پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد
حسن نواز برطانیہ میں دیوالیہ قرار دے دیے گئے۔ نواز شریف خاندان نے اس خبر کی تشریح کرتے ہوئے ایک اعلامیے میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اتفاق فاؤنڈری کے قومیانے سے لے کر سابق صدر پرویز مشرف کے دور تک ہونے والی انتقامی کارروائیوں کو شریف خاندان کے مالیاتی بحران کا ذمے دار قرار دیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے آئینی اصلاحات کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت پر وعدوں پر عملدرآمد نا کرنے کا الزام لگایا ۔بلاول بھٹو نے اپنے بیانیہ کو یوں بیان کیا کہ آئینی بنچ میں اندرونِ سندھ سے تعلق رکھنے والے ججوں کو شامل کرنا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کے معاندانہ رویے کی بناء پر جوڈیشل کمیشن سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر ملک مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کی حکومت ان کے مشوروں پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں جب پنجاب حکومت نے صوبہ کی 10سے زیادہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی تقرریوں کی سمری گورنر ہاؤس بھیجی تھی تو گورنر نے اس سمری پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ مگر پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ان اعتراضات کو مسترد کردیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد گورنر صاحب وائس چانسلروں کے تقرر کی سمر ی پر دستخط کرنے پر تیار ہوگئے تھے۔
پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی مسلسل اس بات پر ناراض ہیں کہ وزیر اعلیٰ ان کے اضلاع میں اعلیٰ افسروں کی تقرریوں اور تبادلوں میں منتخب نمایندوں کو اعتماد میں نہیں لیتیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتی ہیں اور ان کی تجویز کردہ تجاویز کو منظور نہیں کیا جاتا۔ جب گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی نے زرعی ٹیکس کا قانون منظور کیا تھا تو پیپلز پارٹی کے اراکین نے اس قانون کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اسمبلی میں احتجاج بھی کیا تھا۔
جب گزشتہ جون میں پنجاب کا بجٹ منظور ہوا تھا تو پیپلز پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے حصے میں مایوسی آئی تھی اور یہ مایوسی اس حد تک بڑھی تھی کہ بعض اراکین تو سخت موقف اختیار کرنے کے حق میں تھے، مگر پھر ایک مصالحتی کمیٹی قائم ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر پرویز اشرف، پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ اور ندیم افضل چن اور مسلم لیگ ن کی طرف سے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثناء اﷲ ، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان اور پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب اس میں شامل تھے۔ ایک سینئر صحافی نے معاہدے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کی جن اضلاع میں اکثریت ہے ان اضلاع کا کنٹرول پیپلز پارٹی کو ملنا چاہیے۔
ان اضلاع میں ملتان، رحیم یار خان، بہاولپور، مظفر گڑھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، راجن پور اور راولپنڈی شامل ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کا موقف تھا کہ ان علاقوں کی ترقی کے لیے پیپلز پارٹی کے اراکین کو ان کے تجویز کردہ فنڈز فراہم کیے جائیں گے اور ان اضلاع میں افسروں کا تقرر اور تبادلے کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کی تجاویز پر عملدرآمد ہوگا۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں میں پیپلز پارٹی کے اراکین کو خاطرخواہ نمایندگی دی جائے گی۔
ان کمیٹیوں میں زکوۃ عشر کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کمیٹیاں شامل ہیں مگر کچھ عرصہ بعد یہ اعلانات آنا شروع ہوئے کہ پنجاب کی حکومت عملی طور پر اس معاہدے سے دور ہوتی گئی اور پنجاب کے اراکین یہ الزام لگانے لگے کہ اس معاہدے کی کسی شق پر بھی عملدرآمد نہیں کرنے میں حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی پنجاب اور مسلم لیگ ن کے اراکین کے درمیان فاصلے طویل ہوتے جارہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے 2018سے پنجاب میں خصوصی توجہ دینی شروع کی، وہ اوران کے والد بار بار لاہور آئے اور دوسرے شہروں میں گئے۔بلاول بھٹو نے لاہور میں پرانے کارکنوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی۔ اسی حکمت عملی کے تحت پیپلز پارٹی کووسطی پنجاب اور مرکزی پنجاب میں تقسیم کیا گیا مگر فروری کے انتخابات میں صرف پنجاب کے جنوبی اضلاع سے کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور تبدیلی نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کا قیام 1967 میں لاہور میں عمل میں آیا تھا۔
پیپلز پارٹی 90 کی دہائی تک پنجاب میں مقبول ترین جماعت تھی ۔ پیپلز پارٹی کی اصل قوت غریب طبقہ تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پنجاب کے کسانوں، مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے تھے۔ پھر پنجاب میں آباد اقلیتوں کی سب سے بڑی آواز پیپلز پارٹی تھی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں شیخ رشید، خورشید حسن، میر مختار رانا، اشفاق احمد خان، اسلم گرداس پوری، جہانگیر بدر اور سیکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں نے مظلوم طبقات کی جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ جب جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی تو بھٹو صاحب کو بچانے کے لیے پنجاب میں سیکڑوں کارکن جیلوں میں بھیج دیے گئے۔ ان میں سے بہت سو کو کوڑے مارے گئے، کچھ کو سزائے موت بھی دی گئی ۔
ایم آر ڈی کی تحریک میں پنجاب کے سیکڑوں کارکن جیلوں میں گئے، مگر 90کی دہائی سے پیپلز پارٹی اپنے اعلیٰ مقاصد سے دور ہوگئی۔ اب سندھ کے وزیراعلیٰ پانی کے مسئلے پر احتجاج کررہے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ چولستان کنال کے مسئلے کے حل کے لیے بین الصوبائی کمیٹی کا اجلاس فوراً ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں اہم عہدہ گورنر کا ہے۔
سردار سلیم حیدر اگرچہ عوامی آدمی ہیں اگر و ہ سندھ کے گورنر کی پیروی کرتے ہوئے گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھول دیں اور نوجوانوں کے لیے آئی ٹی کے کورسز کا آغاز کردیں اور سندھ کے گورنر کی طرح مخیر حضرات کی مدد سے عام آدمی کی مدد کریں تو مسلم لیگ ن کو ضرور اس کا نقصان ہوگا۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے ایک بڑی اعلیٰ سطح کمیٹی بنائی ہے ۔ وزیر اعظم نے بھی اسی طرح کی ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ وفاقی حکومت کی پانی کی پالیسی پر سخت ناراض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چولستان کنال کی تعمیر کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہونا چاہیے تھا، مگر ان مذاکرات سے پہلے ہی شاید وہ مایوسی کا شکار ہیں اور انھوں نے پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس ملتوی کردیا ہے اور وہ دبئی چلے گئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی ساری قوت مزدور ،کسان اور اقلیتیں تھیں مگر پیپلز پارٹی نے مزدور طبقات کی ترجمانی چھوڑ کر پنجاب کے عوام میں اہمیت کھودی تھی جس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا۔ اب تو پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی ایک جیسی حیثیت ہے۔ پیپلز پارٹی کے اکابرین کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی کی حقیقی طاقت مظلوم طبقات ہیں، اگر پیپلز پارٹی ان مظلوم طبقات کے لیے دوبارہ آواز اٹھاتی ہے تو وہ ایک موثر قوت بن سکتی ہے، ورنہ دوسری صورت میں وہ مسلم لیگ ن کی محتاج ہی رہے گی۔