جسٹس منصور دائمی زیر التوا کیسز کے حل کے لیے سرگرداں
سپریم کورٹ تنازعات کے متبادل حل تلاش کر نے کیلیے سرگرداں ہے،جسٹس منصور شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ دائمی التوا کا شکار تنازعات، کیسز کے فیصلوں کیلئے مزید نئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت کا خیال ہے کہ متبادل تنازعات کا حل ثالثی (ADR) بھی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ پاکستان کی عدالتوں میں تقریباً 2.22 ملین مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 0.35 ملین (347,173) مقدمات سپریم اور ہائی کورٹس کے آئینی بنچوں میں زیر التوا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، زیر التواء کیسز کا بڑا حصہ ضلعی عدالتوں کے پاس ہے، جس کی شرح 82% بنتی ہے، اس ضمن میں دائمی التوا تنازعات کے حل کے حل کیلئے مزید حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلے میں تحریر کیا کہ زیر التوا کیسز کے فیصلوں کیلئے ثالثی ( ADR) بھی ایک راستہ ہے جس کیلئے فریقین نے رضامندی ظاہر کی تھی۔
جسٹس منصور شاہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایک پاؤنڈ ثالثی کی مثال ایک ٹن قانونی چارہ جوئی کے قابل ہے۔ ہماری عدالتوں نے، حال ہی میں ثالثی ( ADR)کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
عدالتوں کو اس ضمن میں نہ صرف زیادہ غور کرنے اور کم مقدمہ چلانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ مراقبہ کے حامی تعصب کا بھی مظاہرہ کرنا چاہیے جو قانونی نظام کے اندر تنازعات کے حل کے لیے قانونی چارہ جوئی کے بجائے ثالثی کے ذریعے حل کرنے کا اشارہ دیتا ہے۔
اس طرح کا تعصب ایک فریق کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتا بلکہ تنازعات کے حل کے ترجیحی طریقہ کے طور پر ثالثی کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ اس یقین پر مبنی ہے کہ تصفیے عام طور پر عدالت کے ذریعہ طے شدہ فیصلوں کے مقابلے میں تمام فریقوں کے لئے زیادہ موثر اور تسلی بخش ہوتے ہیں"
جسٹس شاہ نے تحریری فیصلہ میں کہا کہ کہ ثالثی کے نتیجے میں قانونی چارہ جوئی کے مقابلے میں دونوں فریق وقار اور اطمینان کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے ثالثی کی قدر کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے،اس میں ثالثی کے نتیجے میں ہونے والے بین الاقوامی تصفیہ کے معاہدوں پر اقوام متحدہ کے کنونشن شامل ہیں، انہیں سنگاپور کنونشن برائے ثالثی کہا جاتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ اس حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھجوائی جائے تاکہ متعلقہ حلقوں سے سنگاپور کنونشن کی توثیق کے حوالے سے سفارشات پر غور کیا جا سکے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ قانونی چارہ جوئی کے عمل میں ثالثی کو فریقین کے حق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ "انصاف تک رسائی میں تنازعات کو بروقت اور موثر طریقے سے حل کرنے کا حق شامل ہے۔
ثالثی قانونی چارہ جوئی کے برعکس فریقین کی خودمختاری کا احترام کرتی ہے اور انہیں عمل اور نتائج پر کنٹرول فراہم کرتی ہے۔ عدالت کا کہناتھا کہ مدعیان کوقانونی چارہ جوئی کے مخالف نتائج مالی تناؤ، جذباتی پریشانی، اور ساکھ کو نقصان وغیرہ سے بچنے کا حق حاصل ہے۔
عدالت کا تحریری حکمنامے میں کہنا تھا کہ ثالثی محض قانونی چارہ جوئی کا متبادل نہیں ہے بلکہ نظام انصاف کا ایک تکمیلی اور ضروری حصہ ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے تنازعات کو موثر اور مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ثالثی کو ایک زبردست انتخاب بنانے کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہناتھا کہ ثالثی میں کم قانونی فیس اور اخراجات کم ہوجاتے ہیں اور وقت کی بچت ہوتی ہے کیونکہ اکثر عدالتی کارروائیوں کو فیصلوں میں پہنچنے میں سالوں لگ سکتے ہیں۔
ثالثی کے طریقہ کار میں لچک ہوتی ہے جن میں فریقین اپنے ثالث کا انتخاب کرنا اور کارروائی کے لیے قواعد کا فیصلہ پر متفق ہو جاتے ہیں، عدالتوں میں مقدمات کے برعکس ثالثی کے عمل میں رازداری کا پہلو نمایاں ہے جس سے منفی تشہیر سے بچاجا سکتا ہے۔