سلطان ٹیپوؒ شہید سے علامہ اقبالؒ کی عقیدت
ملّتِ اسلامی کے شاعرِ اعظم علامہ اقبالؒ سلطان ٹیپوؒ شہید کی جراّت اور جذبوں کے بہت بڑے معترف تھے اور ان سے بے حد عقیدت رکھتے تھے۔ چنانچہ علّامہ اقبال نے اپنے مشہور لیکچرز کے سلسلے میں جب مدراس( چنائی) کے مسلمانوں کی دعوت پر مدراس جانے کا عزم کیا تو انھوں نے اسی وقت سلطان شہید کی مرقد پر حاضری دینے کا ارادہ کرلیا تھا۔
مدراس سے فارغ ہوکر علاّمہ صاحب بنگلور اور میسور کے لیے روانہ ہوئے۔ 9 جنوری 1929کو صبح سوا چھ بجے گاڑی بنگلور چھاؤنی کے اسٹیشن پر رکی۔ مسلمانانِ بنگلور ہزاروں کی تعداد میں علامہ اقبالؒ کے استقبال کے لیے موجود تھے اور انھوں نے پھولوں کے بڑے بڑے ہار ہاتھوں میں تھام رکھے تھے۔
اسٹیشن کو خاص طور پر سجایا گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر مجمع میں سب سے نمایاں حاجی سر اسمٰعیل امین الملک وزیراعظم ریاستِ میسور، حاجی سیٹھ عبدالغفور، کلیم الملک سید غوث محی الدین مدیر اخبار ’’الکلام‘‘ اور محمود خان محمود بنگلوری تھے، جنھوں نے آگے بڑھ کر حکیم الامّت کو ہار پہنائے۔ حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ، علاّمہ صاحب کے استقبال کے لیے مدارس کے ریلوے اسٹیشن پر بھی پہنچے تھے اور مدارس ہی میں انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو بنگلور میں اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی تھی چنانچہ علاّمہ اقبال حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ اور حاجی سیٹھ عبدالغفور کے ساتھ کار میں سوار ہوکر ان کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ چونکہ لوگوں نے موٹر کار کے ساتھ بھاگنا شروع کردیا تھا، اس لیے اسے نہایت آہستہ چلانا پڑا۔
دس بجے صبح مسلم لائبریری بنگلور کے زیر اہتمام علاّمہ صاحب کے اعزاز میں مہاتما گاندھی روڈ پر واقع اوپرا ہاؤس میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں انھیں سپاسنامہ پیش کیا گیا۔ جلسے کی صدارت سر مرزا اسمٰعیل وزیراعظم ریاستِ میسور نے کی۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی جوابی تقریر میں دنیا کے اسلامی کتب خانوں پر روشنی ڈالی اور مسلم لائبریری کو ترقی دینے پر زور دیا اس کے بعد کتب خانہ میں کتابوں کا معائنہ فرمایا اورمہمانوں کی کتاب میں تحریر کیا:
’’جنوبی ہندوستان کے مسلمان نوجوان خصوصاً بنگلور کے مسلمانوں میں اسلامی کلچر کی اشاعت کا پورا احساس پیدا ہوچکا ہے، جس کو میں تمام ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے نیک فال تصور کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنگلور کی مسلم لائبریری نے اس احساس کے پیدا کرنے میں بڑا حصہ لیا ہے اور اراکینِ کتب خانہ کو چاہیے کہ تاریخِ میسور کی قلمی کتابوں کی طرف بالخصوص توجہ فرمائیں‘‘۔ اسی شام دوسرا جلسہ آرٹس اینڈ سائنس کالج کے میدان میں ہوا۔ یہ جلسۂ عام محکمہ تعلیم میسور کی طرف سے منعقد کیا گیا۔ اس میں بنگلور کے ہزاروں تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان جمع تھے۔ اس موقع پر علاّمہ اقبالؒ نے ایک پُر مغز فلسفیانہ تقریر کی۔
رات کا کھانا بنگلور کے ایک اور مسلمان رئیس محمدعلی کے ہاں تھا۔ جس میں ہزارہا معززین مدعو تھے، دعوت کا انتظام میمن تاجروں کی روایات کے مطابق فرشی تھا۔ بنگلور میں مختصر قیام کے دوران میں علّامہ صاحب کی ملاقات وہاں کے شرفاء سے ہوئی اور حاجی اسمٰعیل سیٹھ کی کوٹھی میں ملنے والوں کا ایک تانتا لگا رہا۔علّامہ اقبالؒ کو اطلاع کردی گئی تھی کہ گزشتہ روز بوقت دوپہر مہاراج میسور کی خاص موٹر کار انھیں لینے کے لیے آئے گی۔ چنانچہ 10 جنوری 1929کو تقریباً گیارہ بجے ریاست کے ایک سینئر افسر ایک بڑی موٹر کار لے کر وہاں پہنچ گئے۔ حاجی سر اسمٰعیل سیٹھ کی کوٹھی پر موجود بنگلور کے سیکڑوں اہلِ علم نے علّامہ صاحب کو الوداع کہا اور وہ موٹر کار میں سوار ہوکر میسور کی طرف روانہ ہوگئے۔
ان کی کار دریائے کاویری کا پل عبور کرکے ایک سڑک کے موڑ سے گزررہی تھی کہ چند آدمیوں نے موٹر کار رکوالی۔ ان میں ایک معمر شخص تھا۔ باقی افراد نے چائے سے بھری ہوئی چائے دانی اور پیالے اٹھا رکھے تھے۔ وہ لوگ صبح سے علاّمہ اقبالؒ کو دیکھنے کے منتظر تھے۔ یہ دیہاتی لوگ علّامہ صاحب سے بڑی عقیدت مندی سے ملے اور چائے پیش کی۔ ان میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اس نے لاہور کے انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں ڈاکٹر اقبال صاحب کو ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھتے سنا تھا اور اُس وقت سے وہ ڈاکٹر صاحب کی زیارت کا خواہش مند تھا۔ ڈاکٹر صاحب سوا چار بجے کے قریب میسور پہنچ گئے۔ میسور ایک نہایت صاف ستھرا اور پُر فضا شہر ہے ، موٹر کار انھیں سیدھی ریاست کے مہمان خانے میں لے گئی۔ علاّمہ اقبالؒ فوراً تیار ہوکر مہاراج میسور سے ملاقات کے لیے گئے اور کچھ عرصہ ان کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس آگئے۔
شام کو چھ بجے میسور یونیورسٹی کے زیراہتمام ایک لیکچر یونیورسٹی ہال میں دیا گیا۔ اس جلسے کی صدارت وائس چانسلر نے کی۔ جب علاّمہ اقبالؒ وہاں پہنچے تو ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حاضرین میں یونیورسٹی کے پروفیسروں کے علاوہ شہر کے کئی برہمن اور غیر برہمن شرفاء و فضلا بھی موجود تھے۔ علاّمہ اقبالؒ نے مدارس میں پڑھے ہوئے تین مقالوں میں سے ایک مقالہ اس موقع پر پڑھا۔
11 جنوری 1929کو ریاست میسور کی طرف سے ان کے لیے سلطان ٹیپو کے قلعہ سرنگا پٹم جانے اور وہاں قریب ہی سلطان ٹیپو کے مزار کی زیارت کرنے کا پروگرام تھا۔ صبح تقریباً نو بجے سب موٹر کاروں میں سوار ہوگئے۔ اس قافلے کی ایک موٹر کار میں میسور کے مشہور ومعروف درباری موسیقار علی جان اپنے سازندوں سمیت موجود تھے، جنھیں مہاراج میسور نے اقبال کی صحبت میں رہنے کے لیے خاص طور پر بھیجا تھا۔ علاّمہ صاحب بارہ بجے کے قریب سلطان ٹیپو شہید کے مقبرے یعنی گنبدِ سلطانی پر پہنچے۔ مقبرے کے دروازے پر ریاست کی طرف سے ہر وقت نوبت بجتی رہتی ہے۔
روضہ سیاہ سنگِ مرمر یا سنگ موسیٰ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے مزار کے اندر داخل ہوتے ہی قرآن مجید کی وہ آیت جو شہدا کے بارے میں ہے (وہ جو اﷲ کے راستے میں مارے گئے، انھیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں۔ مگر لوگوں کو شعور نہیں ہے) تلاوت فرمائی۔ گنبدِ سلطانی میں تین قبریں ہیں،سیاہ غلاف والی قبر حیدر علی کی ہے، دائیں طرف دو قبروں میں ایک سنہری قبر فاطمہ سلطانہ، والدہ سلطان ٹیپو کی اور دوسری قبر جس پر سُرخ غلاف ہے، سلطان ٹیپو شہید کی ہے۔ سُرخ رنگ دراصل شہید کی نشانی ہے۔ سلطان ٹیپو نے خود اپنے والدین کو یہاں دفن کیا اور یہ مقبرہ تعمیر کرایا تھا۔
مزار کے اندر کی فضا ایسی ہے کہ انسان پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ علاّمہ اقبالؒ نے جس عقیدت اور خلوص سے روضہ کے اندر فاتحہ خوانی کی، اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ روضے کے اندر چاروں طرف دیواروں اور تعویذوں پر کئی فارسی اشعار شہدا کی شان میں کندہ ہیں۔ روضے سے باقی لوگ تو باہر چلے گئے، لیکن تنہا علامہ اقبالؒ، سلطان شہید کی تربت کے قریب آنکھیں بند کیے دیر تک کھڑے رہے اور کوئی ایک گھنٹے کے بعد باہر نکلے۔ عبداللہ چغتائی لکھتے ہیں کہ میں نے جو منظر اور جو حال علامہ اقبال کا یہاں دیکھا اسے الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔
علاّمہ صاحب روضے سے باہر آئے تو میسور کے مشہور تاجر سیٹھ محمد ابا (عباس) نے پوچھا کہ سلطان شہید نے آپ کو کوئی پیغام دیا۔ علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ ان کی معیّت میں میرا ایک لمحہ بھی بیکار نہیں گزرا۔ پھر فرمایا کہ ایک پیغام تو فوری طور پر ملا ہے اور فارسی کا یہ شعر پڑھا:
در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست
ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست
(اگر جہاں میں مردوں کی طرح عزّت سے زندہ رہنا ممکن نہ ہو تو مردوں کی طرح جاں دے دینا ہی زندگی ہے)
یہ شعر اُس واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب سلطان ٹیپو کو شہادت سے کچھ دیر قبل کسی مشیر نے رائے دی تھی کہ انگریزوں سے مصالحت کرلی جائے تو انھوں نے فوراً جواب دیا تھا کہ ’’گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔
سلطان شہید کے روضے کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد ہے، اس کے باہر صحن میں سب لوگ جاکر بیٹھ گئے اور علی جان نے نہایت سوز کے عالم میں علاّمہ اقبال ؒ کا اردو اور فارسی کلام گانا شروع کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کے آنسووں کا سلسلہ تھمنے میں نہ آتا اور دوسرے حاضرین پر بھی رقت طاری ہوگئی، علی جان یہ کیفیت دیکھ کر گھبراگئے اور گاتے گاتے رک گئے۔ علّا مہ اقبال ؒنے بڑے اضطراب کے عالم میں کہا، ’’رک کیوں گئے ہوجاری رکھو‘‘۔ علی جان کلامِ اقبال گاتے رہے اور اقبالؒ آنسو بہاتے رہے۔(جاری ہے)
نوٹ: اس کالم کے لیے ڈاکٹر جاوید اقبال اور محمود خان بنگلوری کی تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔