کامیابی کے دروازے کیسے کھلیں گے؟
اس جہانِ رنگ و بو میں ہر شخص اپنے من میں کوئی نہ کوئی مراد لے کر اپنے مقصد کے حصول کےلیے کوشاں ہے۔ کامیابی وہ شے ہے جس کی تمنا ہر شخص کرتا ہے۔ مگر کامیابی کیونکر حاصل کی جائے؟ یہ اِس دنیا کا بہت بڑا معما ہے۔
کامیابی حاصل کرنے کے اِس معمے کو مختلف نظریات اور فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی۔ اطالوی مفکر میکاولی نے ’’نتیجہ ہی ذریعے کا جواز دیتا ہے‘‘ کا فارمولا دیا۔ یعنی اگر آپ کسی بھی مقصد کا حصول چاہتے ہیں تو جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر، تمام میسر ذرائع استعمال کیجیے۔ اگر آپ اپنا نصب العین حاصل کرلیتے ہیں تو آپ کے استعمال کردہ ذرائع، چاہے اخلاقی تھے یا غیر اخلاقی، درست اور جائز قرار پاتے ہیں۔
برطانوی ادیب فرانسس بیکن نے ’’اعلیٰ مقام تک جانے کا ہر راستہ گھومتی ہوئی سیڑھیوں سے ہوکر جاتا ہے‘‘ کے فلسفے کا پرچار کیا، جس کا مطلب واضح ہے کہ کوئی بھی شخص غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے بغیر اعلیٰ مقام نہیں پاسکتا۔ لیکن اُن کے یہ تمام فلسفے اخلاقیات کی حدود و قیود کو پامال کرنے کے باعث ناقابلِ عمل ٹھہرے۔
کِسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے میں دو عوامل کا کردار کلیدی ہوتا ہے: اوّل انسان کی اپنی محنت؛ اور دوم قسمت (یعنی fate)۔ اِن دونوں عوامل کے تناسب کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ کچھ لوگ صرف قسمت کو کامیابی کے حصول کےلیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ افراد قسمت کے فیکٹر کو یکسر نظرانداز کرکے صرف محنت کی عظمت کے حامی ہیں۔ مگر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قسمت اور محنت کا کردار 50-50 ہوتا ہے۔ یعنی کامیابی کے حصول کےلیے نصف کردار محنت ادا کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ نصف قسمت ادا کرتی ہے۔ اِسی مفروضے کی بنیاد پر بات جاری رکھتے ہیں۔
کسی بھی دنیاوی مقصد میں کامیابی کو 100 نمبروں کا ایک پرچہ ہی سمجھیے۔ تعلیمی اداروں میں کسی بھی مضمون کے پرچے میں نمبروں کے دو حصے ہوتے ہیں: تھیوری اور سیشنل۔ تھیوری کے مارکس، پرچہ حل کرکے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر حاصل کیے جاتے ہیں جبکہ سیشنل مارکس ممتحن کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور ممتحن اُن مارکس کے معاملے میں مکمل طور پر بااختیار ہوتا ہے۔ سیشنل مارکس دیتے وقت ممتحن، طالب علم کی حاضری، کلاس کنٹری بیوشن، ڈسپلن اور مجموعی رویے کو مدِنظر رکھتا ہے۔ طالب علم کا رویہ کلاس میں اچھا رہا ہو تو اُس کو سیشنل مارکس میں اچھے گریڈز سے نوازا جاتا ہے۔ خراب رویہ رکھنے کی صورت میں وہ سیشنل مارکس سے محروم رہتا ہے۔
اب اِسی فارمولے کو عملی زندگی میں اپلائی کرتے ہیں۔ آپ کا کوئی بھی مقصد، جو آپ اپنی زندگی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، 100 مارکس کا ایک پرچہ ہے جس کا نصف تھیوری ہے اور نصف ’’سیشنل‘‘۔ اپنے مقصد کے حصول کےلیے آپ کی انتھک محنت اور تگ و دو آپ کی تھیوری کے 50 مارکس ہیں جبکہ باقی کے 50 مارکس ’’سیشنل‘‘ ہیں یعنی آپ کی قسمت، مقدر یا fate ہے۔ اِس پرچے کا ممتحن کوئی اور نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ جس طرح تعلیمی اداروں میں سیشنل مارکس کےلیے مجموعی رویہ دیکھا جاتا ہے، بالکل اسی طرح یہ ’’ممتحنِ اعلیٰ‘‘ بھی قسمت کے سیشنل مارکس سے نوازتے وقت یہ دیکھتا ہے کہ امیدوار کا رویہ اُس کے ساتھی انسانوں کے ساتھ، اور ممتحن کے خاندان والوں (الخلق عیال اللہ) کے ساتھ کیسا ہے۔
اگر آپ انسانیت کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں، ایثار و قربانی کا رویہ اپناتے ہیں، اخوت و رواداری کو کام میں لاتے ہیں تو پھر قوی امید ہے کہ ممتحن آپ کو رحمت و قسمت کے پورے سیشنل مارکس 50/50 سے نوازے گا۔ اور اگر آپ کی محنت میں کوئی کوتاہی رہ بھی گئی ہو تو پھر بھی رحمتِ خُداوندی کے شامل حال ہونے سے آپ کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اگر آپ خلقِ خُدا سے منہ پھیر لیتے ہیں اور اخوت و پیار، مہربانی جیسی اقدار کو نظر انداز کرکے صرف مادیت اور اپنی محنت (تھیوری) پر تکیہ کرتے ہیں تو پھر چاہے آپ جتنے چاہے جتن کرلیں، جب رحمتِ خُداوندی کے 50 مارکس ہی شامل نہیں ہوں گے تو آپ کی کامیابی کے امکانات بھی معدوم ہوجائیں گے۔
کامیابی حاصل کرنے کا واحد جائز اور اخلاقی طریقہ یہی ہے کہ خلقِ خُدا کو یاد رکھیے۔ لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کیجیے۔ اُن کے ساتھ محبت سے پیش آئیے۔ اُن کی مدد کیجیے۔ آپ کے یہ اعمال آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرب عطا کریں گے۔ نتیجتاً اللہ آپ کو اپنی رحمت سے نوازے گا اور پھر کامیابیوں کے دروازے آپ پر کھلتے چلے جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔