نسل کشی اور فلسطین میں جاری خونریزی
نسل کشی ایک ایسا لفظ ہے جس کا ذکر کرتے ہی ذہن میں ہولناک تصاویر ابھرتی ہیں، ان گنت لاشیں، اجڑے ہوئے گھر، اور انسانی المیے کی وہ کہانیاں جنھیں سن کر دل دہل جاتا ہے۔
یہ اصطلاح سب سے پہلے 1944 میں ایک پولش وکیل رافیل لمکن نے متعارف کروائی، جو ہولوکاسٹ کے ہولناک تجربات کے بعد انسانیت کے لیے ایک تلخ حقیقت بن گئی۔ نسل کشی سے مراد کسی قوم، نسل یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر ختم کرنے یا ان کی بنیادی خصوصیات مٹانے کی منظم کوشش ہے۔ اقوام متحدہ کے 1948 کے ’’کنونشن برائے انسداد نسل کشی‘‘کے مطابق، نسل کشی میں قتل، جسمانی یا ذ ہنی اذیت، نسل کی افزائش کو روکنے کے اقدامات، اور کسی گروہ کے وجود کو تباہ کرنے کے دیگر طریقے شامل ہیں۔
یہ اصطلاح فلسطین کے تناظر میں اور بھی گہری ہوتی نظر آتی ہے۔ آج جب فلسطین کی زمین پر انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، معصوم بچوں کی لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں اور گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے، تو یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ کیا یہ نسل کشی نہیں؟
دنیا نے نسل کشی کی کئی شکلیں دیکھی ہیں۔ سب سے پہلا بڑا واقعہ جو نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے، وہ آرمینیائی نسل کشی ہے، جو پہلی جنگ عظیم کے دوران عثمانی سلطنت میں پیش آئی۔ لاکھوں آرمینیائی باشندوں کو بے دخل کیا گیا، قتل کیا گیا، اور ان کی زمینوں سے جڑیں ختم کی گئیں۔
اس کے بعد نازی جرمنی میں ہولوکاسٹ نے نسل کشی کو تاریخ کا سب سے سیاہ باب بنا دیا، جس میں لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبرز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ روانڈا، بوسنیا، اور میانمار کے مظالم بھی نسل کشی کی بدترین مثالیں ہیں، جہاں طاقتور گروہوں نے کمزور طبقے کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی۔
فلسطین کی تاریخ بھی ایسے ہی سانحات سے بھری ہوئی ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی فلسطین کے عوام کو ایک ایسے جبر کا سامنا کرنا پڑا جو وقت کے ساتھ نسل کشی کی شکل اختیار کر گیا۔ النکبہ، یعنی’’آفت‘‘، وہ لفظ ہے جو فلسطینی اپنی زمینوں سے جبری بے دخلی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، ان کی زمینیں چھین لی گئیں اور ان کے وجود کو مٹانے کی ایک منظم مہم شروع کی گئی۔
یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غزہ کی پٹی ہو یا مغربی کنارہ، فلسطینی عوام کے خلاف ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جنھیں عالمی قوانین نسل کشی کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر بے گناہ افراد کو قتل کیا جا رہا ہے، اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی جارہی ہے، اور زندگی کی بنیادی ضروریات، جیسے پانی اور بجلی، تک رسائی محدود کر دی گئی ہے۔فلسطینی عوام کو ہر گھڑی یہ دھڑکا رہتا ہے کہ کب ان کی یا ان کے پیاروں کی زندگی ختم ہوجائے گی۔ کوئی جگہ ایسی نہیں بچی جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ ہر وقت وہ خوف ہراس میں جی رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کو دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، مگر یہ حقیقت کسی سے چھپی نہیں کہ یہ ادارہ بڑی طاقتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد نہیں۔ فلسطین کے مسئلے پر امریکی پالیسی ہمیشہ اسرائیل کی حمایت میں رہی ہے۔ آج جب اقوام متحدہ میں فلسطینی عوام کے حق میں نسل کشی روکنے کے لیے قرارداد پیش کی جاتی ہے، تو امریکا بار بار اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتا ہے۔
یہ پانچواں موقع ہے کہ امریکا نے فلسطین میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے پیش کی گئی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ اس عمل نے یہ واضح کر دیا کہ انصاف اور امن کے نعروں کے پیچھے صرف طاقت کی سیاست ہے۔ امریکا اسرائیل کو اس حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کو کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں سمجھتا۔
فلسطین میں جاری نسل کشی کے اثرات صرف ان کے موجودہ حالات تک محدود نہیں۔ یہ ایک نسل کو مٹانے اور آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ جب معصوم بچوں کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں، جب گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنایا جاتا ہے، اور جب پورے پورے خاندان ختم کر دیے جاتے ہیں، تو یہ نسل کشی کی سب سے سنگین شکل ہوتی ہے۔فلسطینی عوام کے لیے یہ صرف زمین کا مسئلہ نہیں، بلکہ ان کی شناخت، ثقافت، اور وجود کا مسئلہ ہے۔ اسرائیل کی پالیسیوں کا مقصد صرف زمین پر قبضہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کو ان کی تاریخ اور ثقافت سے جدا کرنا بھی ہے۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک فلسطین میں ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک بھی اس مسئلے پر دہرا معیار اپناتے ہیں۔
ایک طرف وہ جمہوریت اور آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، اور دوسری طرف فلسطین میں ہونے والی نسل کشی پر خاموش رہتے ہیں۔اقوام متحدہ جیسے ادارے کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو کیسے پورا کرے گا، جب دنیا کی سب سے طاقتور قوم اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ فلسطینی عوام کی امیدیں اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے وابستہ ہیں، مگر جب ان کے حقوق پر بار بار سمجھوتہ کیا جاتا ہے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انصاف کا کوئی معیار باقی رہ گیا ہے۔
فلسطین میں جاری نسل کشی صرف ایک خطے کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اپنی خاموشی توڑے اور فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے کھڑی ہو۔ اقوام متحدہ کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ انسانی حقوق اور انصاف کے اصول سب کے لیے برابر ہیں۔
فلسطین کی نسل کشی نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہماری دیے داری ہے، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جہاں اقوام متحدہ، امریکا اور اس کے اتحادی ممالک فلسطین پہ ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں وہیں ساری دنیا کے عوام فلسطین کے حق میں آواز آٹھارہے ہیں تاکہ فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت کو روکا جاسکے۔ ان کے لیے اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ فلسطینی عوام کا مذہب کیا ہے وہ انسانیت کے ناطے اس نسل کشی کو روکنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر رنگ، نسل اور مزہب سے تعلق رکھنے والے اس ظلم کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انسانیت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔