سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم

دیوان ٹیک چند کا تعلق سیت پور ضلع ملتان (اب ضلع، ظفرگڑھ) سے تھا۔

سیت پور میں میاں طارق احسان صاحب کے پاس ظہرانے کی میز پر براجمان تھا کہ انہوں نے دیوان ٹیک چند کا ذکر چھیڑ دیا۔ بتانے لگے کے ان کی بہت بڑی اور زبردست حویلی تھی سیت پور میں آپ کو دکھاتا ہوں۔

میں پُرجوش ہوگیا کہ کھانے کے بعد ایک اور پرانی اور زبردست جگہ دیکھنے کو ملے گی لیکن یہ کیا، انہوں نے موبائل پر چند تصاویر کھول کے آگے کردیں۔

یہ سن کہ دل ٹوٹ گیا کے یہ حویلی اب منہدم کی جاچکی ہے اور صرف تصاویر میں باقی ہے۔آہ۔۔۔۔ سیت پور کا ورثہ۔

خیر، دیوان صاحب کے بارے میں سُن کر اور میاں صاحب کے پاس حویلی کی تصاویر دیکھ کے میں نے یہ تہیہ کرلیا کہ اس پر مزید تحقیق کرکے اسے منظرِعام پر لانا ہے۔ کم از کم ہمارے وسیب واسیوں کو علم تو ہو کے انہوں نے کیسا خزانہ کھویا ہے۔

دیوان ٹیک چند

دیوان ٹیک چند کا تعلق سیت پور ضلع ملتان (اب ضلع، ظفرگڑھ) سے تھا۔ 1875 میں ان کی پیدائش کہاں ہوئی یہ معلوم نہیں  ہوسکا۔ اُن کے آباء اجداد کا والیانِ ریاست کے ساتھ بہترین تعلق تھا۔ ساتھ ہی وہ سیت پور میں ایک بڑی جاگیر کے مالک بھی تھے۔

سیت پور میں ان کی بہترین خاندانی حویلی بھی تھی جس کے وسیع صحن میں دو قدیم اور گھنے درخت اب بھی موجود ہیں۔ اُس دور میں ان درختوں کو ہندو دودھ سے سیراب کرتے تھے اور آج لوگ انہیں ’’کھیری والے درخت‘‘ کہتے ہیں۔ تقسیم کے بعد یہاں لڑکوں کا سرکاری اسکول بنا دیا گیا تھا، لیکن میاں صاحب کے بقول یہ جگہ انہوں نے خود اسکول کو عطیہ کردی تھی۔ کافی عرصہ وہ حویلی قائم رہی لیکن چند برس پہلے بوسیدہ قرار دے کر گرا دی گئی۔

ان کی نواسی کے مطابق وہ سیت پور و ملتان سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لندن چلے گئے جہاں مڈل ٹیمپل (قانون کی ڈگری دینے والا ایک ادارہ) سے انہوں نے بار ایٹ لا کی ڈگری لی۔

وہ 1895 میں لندن میں آئی سی ایس کے لیے منتخب ہوئے اور اس کے بعد ہندوستان واپس آگئے۔ انہیں دسمبر 1895 میں اسسٹنٹ کمشنر ہوشیار پور مقرر کیا گیا تھا اور غالباً وہ پہلے چند ہندوستانی آئی سی ایس افسران میں سے ایک تھے۔ وہ 1923 میں امبالہ ڈویژن کے کمشنر بنے۔

ٹیک چند فارسی کے اسکالر بھی تھے اور مصر میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1910 میں انہوں نے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں پہلی جنگِ عظیم کے دوران قابلِ قدر خدمات پر 1918 میں او بی ای (آرڈر آف دی برٹش ایمپائر) سے نوازا گیا۔  وہ وائسرائے کی کونسل کے رکن تھے اور انہیں ’’دی آنرایبل‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔

انہوں نے جن عوامی عمارتوں کی تعمیروتزئین وآرائش میں اپنا کردار ادا کیا ان میں 1914 کی ننکانہ صاحب کی ایک عمارت،  گھنٹہ گھر لُدھیانہ اور کُرکشیترا کا گیتا بھون شامل ہیں۔

گیتا بھون میں آج بھی ان کی ایک تصویر دیکھی جا سکتی ہے جس کی پہچان پہلے ایک معمہ تھی لیکن اندرا پسریچا کے دورے کے بعد، اسے ایک نام مل گیا۔

ترپن سالہ دیوان ٹیک چند کا انتقال 1928 میں بطور کمشنر امبالہ ہوا (اس لحاظ سے ان کا سنِ پیدائش 1875 بنتا ہے)۔

دیوان ٹیک چند کی نواسی کی یادیں

اندرا پسریچا 17 جنوری 1917 کو سیت پور ضلع ملتان (اب ضلع مظفرگڑھ) میں  ہندو دیوان فیملی میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا تعلق سیت پور سے تھا جب کہ والد بھیرہ (ضلع سرگودھا) کے رہنے والے تھے۔

 اِندرا جی نے کنیئرڈ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور پھر 28 اپریل 1940 کو لاہور میں ہی پریم پسریچا سے شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔  تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان نے لاہور سے ہجرت کی اور دہلی میں سکونت اختیار کی۔

اندرا پسریچا جی ایک سماجی کارکن بھی تھیں جنہوں نے 1984 کے نئی دہلی فسادات  کے دوران سکھوں کو بچانے میں فعال کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے شوہر پریم پسریچا کے ساتھ مل کر اڑیسا کے قبائلیوں کی ایکل ودیالیہ اور امراضِ چشم کے کیمپ لگانے میں مدد کی۔  2017 میں بعمر سو سال، دہلی میں ان کا انتقال ہوا۔

مرنے سے صرف پانچ دن پہلے انہوں نے اپنی بھتیجی ’’نیرا بُورا‘‘ کو یہ انٹرویو ریکارڈ کروایا جس کا ترجمہ کر کیمیں یہاں پیش کر رہا ہوں۔

نیرا بُوورا ، نیو دہلی ، 2017

میرے نانا ’’دیوان ٹیک چند‘‘ کا تعلق سیت پور ضلع ملتان (اب ضلع، ظفرگڑھ) سے تھا۔ وہ بہت پُرعزم اور علم کے شیدائی انسان تھے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم سیت پور سے حاصل کی اور مُلتان میں ایمرسن کالج سے  گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وکالت کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔

قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ’’آئی سی ایس‘‘ کے امتحان میں شریک ہوئے اور امتحان پاس کرکے امپیریل سول سروس کا حصہ بنے۔

جب وہ انگلینڈ میں تھے تو ان کی بیوی دو بچوں کے ساتھ، اُن کے والدین کے ساتھ رہنے چلی گئیں۔ بڑا  بیٹا ’’کھیم چند‘‘ تھا اور چھوٹی بیٹی رام دیوی، یعنی میری ماں تھیں۔

 جب میرے نانا انگلستان سے واپس آئے تو انہیں ’’شُدھی ہَون‘‘ (تطہیر کی رسم)  کے لیے ہری دوار جانا پڑا تاکہ یہ وسیع خاندان انہیں قبول کر لے۔ وہ کسی مرکزی شہر میں بسنا چاہتے تھے جہاں اچھے اسکول ہوں اور آب و ہوا بھی اچھی ہو۔ انھوں نے دہرہ دون میں 14، نیو روڈ پر ایک مکان خریدا اور شمالی ہندوستان کے پُرفضا شہر دہرہ دون منتقل ہوگئے۔

 میری والدہ کے بھائی کرنل براؤن کے اسکول گئے۔ لیکن میری والدہ کو مسوری کے ویورلے کانونٹ میں بھیج دیا گیا، کیوںکہ دہرہ دون میں لڑکیوں کے لیے کوئی اچھا اسکول نہیں تھا۔ وہ وہاں ہوسٹل میں رہتی تھیں۔ ویورلے کانونٹ میں کھانے کو گوشت پیش کیا جاتا تھا، لیکن ایک ہندو ہونے کے ناتے وہ گائے کا گوشت نہیں کھا سکتی تھیں۔ چناںچہ ان کا کھانا دھوبن (کپڑے دھونے والی عورت) پکایا کرتی تھی۔

ویورلے میں انہوں نے فرانسیسی و انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور پیانو بجانا سیکھا۔ جب دہرہ دون میں ’’کِنیا مَہاوِدیالَے‘‘ کھل گیا تو انہوں نے ویورلے کانونٹ چھوڑ دیا۔

ماما کے بعد، نانا نانی کے ہاں تین بیٹے اور ہوئے۔  نانک چند، شاستری چند اور مصری چند (جو رائل برٹش انڈین سروس میں بطور پائلٹ بھرتی ہوئے اور بھارتی حکومت نے آپ کا یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا)۔ ماما اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے اپنے والد کی پسندیدہ تھیں۔ وہ ڈاک ٹکٹ جمع کرتی تھیں، ایک بہت اچھی گھڑ سوار ہونے کے علاوہ وہ شطرنج میں بھی بہت اچھی تھیں۔

میرے چچا کھیم چند قانون کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ گئے۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو انہیں واپس بلایا گیا۔ وہ بہت خوش قسمت واقع ہوئے۔ وہ اپنا سامان چھوڑ کر پڑھنے کے لیے کتاب خریدنے گئے اور جب وہ واپس آئے تو جہاز جا چکا تھا۔ پھر وہی جہاز بعد میں تارپیڈو سے تباہ کر دیا گیا۔

وہ لاہور واپس آئے، اور ماڈل ٹاؤن کو تعمیر کرنے میں جُت گئے۔ وہاں بنایا گیا پہلا گھر ہمارا تھا۔ وہاں مالٹے کے بہت سے درخت تھے۔ کبھی ہم وہاں جا کر ویک اینڈ گزارتے تھے کیوںکہ اس جگہ ہر طرف جنگل تھا۔

چچا کھیم کا ایک بیٹا تھا، پریم، جو مجھ سے ایک سال بڑا تھا، اور ایک بیٹی وید کماری تھی جو جلد مرگئی تھی۔

چچا کھیم کو پرانی چیزیں جمع کرنے میں دل چسپی تھی۔ انہوں نے ایک تہہ ہوجانے والا چرخہ خریدا تھا جو میں نے ان سے لیا تاکہ میں کاتنا شروع کر سکوں۔ شوگر کے مرض میں اچانک اُن کا انتقال ہوگیا۔

اپنے کیریئر کے ایک مرحلے میں، میرے نانا امبالہ کے کمشنر تھے۔ ہم وہاں سے شملہ جایا کرتے تھے۔  میری نانی، جنہیں اماں جی کہا جاتا ہے، ان کا بیٹا اور بیوی (میری مامی) بھی ہمارے ساتھ شامل ہوتے تھے۔

شملہ گئے تو ایک بار ٹرانزٹ کے دوران ہم نے گاندھی جی کو کراس کیا۔ میرے نانا وہیں رک گئے اور گاندھی جی سے کچھ باتیں کیں (نیرا کے بقول یہ غالباً 1920 کی دہائی کے اوائل یا وسط میں تھا)۔

جب میرے نانا امبالہ کے کمشنر تھے، انہوں نے کروکشیتر (بھارتی ریاست ہریانہ کا ضلع) میں گیتا بھون نامی آشرم بنوایا تھا۔ مجھے یاد آیا کہ میں بھی اپنے والدین کے ساتھ امبالہ گئی تھی جب سنگِ بنیاد رکھا جا رہا تھا۔ میری عمر تقریباً 8 یا 9 سال تھی۔

 اپنے دادا، روچی رام ساہنی (معروف ماہرِتعلیم، سائنس داں، مذہبی اصلاح پسند اور ٹریبیون اخبار شائع کرنے والے ٹریبیون ٹرسٹ کے ٹرسٹی) کے لیے یادگاری ڈاک ٹکٹ کے اجراء کے لیے 2013 میں پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ گئی تو میں نے اپنے کزن رمن آنند سے کہا کہ وہ مجھے کروکشیتر لے جائیں کیوںکہ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ وہاں ہال میں میرے نانا کی تصویر لٹکی ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی نام نہیں تھا۔ وہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کس کی تصویر ہے۔

چندی گڑھ میں، میں نے اپنے کزن کُوکُو سے کہا کہ وہ مجھے خاندانی تصویریں دکھائیں اور جلد ہی مجھے ایک تصویر مل گئی جس میں میرے دادا اور نانا دونوں موجود تھے۔ میں نے اس سے تصویر لی اور گیتا بھون کے حکام کو دکھائی۔ میں اس جگہ تک گئی جہاں وہ تصویر رکھی تھی اور اس کے ساتھ انہیں اپنے نانا کی تصویر دکھائی۔ وہ سب چِلائے ’’ہو بہو ایک جیسی۔‘‘

وہ سب حیران تھے کہ مجھے اتنے سال پہلے کا انبالہ جانا یاد اب بھی یاد ہے۔

اگلے دن ایک مقامی اخبار نے اطلاع دی کہ گیتا بھون کی نامعلوم تصویر کا معما حل ہوگیا ہے۔

یہ وہ انٹرویو تھا جس میں اندرا جی نے اپنی بہت سی یایدں سانجھی کیں اور اسی بہانے ہمیں بھی دیوان ٹیک چند کے بارے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ شخصیات چاہے ہندو ہوں، سکھ یا مسلم، اُن سے جڑے ورثے اور تاریخ کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ 

اس تحریر کے لیے میں خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا سیت پور کے محقق جناب میاں طارق احسان کا جنہوں نے نہ صرف مجھے معلومات فراہم کیں بلکہ اپنے تصویری خزانے میں سے حویلی دیوان ٹیک چند کی تصاویر بھی عنایت کیں۔

کچھ تصاویر وسیب ایکسپلورر کے ڈاکٹر مزمل حسین صاحب کی عنایت کردہ ہیں، ان کا بھی مشکور ہوں۔

Load Next Story