صدر بیلاروس کی پاکستان آمد پر مغربی دنیا کی گہری نظر
بیلاروس کے صدر لوکاشنکو تین روزہ دورے کے بعد واپس وطن روانہ ہو گئے۔
پی ٹی آئی کے احتجاج پر فوکس کی وجہ سے اگرچہ اس دورے کو خاص توجہ نہ مل سکی تاہم جس وقت پولیس و پیرا ملٹری یونٹس اسلام آباد کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں تھے، وزیر اعظم ہائوس میں پاکستان اور بیلاروس کے مابین اعلیٰ سطحی مذاکرات ہو رہے تھے۔
ایکسپریس ٹربیون کے مطابق روس کیساتھ گہرے روابط کے باعث ماسکو کی سٹیلائٹ ریاست کے طور پر دیکھنے جانیوالے بیلاروس کے صدر نے کئی بار روس کے سخت پیغامات یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنیوالے یورپی ملکوں تک پہنچائے۔
یوکرین جنگ میں وہ روس کے اتحادی اس ملک میں روسی فوجی اڈے بھی ہیں۔ اس پس منظر میں مغرب کی صدر لوکاشنکو کے دورے پر گہری نظریں ہیں۔
سفارتی حلقوں کے مطابق ایسے وقت جب روس مغرب روابط انتہائی کشیدہ ہیں، صدر لوکاشنکو کا دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل ہے، رواں سال پاکستانی اور روسی حکام کے دوطرفہ دوروں پر بھی تشویش کا اظہار ہو چکا ہے۔
پاک بیلاروس روابط پر امریکا کی گہری نظریں رہی ہیں، اپریل میں امریکا نے بیلاروس کی ایک کمپنی پر پاکستانی میزائل پروگرام کیلیے ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا الزام عائد کرکے پابندیاں لگا دی تھیں۔
ذرائع نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ مغرب پر انحصار کے باوجود پاکستان اپنے خارجہ پالیسی آپشنز میں تنوع کا خواہاں ہے۔