگر ممالک تک جا پہنچی۔
سری نگر میں آنکھ کھولنے والی شہلا رشید شورا ’جے این یو‘ میں وہ پہلی کشمیری طالبہ تھیں، جو ’جے این یو‘ میں طلبہ یونین کی نائب صدر بن سکیں۔ اس وقت شہلا رشید نے کہا تھا کہ ’’انھوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کی بدسلوکی کے باوجود کبھی خود کو دیگر طلبہ سے الگ نہیں سمجھا، وہ آج بھی خود کو کمیونسٹ کے طور پر متعارف کراتی ہیں، لیکن جب ان کی مذہبی شناخت پر حملے کیے جاتے ہیں، تو انھیں دکھ ہوتا ہے۔ ’آر ایس ایس‘ کہتی ہے کہ ’جو افضل گرو کی بات کرے گا وہ افضل کی موت مرے گا!‘ کیا یہ اس سزا پر مکالمہ کرنے والے اساتذہ اور ججوں کو ماریں گے۔
افضل گرو محض بہانہ ہے۔ ’آر ایس ایس‘ اس سے پہلے بھی مختلف یونیورسٹیوں میں پروگراموں پر مارپیٹ کرتی رہی ہے۔ پورے سماج کی طرح جامعات میں بھی دلت طالب علموں سے تعصب برتا جا رہا ہے، ہمارے پاس آئے روز ہندوستان بھر سے ایسے واقعات درج ہوتے ہیں۔ ’بی جے پی‘ ہندوستان بھر کی مختلف ریاستوں میں اٹھنے والے طلبہ کو بری طرح کچل رہی ہے۔ روشن خیال اساتذہ کو دھونس، دھمکی اور مقدمات سے ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے فقط یونیورسٹیوں پر حملہ سمجھا سنگین غلطی ہوگی، یہ پوری ریاست پر حملہ ہے، طلبہ ہندوستان کی دستوری ساکھ کو بچانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔‘‘
2016 کے بعد 2018ء تک کے مختلف مذاکروں میں وہ بدستور ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ پر خوب گرجتی اور برستی دکھائی دیتی رہیں، ان کے انتہا پسندانہ اقدام کو للکارتی رہیں، ذات پات، تقسیم کرنے والے قوانین سے آزادی کی بات کرتی ہیں، قانون نافذ کرنے والوں کے ذریعے طاقت کے استعمال اور ملک کی ایک فی صد اشرافیہ کی غلامی سے آزادی کی بات کرتی ہیں۔
انھوں نے ’جے این یو‘ میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’ہمیں جو سزا مل رہی ہے وہ اپنے اختیار کا مطالبہ کرنے پر مل رہی ہے، ہم یہ سزا خوشی خوشی قبول کریں گے، ہمیں پھانسی پر لٹکنا پڑا ہم لٹکیں گے! ہم اگر لڑتے لڑتے شہید ہو جاتے ہیں، تو ہم شہید ہونے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ’آر ایس ایس‘ ہمیں حب الوطنی اور غداری کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتے۔ ہم تو ’اے بی وی پی‘ (بی جے پی کا طلبہ ونگ) کے لوگوں کے لیے بھی غداری کا مقدمہ عائد کرنے کے خلاف ہیں، اگر وہ بھی کوئی نعرے لگا رہے تھے، تب بھی ہم نہیں چاہتے کہ کسی پر غداری کا یہ الزام لگے، کیوں کہ حکومتیں اس کا غلط استعمال کرتی ہیں، غداری کا یہ قانون دراصل کہتا ہے کہ ہمیں سرکار سے پیار کرنا پڑے گا۔ اس لیے ہم اس قانون کے خلاف ہیں۔‘‘
2018ء تک انھیں بدستور نریندر مودی اور حکم راں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کو آڑے ہاتھوں لیتے دیکھا جاسکتا تھا، پھر وقت آگے بڑھا اور ماضی کی کامریڈ شہلا رشید 17 مارچ 2019ء کو ہندوستانی کشمیر کی سیاسی جماعت ’جموں کشمیر پیپلز موومنٹ‘ میں شامل ہوگئیں، جو وہاں کے سابق سول سروس افسر شاہ فیصل کی جانب سے یہ کہہ کر قائم کی گئی تھی کہ انھوں نے سول سروس میں اپنے 10 برس جیل کی طرح گزارے ہیں۔
اس دوران اگست 2019ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع قرار پانے والی ریاست کشمیر کو باقاعدہ ہندوستان کے صوبے کا درجہ مل گیا، جس پر وہاں شدید ردعمل ہوا اور ہندوستان کو وہاں طویل ترین کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اسی اثنا میں اکتوبر 2019ء میں شہلا رشید سیاست سے کنارہ کش ہوگئیں، جب کہ شاہ فیصل بھی اگست 2020ء میں سیاست سے واپس افسرشاہی کی سمت لوٹ گئے۔
اس کے بعد نومبر 2023ء میں جب شہلا رشید نے اپنے ایک انٹرویو میں پہلی بار ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے قانون دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد اب کشمیری کی صورت حال تبدیل ہوگئی ہے۔۔۔! تو ان کے اس بیان پر ان کے مداح اور پیروکار انگشت بدنداں رہ گئے، اور انھیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ یہ شہلارشید ہی ہیں، انھوں نے شدید اچنبھے سے یہ سب دیکھا کہ ایک متحرک اور نوجوان طالبہ جو ابھی چار سال پہلے تک ’بی جے پی‘ سرکار کے خلاف صف اول میں لڑ رہی تھی، اور نہایت جرأت مندی اور بہادری سے اس حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کر رہی تھی، وہ آج اسی ’بی جے پی‘ حکومت اور اسی وزیراعظم نریندر مودی کی تعریف کر رہی ہے۔۔۔!
وہ بائیں بازو کی بلند آہنگ نظریات کی حامل ایک سادہ، مگر دبنگ کامریڈ شہلا رشید شورا چند برسوں میں اس قدر کیسے بدل گئیں۔۔۔؟ یہی سوال ان سے واقف کار ہر فرد کے ذہن میں ہے، وہ بھی ایک ایسے نازک موڑ پر کہ جب ہندوستانی حکومت نے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردیا، جس کے سخت ردعمل میں مقبوضہ وادی میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔
بھارتی فوج کے پاس اس ردعمل سے نمٹنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ وہاں کرفیو لگا دے، انٹرنیٹ بند کردے اور نقل وحرکت کے بنیادی انسانی حقوق کو ہی سلب کر ڈالے، ایسے میں نریندر مودی کی وہی ناقد طالبہ یہ اعلان کرتی ہے کہ یہ قدم اچھا ہے۔۔۔! اس سے کشمیریوں کی زندگی بدل رہی ہے، کشمیری نوجوان اب اسپتالوں ، جیل خانوں اور قبرستانوں کے بہ جائے تعلیم گاہوں، کتب خانوں اور مثبت سرگرمیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں اور انھیں یہی کرنا چاہیے۔۔۔!
ہم بھی سرحد پار کے ان طالب علموں میں شامل رہے، جس نے 2016ء میں ’جے این یو‘ کی اس طلبہ تحریک کو رشک بھری نظروں سے دیکھا تھا اور اس حوالے سے ’ایکسپریس‘ کے انھی صفحات پر مضامین بھی لکھے تھے، اس وقت کی طلبہ یونین کے تمام اراکین اب جہاں اپنی عملی زندگیوں میں آ چکے ہیں، وہیں اس وقت عتاب کا شکار ہونے والے کشمیری طالب علم عمرخالد ایک بار پھر پابند سلاسل ہیں، ساتھ ہی اس وقت کی نائب صدر شہلا رشید کے صدر کنہیا کمار کمیونسٹ پارٹی سے ہوتے ہوئے اب انڈین نیشنل کانگریس کا حصہ بن چکے ہیں۔
چلیے کم از کم وہ اس وقت مودی مخالف موقف پر تو کاربند ہیں، لیکن شہلا رشید نے تو اپنے نظریات سے 360 ڈگری کے زاویے پر پلٹا کھایا ہے۔ لوگ اُس وقت کے نظریات کو ’جذباتی پن‘ کہہ کر نظرانداز کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، لیکن چار سال میں اور فقط 36 سال کی عمر میں انسان کی ایسی بھی کون سی ’جذباتیت‘ ختم ہو جاتی ہے کہ آپ کہیں کہ جوانی میں تو سبھی سرخے ہوتے ہیں اور اب بہت سنجیدہ عمر ہوگئی ہے!
شاید اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مضبوط ریاستی طاقت اور نظریے کی تحریک میں کوئی لمحہ ایسا بھی آجاتا ہے کہ جب آپ کو کسی صورت میں بھی نظریہ بچانا پڑجاتا ہے، اور تحریک تو نام ہی ایسے ’وائرس‘ کا ہوتا ہے کہ جو حالات کی کٹھنائی میں اپنی بنیادی صورت کو کسی نہ کسی طرح بچانے کے لیے کوئی بھی طریقہ تراش سکتا ہے۔ ایسے ہی جدوجہد کرتے کرتے کبھی ہتھیار بھی ڈالنے پڑ جاتے ہیں، باقاعدہ شکست کھا کر نہیں، بلکہ وقت کی ضرورت اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے یہ فقط ایک مفاہمت کے واسطے ہوتا ہے۔
اس لیے باقاعدہ سرنگوں تو نہیں ہوتے، لیکن کچھ حاصل کرنے کے لیے لچک اور ’تبدیلی‘ دکھانی پڑجاتی ہے، جس میں حقیقی معنوں میں اپنے لوگوں اور اپنی قوم کے وسیع تر مفاد پنہاں ہوتے ہیں، لیکن کیا ہر ایسے واقعے میں واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔؟ صحیح معنوں اس کا حقیقی تعین آنے والا وقت کرتا ہے۔ جیسے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں سے شکست کے بعد سرسید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کی حالت سنوارنے کے واسطے جو طریقہ اختیار کیا، اُسے اس وقت بھی شدید لعن طعن اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور آج بھی ناقدین ان کے کردار کو غلط اور ذلت آمیز بھی قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی زندگی میں جو تبدیلی رونما ہوئی، اسے سامنے رکھیے تو سرسید کے متنازع ہونے کے دسیوں پہلوؤں کے باوجود سرسید اپنی تحریک میں کام یاب ٹھیرے تھے۔
بالکل ایسے ہی جب کوئی نظریاتی فرد اپنے سابقہ طور طریقوں سے رجوع کرتا ہے، جیسے 1988ء میں سری نگر میں آنکھ کھولنے والی شہلارشید کہتی ہیں کہ انھوں نے تو آنکھ کھولتے ہی کشمیر میں جنگ وجدل ہی ہوتے دیکھی، خود ان کے خاندان کے لوگ اس کٹھنائیوں سے گزرے، گلی کوچوں میں گولیاں، بارود اور نوجوانوں کی شہادتیں، قبرستان کے قبرستان بھرتے گئے۔ تو ایسے میں اگر سوچنے والا یہ سوچتا ہے کہ کیا ہے اگر ’مائی باپ‘ کو رام رام کرکے اپنے لوگوں کی زندگی کو بہتر کرنے کے لیے کچھ حاصل کرلیا جائے۔ ممتاز ہندوستانی صحافی برکھا دت کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں شہلارشید نے بھی کچھ یہی بات کہی کہ ہم مرکز میں موجود حکومت سے مل کر ہی اپنے لیے کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔
اگر ایسا نہیں کریں گے تو ’عام آدمی پارٹی‘ کی طرح روتے رہیں گے۔ شہلا رشید نے اپنے تبدیل ہونے کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’’میں نہیں کشمیر تبدیل ہوا ہے۔۔۔! لوگ ہندوستانی قوانین کا حصہ بننے کے فوائد سے مطمئن ہو رہے ہیں، کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ 30 برس کے بعد یہاں کام کاج کے لیے صورت حال بہتر ہوئی ہے۔‘‘ اس لیے ہم حسن ظن رکھتے ہوئے شہلا رشید کی اس تبدیلی کو طاقت سے ٹکرانے کے بہ جائے اپنے لوگوں کے مفاد کے لیے اختیار کی گئی ایک حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
شہلا رشید اپنی کتاب کے ساتھ!
2020ء میں ’کورونا‘ کی وبائی صورت حال کے بعد شہلا رشید کافی عرصے منظرنامے سے غائب رہیں، اس حوالے سے انھوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ وہ اس دوران بوجوہ ڈپریشن کا شکار رہیں، جس کے لیے انھیں معالجین اور ادویات کا سہارا بھی لینا پڑا، لیکن وہ منظرنامے پر جب ایک بدلے ہوئے روپ میں لوٹیں تو پھر انھوں نے اپنی ایک کتاب کا مژدہ بھی سنایا، جو 30 اکتوبر 2024ء کو منصہ شہود پر آئی۔
اس وقت وہ اپنے موجودہ موقف کے دفاع سے زیادہ اپنی حالیہ تصنیف رول ماڈلز: انسپائرنگ اسٹوریز آف انڈین مسلم‘ ('Role Models: Inspiring Stories of Indian Muslim) سے متعلق زیادہ گفتگو کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، اس حوالے تقریب رونمائی، کتاب کی مختلف مقامات پر دست یابی اور اپنے مداحوں اور قارئین کے واسطے اپنے دست خط سے مزین نسخوں کی ترسیل ان کی نمایاں سرگرمیاں ہیں۔ شہلا رشید کا خیال ہے کہ وہ مسلمانوں کا اچھا تاثر دنیا کے سامنے لانا چاہتی ہیں، اس واسطے انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے ہندوستانی مسلمانوں کو قلم بند کیا ہے۔
انھیں شکایت ہے کہ ہندوستانی اور مغربی فلموں میں مسلمانوں کا اچھا تاثر پیش نہیں کیا جاتا، وہ کتاب کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہیں کہ مسلمان کیا کچھ اچھا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کا اصل چہرہ یہی لوگ ہیں نہ کہ دہشت گرد یا منفی سرگرمیوں میں ملوث لوگ۔ شہلا رشید کہتی ہیں کہ اس کتاب کے لیے ان کی خواہش تھی کہ وہ شاہ رخ خان اور ثانیہ مرزا سے بھی گفتگو کریں، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
اگر مستقبل میں ایسا ہوتا ہے تو اس کتاب کی دوسری جلد بھی آسکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں مسلمانوں پر قابل اعتراض فلموں اور کتابوں پر تشدد کے ذریعے ردعمل دینے کے بہ جائے جوابی فلم اور جوابی کتاب لکھ کر اپنا موقف سامنے لانا چاہیے، ہنگامہ کرکے تو ہم منفی باتیں کرنے والوں کو ثبوت دے رہے ہوتے ہیں کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔