مغالطے
انسان کا سب سے بڑا ذہنی مرض وہ ہے جو حقیقت کے برعکس اس کے اندر نفسیات پیدا کرتا ہے اور وہ ہے اہمیت کا مغالطہ۔ کچھ لوگ بعض تاریخی یا غیر تاریخی اسباب کے تحت ہر معاملے میں اپنے آپ کو غیر ضروری طور پر اہم سمجھ لیتے ہیں، اپنی خواہشات کے زیر اثر اپنی بات ہی کو درست سمجھتے ہوئے اپنی مرضی دوسروں پر بہ زور قوت مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نہ تو اپنے آپ کو صحیح طور پر سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے بارے میں حقیقت پسندانہ رائے قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اہمیت اور بے اہمیت دونوں ذہنی مغالطے ایسے امراض ہیں جو شخص ان میں مبتلا ہو گیا، گویا اس نے اپنے لیے گھاٹے کا سودا کیا۔ جو شخص اپنے آپ کو فرضی طور پر غیر اہم سمجھ لے تو وہ کوئی دانش مندانہ اقدام کرنے سے گھبرائے گا، وہ کوئی بڑا کام کرنے کے لیے خود کو نااہل سمجھے گا۔ وہ اپنی فعالیت بھی کھو دے گا اور آج کی متحرک دنیا میں بے حس و حرکت پڑا رہے گا۔
بے اہمیتی کے مغالطے کی قیمت آدمی کو خود ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس مغالطے کی دوسری قسم یعنی خود کو اہم سمجھنے کا مغالطہ پہلی قسم سے زیادہ خوف ناک، خطرناک اور سنگین نتائج کا حامل ہے۔ کیوں کہ بے اہمیتی کا مغالطہ تو صرف اپنی ذات کے حق میں زہر ہے لیکن خود کو اہمیت دینے کا ذہنی مغالطہ پورے سماج، معاشرے اور کبھی کبھی قوموں کے حق میں زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
اہمیت کے مغالطے میں مبتلا شخص اپنے آپ کو اس سے بہت زیادہ سمجھنے لگتا ہے جتنا کہ فی الواقع وہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی سوچ کے اصل دائرے سے باہر نکل کر خود کو غیر حقیقی اور غیر واقعی طور پر بہت بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ وہ ہر صورت اپنی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے، خواہ اس کے لیے اسے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے اور کسی حد تک بھی جانا پڑے۔ دراصل وہ اس ذہنی مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کو جو درجہ دیتے ہیں وہ اس کو اس سے بہت کم نظر آتا ہے جو اس کے اپنے نزدیک اس کا درجہ بنتا ہے۔
اس لیے اسے دوسرے تمام لوگ غلط نظر آنے لگتے ہیں۔ بعینہ وہ اپنے سوا ہر دوسرے شخص کو غلط سمجھنے لگتا ہے اور جذبات میں اس قدر آگے چلا جاتا ہے کہ اپنے برمقابل کو اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی اہمیت کا مغالطہ اسے جارحیت کی طرف لے جاتا ہے جو معاشرے، سماج اور ملک و قوم کے لیے بھی ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے۔
مذکورہ پس منظر میں وطن عزیز کے حالات، ارباب اقتدار، صاحب اختیار اور اپوزیشن کے قول و عمل اور مجموعی کردار و سوچ کا جائزہ لیں تو معذرت کے ساتھ راقم کو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ سب کے سب اپنی ہی اہمیت کے زعم میں مبتلا اور بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔
حزب اقتدار اور سرکاری اختیارات رکھنے والے طاقتور حلقے اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے اپنی قوت اور وسائل کا استعمال کر کے اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کو ’’قابو‘‘ کرنے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت اپنے مقید بانی کی ہدایت پر عوام کی حمایت اور طاقت کے ذریعے اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے احتجاج کے راستے پر گامزن اور ارباب اقتدار اور صاحب اختیار لوگوں سے اپنے مطالبات منوانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
ہر دو فریق طاقت کے استعمال سے اپنی اہمیت ثابت کرنے اور اپنی بات منوانے کے بڑے مغالطے کا شکار ہیں۔ دونوں فریق ضد، انا اور میں نہ مانوں کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔
کوئی فریق بات چیت و مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم سے اپنے مسائل حل کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی طویل چارج شیٹ ہمہ وقت دونوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کو غیر سنجیدہ، ناقابل قبول اور ملک و قوم کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ وطن عزیز انھی احباب اور ان کے بڑے پیش رو جو اب ماضی کا قصہ بن گئے، افراد کی وجہ سے آج اس حال کو پہنچا ہے۔ معیشت ڈوب رہی ہے، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط گلے کا ہار بن گئی ہیں، ہنرمند افراد اور سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں، بیرون ملک سرمایہ کار آنے کو تیار نہیں، امن و امان خراب ہے، دہشت گردوں کی سرکوبی کے دعوے نقش برآب ثابت ہو رہے ہیں، ضلع کرم میں مسافروں کی گاڑیوں پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے 44 افراد کی شہادت نے امن کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے، لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنی اہمیت کے زعم میں ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال سے اپنی بات منوانے کے مغالطے کا شکار ہیں۔ حکومت نے اسلام آباد کو کنٹینرز کے ذریعے چاروں طرف سے بند کر دیا ہے۔
پنجاب اور کے پی کے سے اسلام آباد آنے والے تمام راستے سیل کر دیے گئے ہیں۔ لوگ گھروں میں اور مریض اسپتالوں میں قید ہو کر رہ گئے، موٹرویز بند، پورے ملک میں موبائل فون سروس معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، حکومت دھمکیاں دے رہی ہے کہ جو بھی اسلام آباد آئے گا اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔
ادھر پی ٹی آئی بھی اپنے احتجاج سے مطالبات کی منظوری تک دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ایک صوبے کو وفاق کے ساتھ لڑایا جارہا ہے ، یہ سب کچھ اپنے مفادات کے تحت کیا جارہا ہے ، صوبے کے عوام کی بھلائی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حالات کو نارمل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر دو فریق اپنے اپنے مغالطے کے زعم سے باہر نکلیں اور مذاکرات کے ذریعے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے تحت افہام و تفہیم سے معاملات طے کریں بصورت دیگر ملک میں نہ سیاسی استحکام آئے گا نہ معاشی اور نہ ہی امن کا قیام ممکن ہوگا۔